اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ
الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
۶ فروری ۲۰۱۷ کو پیر اور منگل کی درمیانی شب میں ۱۱ بجکر ۴۰ منٹ پر ایک شخص
نے بیت اﷲ (خانۂ کعبہ) کے غلاف پر پٹرول چھڑک کر آ گ لگانے کی ناکام کوشش
کی ، اُس شخص کے عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہی کم ہے۔ اس شخص کو
گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس موقعہ پر بیت اﷲ کی تاریخ اور اس کی عظمت سے متعلق
ایک مختصر مضمون پیش ہے۔
بیت اﷲ شریف اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو
کعبہ بھی کہتے ہیں۔ بیت اﷲ مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے اور قیامت تک یہی
مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہ پہلا گھر ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے
زمین پر بنایا۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف
رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کے لئے بھی بیت اﷲ کا طواف بند نہیں ہوتا
ہے۔ بیت اﷲ کی اونچائی ۱۴ میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش ۱۲ میٹر
ہے۔ بیت اﷲ کے ایک کونہ پر حجر اسود لگا ہوا ہے، اسی کے سامنے سے طواف شروع
کیا جاتا ہے۔ دوسرے کونہ کا نام رکن عراقی ہے جہاں سے حطیم شروع ہوتا ہے۔،
تیسرے کونہ کا نام رکن شامی ہے جہاں حطیم ختم ہوجاتا ہے۔ تیسرے کونہ کو رکن
یمانی کہا جاتا ہے۔بیت اﷲ کے اندر تین ستون ہیں۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے
پاس سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بیت اﷲ پر
پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور
اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق بیت اﷲ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔
قبیلہ ٔ بنی شیبہ مکہ مکرمہ میں قریش قبیلہ کا ایک مشہور خاندان ہے۔ عرصۂ
دراز سے بیت اﷲ کی کنجی (چابی) اسی خاندان کے سربراہ کے پاس رہتی ہے۔ ہجرت
سے قبل خانۂ کعبہ کی کنجی اسی خاندان کے ایک فرد حضرت عثمان بن طلحہ ؓکے
پاس رہا کرتی تھی جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بیت اﷲ پیر اور
جمعرات کے دن کھولا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ تشریف لائے اور حضرت
عثمان بن طلحہ ؓ سے بیت اﷲ کا دروازہ کھولنے کو فرمایا تو حضرت عثمان بن
طلحہ ؓ نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: اے عثمان!
آج تم یہ دروازہ کھولنے سے انکار کررہے ہو، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ بیت
اﷲ کی یہ کنجی میرے قبضہ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا یہ کنجی دوں گا۔
حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے کہا تو کیا اُس دن قوم قریش ہلاک ہوچکی ہوگی؟ پھر
جب ۸ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا اور سید الانبیاء وسید البشر حضرت محمد
مصطفیﷺ کسی جنگ وجدال کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو سب سے
پہلے بیت اﷲ میں تشریف لائے اور کلید بردار حضرت عثمان بن طلحہ ؓ سے کہا،
لاؤ وہ کنجی میرے حوالہ کردو۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓنے وہ چابی حضور اکرمﷺ
کے سپرد کردی۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ نے کنجی لے کر حضرت عثمان بن
طلحہ ؓسے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: چابی رکھو، میں بھی تم ہی کو کلید بردار
مقرر کرتا ہوں۔ یہ کنجی میں صرف تم کو نہیں دے رہا ہوں بلکہ تمہاری نسلوں
کے حوالہ کررہا ہوں۔ تم سے کوئی ظالم ہی یہ کنجی لے گا۔ حضرت عثمان بن طلحہ
ؓ نے جب دوبارہ کنجی لی تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا:عثمان! وہ دن یاد ہے جب
میں نے تم سے بیت اﷲ کی کنجی طلب کی تھی اور تم نے دروازہ کھولنے سے انکار
کردیا تھا، اور میں نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ کنجی میرے
قبضہ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے کہا:
ہاں حضور، مجھے یاد ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ؓکی خواہش تھی کہ بیت اﷲ کی
چابی ان کو دے دی جائے تاکہ حاجیوں کو پانی پلانے کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی
ان کے خاندان یعنی بنو ہاشم کو دے دی جائے۔ مگر قربان جائیے رحمۃ للعالمین
پر کہ آپ ﷺ نے وہ کیا جس کا حکم اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیا۔ اس وقت سے لے کر
آج تک بیت اﷲ کی کنجی اسی خاندان کے سربراہ کے پاس رہتی ہے۔یہ جو مشہور ہے
کہ فلاں عالم کے پاس بیت اﷲ کی چابی ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ اُن کوسعودی
حکومت کی جانب سے یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ کلید بردار کے ذریعہ بیت اﷲ میں
داخل ہوسکیں۔
موجودہ سعودی حکومت میں ہر سال تین مرتبہ بیت اﷲ کا دروازہ کھولاجاتا ہے۔
ایک ۹ ہجری کو غلاف کعبہ کی تبدیلی کے وقت اور شعبان ومحرم الحرام کے مہینہ
میں غسل کعبہ کے موقع پر۔ بیت اﷲ کا دروازہ خالص سونے سے بنا ہوا ہے، اس کی
لمبائی ۲۲۲ سینٹی میٹر جبکہ چوڑائی ۱۷۱ سینٹی میٹر ہے۔ بیت اﷲ کے تالے کی
کنجی ۳۵ سینٹی میٹر لمبی ہے۔ بنو شیبہ خاندان میں سے جو شخص سب سے زیادہ
عمر رسیدہ ہوتا ہے اﷲ کے مقدس گھر کی کنجی اسی کے پاس رہتی ہے اور انہیں
حکومت کی طرف سے وظیفہ بھی ملتا ہے۔ اس وقت شیخ عبد القادر شیبی حضرت عثمان
بن طلحہ ؓ کے ۱۰۸ ویں نائب ہیں، جن کو ۲۰۱۳ میں مکہ مکرمہ کے گورنر جناب
خالد فیصل نے خالص سونے کے بنے ہوئے نئے تالے اور کنجی کو غسل کعبہ کے موقع
پر ان کے حوالہ کیا۔ بیت اﷲ کی اس نئی چابی کی چھ سمت ہیں۔ پہلی سائڈ پر
’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘، دوسری سائڈ پر ’’خادم الحرمین الشریفین کی
جانب سے ہدیہ‘‘، تیسری سائڈ پر شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز، چوتھی سائڈ پر
۱۴۳۴ھ، پانچویں سائڈ پر سورۃ المائدہ کی ۹۷ ویں آیت ’’جَعَلَ اللّٰہُ
الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِلنَّاسِ‘‘، اور چھٹی سائڈ پر
سورۃ آل عمران کی ۹۶ ویں آیت ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتَ وُضِعَ لِلنَّاسِ
لَلَّذِیْ بِبِکَّۃَ مُبَارَکاً وُہُدیً لِلْعَالَمِیْن‘‘ تحریر ہے۔
بیت اللّٰہ کی تعمیریں: بیت اﷲ کی مختلف تعمیریں ہوئی ہیں، چند مشہور
تعمیریں حسب ذیل ہیں: ۱) حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل سب سے پہلے
اس کی تعمیر فرشتوں نے کی۔ ۲) حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر۔ ۳) حضرت شیث
علیہ السلام کی تعمیر۔ ۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کی۔ حضرت
ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی بیت اﷲ کی تعمیر کو خصوصی اہمیت
حاصل ہوئی، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے:
اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور اسماعیل
بھی (ان کے ساتھ شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے
پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرمالے۔ بیشک تو، اور صرف تو ہی، ہر ایک کی
سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۱۲۷) ۵) عمالقہ کی تعمیر
۶) جرہم کی تعمیر (یہ عرب کے دو مشہور قبیلے ہیں)۔ ۷) قصی کی تعمیر جو حضور
اکرم ﷺ کی پانچویں پشت میں دادا ہیں۔ ۸) قریش کی تعمیر، اس وقت نبی اکرم
ﷺکی عمر ۳۵ سال تھی اور آپ ﷺ نے اپنے ہی دست مبارک سے حجر اسود کو بیت اﷲ
کی دیوار میں لگایا تھا۔ ۹) ۶۴ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حطیم
کے حصہ کو کعبہ میں شامل کرکے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی اور دروازہ کو زمین
کے قریب کردیا، نیز دوسرا دروازہ اس کے مقابل دیوار میں قائم کردیا تاکہ ہر
شخص سہولت سے ایک دروازہ سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ حضور
اکرمﷺ کی خواہش بھی یہی تھی۔ ۱۰) ۷۳ھ میں حجاج بن یوسف نے کعبہ کو دوبارہ
قدیم طرز کے موافق کردیا، یعنی حطیم کی جانب سے دیوار پیچھے کو ہٹادی اور
دروازہ اونچا کردیا، دوسرا دروازہ بند کردیا۔ ۱۱) ۱۰۲۱ھ میں سلطان احمد
ترکی نے چھت بدلوائی اور دیواروں کی مرمت کی۔ ۱۲) ۱۰۳۹ھ میں سلطان مراد کے
زمانے میں سیلاب کے پانی سے بیت اﷲ کی بعض دیواریں گر گئیں تھیں تو سلطان
مراد نے ان کی تعمیر کرائی۔ ۱۳) ۱۴۱۷ھ میں شاہ فہد بن عبد العزیزنے بیت اﷲ
کی ترمیم کی۔
غلاف کعبہ: بیت اﷲ شریف جو بے حد
واجب التعظیم عبادت گاہ اور متبرک گھر ہے، اسے ظاہری زیب وزینت کی غرض سے
غلاف پہنایا جاتا ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ
السلام نے پہلا غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا
تھا جو نبی اکرم ﷺ کے بیسویں پشت میں دادا ہیں ۔ یمن کے بادشاہ (تبع
الحمیری) نے ظہور اسلام سے سات سو سال قبل کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ زمانۂ
جاہلیت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن یمن کا
بنا ہوا کالے رنگ کا غلاف کعبہ شریف پر چڑھایا۔ آپ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے سفید کپڑا چڑھایا۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور حضرت
عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنی اپنی خلافت کے زمانے میں نئے نئے غلاف بیت اﷲ
(کعبہ) پر چڑھائے۔ خلافت بنو امیہ کے ۹۱ سالوں کے اقتدار کے زمانے میں اور
پھر بنو عباس کے پانچ سو سال کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ باقاعدہ جاری رہا،
کبھی سفید رنگ کا کبھی سیاہ رنگ کا ، مگر ۵۷۵ھ سے آج تک غلاف کالے ہی رنگ
کا چڑھایاجاتا ہے۔ ۷۶۱ھ سے قرآن کریم کی آیات بھی غلاف پر لکھی جانے لگیں۔
موجودہ زمانے میں عام طور پر ۹ ذی الحجہ کو ہر سال کالے رنگ کا غلاف تبدیل
کیا جاتا ہے۔ گزشتہ زمانوں میں مختلف تاریخوں میں غلاف تبدیل کیا جاتا تھا،
کبھی ۱۰ محرم الحرم، کبھی ۲۷ رمضان اور کبھی ۸ یا ۹ یا ۱۰ ذی الحجہ۔
حطیم:یہ دراصل بیت اﷲ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ
ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑکر بیت اﷲ کی تعمیر
کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر
نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اﷲ ﷺ میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور
فرمایا: جب تم بیت اﷲ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں)
کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اﷲ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اﷲ
(کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے
بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ اِن دِنوں بیت اﷲ کے اندر داخل ہونا تو
ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے، لیکن حطیم میں جاکر ہر شخص نماز ادا کرسکتا
ہے، دعا کرسکتا ہے۔ بیت اﷲ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی
جگہ (پرنالہ) میزاب رحمت کہی جاتی ہے۔
حجر اسود: حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کی
روشنی ختم کردی ہے، اگر اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب
کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ
دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ حجر
اسود کو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو
آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی
دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔
مُلتزم: ملتزم کے معنی ہے چمٹنے کی جگہ، حجر اسود اور بیت اﷲ کے دروازے کے
درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے،
حضور اکرم ﷺ نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگیں تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے
کی خاص جگہ ہے۔
رکن یمانی: بیت اﷲ کے تیسرے کونہ کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی پر لگے
پتھر کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو
شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: (رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وّفِی
الْاخِـرَۃِ حَسَنَۃً وّقِنَا عَذَابَ النّارِ) تو وہ سب فرشتے آمین کہتے
ہیں ، یعنی یا اﷲ! اس شخص کی دعا قبول فرما۔
مقام ابراہیم:یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
کعبہ کو تعمیر کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے
نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ
ہے جس کے اطراف میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔حجر اسود کی طرح یہ پتھر
بھی جنت سے لایا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اﷲ
تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ |