فیڈرل بور ڈآ ف ریونیونے سالِ گزشتہ یعنی
2016کے ٹیکس آڈٹ کیلئے 115سیاستدانوں ارکانِ پارلیمنٹ،وفاقی اور صوبائی
وزراء، سپیکرز اورسینیٹرزسمیت93ہزار277ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کئے ہیں
ان اہم اورنمایاں سیاسی شخصیات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان،سپیکرقومی اسمبلی آیازصادق،وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ
شہباز،ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی مرتضیٰ جاویدعباسی ،وزیردفاع خواجہ
آصف،وزیرقانون زاہدحامد،سپیکرپنجاب اسمبلی رانامحمداقبال،اپوزیشن لیڈر میاں
محمودالرشید،وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ،سپیکرسندھ اسمبلی آغاسراج
درانی،شرجیل میمن اوردیگر،جبکہ اسی طرح خیبرپختونخوااوربلوچستان سے بھی
مختلف چھوٹے بڑے سیاستدانوں کوٹیکس آڈٹ کیلئے نوٹسزجاری کئے گئے ہیں اخباری
رپورٹ کے مطابق عمران خان کی ظاہرکردہ آمدنی واثاثہ جات اورٹیکس میں بڑے
پیمانے پرفرق کی بنیادپران کانام آڈٹ میں شامل ہواہے عمران خان نے ٹیکس
ائیر2013میں ایک لاکھ 94ہزار936روپے،2014میں 2لاکھ18ہزار237روپے
جبکہ2015میں صرف76ہزار244روپے ٹیکس اداکیاجو2015کے مقابلے
میں1لاکھ41ہزار993روپے کم ہے،سپیکرقومی اسمبلی آیازصادق نے
2013میں1لاکھ48ہزارروپے،2014میں3لاکھ27ہزار895روپے
جبکہ2015میں13لاکھ73ہزار15روپے ٹیکس اداکیا ایف بی آرذرائع کاکہناہے کہ
سپیکرقومی اسمبلی کی جانب سے ٹیکس میں مسلسل اضافے کے باوجودانہیں آڈٹ
کیلئے منتخب کیاگیاہے کیونکہ وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیوکی جانب سے وضع کردہ
دیگرپیرامیٹرزکی زدمیں آتے ہیں حمزہ شہبازنے ٹیکس
ائیر2013میں43لاکھ83ہزار138روپے،2014میں48لاکھ 88ہزارروپے
جبکہ2015میں63لاکھ30ہزارروپے ٹیکس کی مدمیں جمع کرائے ان تین اہم سیاسی
شخصیات کی جانب سے ٹیکس کی مدمیں جمع کرائی گئی رقوم میں سے حمزہ شہبازشریف
کاٹیکس کسی حدتک قابل قبول ہے اورانکی طرززندگی سے مطابقت رکھتاہے انکے
علاوہ سپیکرقومی اسمبلی کے ٹیکس کی تفصیلات اگرچہ ٹیکس گوشواروں میں
موجودہونگی مگران کاٹیکس بھی انکی لائف سٹائل سے لگانہیں کھاتاپھربھی
2015میں تقریباً14لاکھ روپے کاٹیکس اس بات کاعندیہ دیتی ہے کہ انہیں ٹیکس
اداکرنے کاکچھ احساس ہے اوروہ سال بہ سال قومی خزانے میں جمع
کرایاگیااپناٹیکس بڑھارہے ہیں جبکہ عمران خان کاٹیکس فگردیکھ کرآدمی کی
ہنسی چھوٹ جاتی ہے جہازوں میں سفرکرنے والے،کروڑوروپے کی گاڑیوں میں گھومنے
والے ،وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں سینکڑوں ایکڑکے اربوں روپے مالیتی
محل میں رہنے والے،قیمتی زرعی اراضی کی ملکیت رکھنے والے ،آف شورکمپنی کے
مالک اوردیگرلاتعدادکمپنیوں میں شئیرزرکھنے والے اور’’ٹیکس قومی امانت ہے
‘‘کے لیکچردینے والے سیاستدان کاٹیکس محض 76ہزارروپے؟ایمانداری سے ٹیکس
ادانہ کرنے کی یہ ایک معمولی سی مثال ہے اس ملک میں ٹیکس چوری دھڑلے سے
ہورہی ہے سیاستدان چونکہ ’’پبلک فگر‘‘ ہوتے ہیں اس لئے انکے اوپرعوام کی
نظرہوتی ہے اوربجاطورپہ یہ تجسس ہوتاہے کہ شاہانہ طرززندگی گزارنے والے
’’راہنمایانِ قوم‘‘ کی جانب سے قومی خزانے میں کتناٹیکس دیاجاتاہے ایک تواس
ملک کاٹیکس سسٹم اورپھرعدالتی نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ کسی سیاستدان
یاکاروباری شخصیت کی ٹیکس چوری پکڑناممکن نہیں اوراگرکہیں ایسی بات سامنے
آبھی جاتی ہے توعدالتی نظام کی پیچیدگیاں اس پرپردہ ڈالنے کیلئے کافی ہیں
یہاں میں آپکوٹیکس چوری کی ایک چھوٹی سی مثال دیناچاہوں گا90کی دہائی میں
ایکسائیزکی جانب سے ہوٹلوں پر7%بیڈٹیکس لاگوتھامیرے ذاتی تجربے میں یہ بات
آئی کہ ہوٹل والے ماہانہ سیل آٹھ دس ہزارروپے دکھاکردوچارسوروپے کاٹیکس
بھرتے تھے ان میں ایکسائیزاہلکارکوالگ سے پانچ سات سوروپے دئے جاتے تھے
اوراس طرح جس ہوٹل کاماہانہ بجلی بل 30چالیس ہزارروپے
ہوتاتھاایکسائیزریکارڈمیں اس کاٹوٹل سیل 8000روپے ہوتاتھادوچارسوروپے کی
رقم ایکسائیزاہلکاروں کی آنکھوں پرایسی پٹیاں باندھ لیتی تھی کہ انہیں ہوٹل
مالکان سے حقیقی سیل کے بارے میں معلوم کرنے کی توفیق تک نہیں ہوتی تھی صرف
یوٹیلیٹی بلزکی صورت میں ساٹھ ہزارروپے جمع کرانے والوں کی ٹوٹل ماہانہ سیل
آٹھ ہزارروپے؟ یہی صورتحال ٹیکس کے دیگرشعبہ جات میں بھی موجودہے کسی بڑے
سپرسٹورکی ایک دن کی سیل ٹیکس گوشواروں میں پورے مہینے کی سیل دکھائی جاتی
ہے بیس لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے سالانہ آمدن دس لاکھ ظاہرکرکے
ہزاردوہزارروپے کاٹیکس قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں حالانکہ جتناوہ ٹیکس
اداکرتے ہیں اس سے کئی گنازیادہ رقم ریزگاری کی صورت میں خیرات کردیتے ہیں
اوراس تمام گنجلک دھندے میں ٹیکس اہلکاران کابھرپورساتھ دیتے ہیں میں نے
محکمہء ٹیکس کے چپڑاسیوں کے پاس بھی دوتین بنگلے اوردس دس لاکھ روپے مالیت
کی کاریں دیکھی ہیں بدقسمتی ہے اس ملک کی کہ ناہی تویہاں لوگ ایمانداری سے
ٹیکس اداکرتے ہیں اورناہی ٹیکس اہلکاراپنے فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں
اسکے علاوہ ٹیکس گوشوارے ،کاغذات اورنظام اس قدرپیچیدہ ہے کہ وکیل کے
بغیرکوئی شہری ٹیکس اداہی نہیں کرسکتالہٰذاکوئی چاہے کتناہی ایماندارکیوں
نہ ہواورکوئی شہری دیانتداری سے ٹیکس اداکرنے کاخواہاں کیوں نہ ہومگرٹیکس
نظام اس قدرپیچیدہ،مشکل اورگنجلک ہے کہ بندہ بے ایمانی کیلئے مجبورہوجاتاہے
عمران خان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگرایمانداری سے ٹیکس اداکیاجائے
تواس ملک کوبین الاقوامی ساہوکاروں اورسودخوروں سے قرض لینے کی ضرورت ہی
نہیں رہے گی مگرجلسوں میں ٹیکس کی افادیت پرمنہ سے جھاگ اڑانے والے خان
صاحب کاٹیکس ملاحظہ کیاجائے تواچھابھلاآدمی اس ملک کے مستقبل سے مایوس
ہوجاتاہے انکے علاوہ بہت سے دیگرسیاستدانوں اورممبرانِ پارلیمنٹ کالائف
سٹائل اوراداشدہ ٹیکس اس بات کی غمازی کرتاہے کہ ہمارے قومی راہنمااس ملک
وقوم کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں آج اگراس ملک کاکاروباری طبقہ اورسیاستدان
ایمانداری سے ٹیکس اداکریں توکوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاں ہسپتالوں کی کمی
ہواوراس ملک کاکوئی شہری ایڑھیاں رگڑرگڑکرجہانِ فانی سے کوچ کرجائے ملٹی
نیشنل کمپنیاں جواپنے ملک میں ٹیکس ایمانداری سے دیتی ہیں ہمارے ہاں آکروہ
بھی اپنی یہ ایمانداری بھول جاتی ہیں وجہ اسکی یہی ہے کہ یہاں ٹیکس کلچرہی
موجودنہیں ہم نے اگراقوام عالم میں بلندمقام حاصل کرناہے توحقیقی ٹیکس
کلچرکوفروغ دیناہوگاامیروں سے ٹیکس لیکرغریبوں پرخرچ کرناہوگاموجودہ ٹیکس
نظام کی مکمل اوورہالنگ اوراصلاح ضروری ہے ہوٹل بیڈ ٹیکس جیسے نظام سے
معیشیت کی ترقی دیوانے کاخواب ہی قراردی جاسکتی ہے اس سسٹم میں لوگ
جتناٹیکس جمع کراتے ہیں اس سے کئی گنازیادہ ریزگاری بانٹ دیتے ہیں یہاں
ٹیکس بچانافخرکی بات سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ ٹیکس بچانانہیں ٹیکس چوری ہے
جو قومی جرم ہے اور اس جرم کی کڑی سزاہونی چاہئے ’’ جودے اس کابھی
بھلااورجونہ دے اس کابھی بھلا‘‘والے نظام سے ملک نہیں بنتے۔ |