پاکستان سمیت دُنیا کے مختلف ممالک میں
ذہنی مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجوہات کی نشاندہی اور عوام الناس میں
ان کے بارے میں شعور پیدا کرنا آج کے دور میں بہت اہم ہو گیا ہے۔ لہذا اس
سلسلے میں مسلمانوں کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ مولانا اشرف تھانوی جیسی
عالمانہ شخصیت نے بھی اہم خدمات انجام دیں۔جن کے طریقہِ علاج کو آج بھی
اہمیت دی جاتی ہے۔اُنکے اس طریقہ کار کو بیان کرنے سے پہلے چند الفاظ میں "نفسیاتی
فلسفہ" بیان کرنا ضروری ہے۔
نفسیات ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کی بنیاد زندگی کے فلسفے پر رکھی
گئی۔نفسیاتی علاج میں ہم ایک مخصوص طریقہ کار کو زیرِ استعمال لاتے ہیں اور
اس کی مددسے ہم ذہنی طور پر معذور لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ذہنی علاج کے
ان گنت طریقے رائج ہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم کسی خاص طریقہ کار کو زیرِ
بحث لائیں یہ ضروری ہے کہ ہم "انسانی فطرت Nature of Man "،"معیاری
انسان"Normal Man اور معمول سے دوری کو جانیں۔
انسانی فطرت:Nature of Man
انسانی فطرت کو جاننا کوئی آسان کام نہیں۔لیکن عام طور پر ہم انسانی فطرت
یا (انسانی کردار) کو شخصیت Personality کی اصطلاح میں استعمال کرتے ہیں۔اس
وقت تک شخصیت کے بے شمار نظریات پیش کیئے جا چکے ہیں۔لیکن یہ تمام نظریات
کسی ایک مشترکہ بنیاد پر وجود میں نہیں آئے۔ان میں سے ہر نظریے کی بنیاد
مختلف عقائد پر ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم کسی شخص کو اس کے ماحول سے الگ
نہیں کر سکتے ہیں۔
ہر انسان کی ایک تاریخ ایک ورثہ ہوتا ہے جو کہ وہ زندگی بھر اپنے ساتھ لیئے
پھرتا ہے۔انسان کوئی چیز نہیں بلکہ مواتر عمل ہے۔وہ اپنے جسم و روح میں بہت
سی تبدیلیاں محسوس کرتا رہتا ہے۔کیونکہ وہ ایک مخصوص حالت میں ہمیشہ نہیں
رہ سکتا ۔اسلیئے انسان کی فطرت کو چند حروف پر مشتمل تعریف Defination میں
بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
معیاری انسان:Normal Man
عام طور پر ماہرینِ نفسیات معیاری انسان کے متعلق چار طریقوں سے بیان کرتے
ہیں:
* شماریاتی طریقہ :Statistical Approach
اس کے مطابق اوسط کو معیاری پن Normalityاور اوسط سے کم یا زیادہ کو غیر
معمولی پن Abnormalityسمجھا جا تا ہے۔ تنقیدی نظر میں اس طریقہ کار میں
خرابی یہ ہے کہ اس سے اوسط سے تعمیری اور غیر تعمیری دوری (فرق) Deviation
دونوں کو ایک جیسی اہمیت دی جاتی ہے۔جو کہ سراسر غلط ہے۔
* ثقافتی طریقہ :Cultural Approach
اس طریقے سے انسان کے معیاری و غیر معیاری پن کو سماجی ڈھانچے کے مطابق
پرکھا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اس طریقہ کار میں ماحول کو زیادہ اہمیت دی
جاتی ہے۔
* ذاتی مشکلات : Personal Hardships
اس طریقے کار میں انسان کو اُسکی ذاتی بے آرامی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔
* تعین معیار کا طریقہ :Normative Approach
اس طریقہ کار میں ایک معیار کا تعین کرنا پڑتا ہے۔جس پر ہم کسی فرد کی ذہنی
حالت جانچ سکتے ہیں۔جتنا کوئی کسوٹی کے قریب یا دُور ہو گا اُتنا ہی بیمار
یا تندرست ہو گا۔اس طریقہ کار میں ہم غیر معیاری پن کو اخلاقیات سے منسلک
کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ہم اس میں جو معیار مقرر کرتے ہیں وہ خالصتاً
اخلاقی معیار ہو تا ہے۔اگر ہم مسلمان علماء کے نظریات اور تحقیقات کا
مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے نظریات Normative
Approachکے زُمرے میں آتے ہیں۔
اسلامی نظریہ :Islamic Concept
انسان کائنات کی تخلیق کے پورے عمل کا موضوع ہے۔مولانا رُومی کے الفاظ میں
انسانی ضروریات خواہ وہ جسما نی ہوں یا ذہنی ،انسانی تشکیل کا حصہ ہیں۔یعنی
یہ دونوں طرح کی ضروریات مل کر مکمل انسان کی تشکیل کرتی ہیں۔قرا ن کریم کے
مطابق اچھائی و برائی انسان کے دل میں جنم لیتی ہے۔
امام غزالی (1111ء ۔1058ء)کے مطابق نفسیاتی عمل انسان کے نفس میں جنم لیتا
ہے اور قلب ہی نفس ہے۔قلب انسانی جسم اور روح کا مرکز ہے۔اسلیئے اُنھوں نے
جسمانی دل کو روحانی قلب سے منسلک کر دیا ہے۔کیونکہ اُنکے مطابق عربی زبان
میں" خودی" کا مطلب چار مختلف اصطلاحات میں استعمال کیا گیا
ہے۔۱)قلب،۲)روح،۳)نفس، ۴)عقل ۔لیکن جیسا کہ الفاظ " خودی" سے ظاہر ہوتا ہے
کہ قلب، روح ،عقل اور نفس اس میں جنم لیتے ہیں۔لہذاامام غزالی کے مطابق دو
مختلف طاقتیں یعنی مُثبت اور منفی ہر وقت انسان کی شخصیت میں بر سرِ پیکار
رہتی ہیں۔ اور انہی دو طاقتوں میں توازن ایک معیاری انسان کیلئے ناگزیر ہے۔
چنانچہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان ایک Biosocial تخلیق ہے جو کہ اپنے
اندر روحانی قوت رکھتا ہے اور اس کے علاوہ اسکا کسی (غیر معمولی) چیز یا
طاقت سے بھی رابطہ ہو تا ہے۔مسلمان علماء اس (غیرمعمولی)طاقت کو خُدا کا
نام دیتا ہیں اورغیر مسلم علماء اس کو Elemental Force of Nature کہتے ہیں۔
امام غزالی اور ابنِ عربی نے غیر معیاری پن کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ان
کے ساتھ اُنکی علامات کی نشاندہی بھی کی ہے جو کہ اُن بیماریوں سے منسلک
ہیں۔جدید ماہرینِ نفسیات اور مسلمان ماہرین نفسیات میں فرق صرف مرض کو نا م
دینے کی حد تک ہے۔جدید ماہرین اسکو "رسمی Functional " اور مسلمان مفکر
اسکو" روحانی" ہونے کا نام دیتے ہیں۔ان دونوں حالتوں میں نفسیاتی حالتیں
مشترک ہیں۔قرانِ کریم کے مطابق ان امراض کی اصل وجہ حسد،دُوری اور شک و
شبہات ہیں۔اور علاج "علم کا حصول ہے"۔ |