مجھے سکیورٹی ایجنسیوں سے کوئی شکایت نہیں
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
کوئٹہ
میں ہونے والی پاسنگ آوٹ پریڈ دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے بہت جلد اس ملک میں
بھی امن کی روشن صبح طلوع ہونے والی ہے بہت سالوں میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے
میں آرہا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور فوج کی اعلیٰ قیادت ملک
کے بہتر مستقبل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہے ہیں کوئٹہ میں ہونے والی
تقریب میں اپنے خطاب میں وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف نے کہا کہ پوری قوم
اور سارے قومی ادارے ملک میں دیر پا امن کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں ہم نے
بحیثیت قوم دہشتگردوں کو ہر حال میں شکست دینی ہے یہ ہماری معاشی اور
معاشرتی زندگی کا سوال ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا بھی اسی میں
ہے۔ہم اس بات کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان کو
دہشت گردی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے ملک میں ہونے والے آئے روز خود کش
حملے ہر روز ہم سے ہمارے اپنوں کو دور کر رہے ہیں مگر غور کریں تو لگتا ہے
کہ ان درندوں کا حدف زیادہ تر ملک کے حساس ادارے رہے ہیں یا ان گمراہ لوگوں
نے مذہبی مقامات کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف ہماری عبادات
کے مقام پر منظم انداز میں حملے کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاک فوج، پولیس
اور دوسرے حساس ادارے ان کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی
جانے والی جنگ جس کا پورے ملک میں آغاز ہو چکا ہے اس کو جیتنے کے لیے ہمیں
بہت صبر و تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پورے ملک میں امن و امان
کو قائم کرنے کے لیے ہمیں آپسی اتحاد کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر عمل
کرنا ہو گا اور ایک ایسے دشمن سے جو ہماری اپنی صفوں میں ہی چھپا بیٹھا ہوا
ہے اس سے بہت ہوشیار رہنا ہو گا۔ بیشک ہماری بہادر فوج کے حوصلے ہمیشہ سے
ہی بلند رہے ہیں ،کل بہت دنوں بعد میں اور میرا عزیز دوست طارق محمود اکٹھے
بیٹھے ہوئے تھے تو طارق نے ملکی سلامتی کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دی ،
تو میں نیت طارق سے سوال کیا کہ کہ تمیں پاکستان میں رہتے ہوئے ڈر لگنا
شروع ہو گیا ھے کیا؟تو عزیز دوست نے بڑے تحمل سے ایک قصہ بیان کیا،ایک ملاح
سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے ابا جان کا انتقال کیسے ہوا تھا تو اس نے جواب
دیا کہ کشتی الٹ گئی تھی اور ابا جان دریا میں ڈوب کر انتقال فرما گئے۔
پوچھنے والے نے پھر پوچھا کہ آپ کے دادا جان کا انتقال کیسے ہوا؟ تو ملاح
نے کہا کہ ان کا انتقال بھی دریا میں ڈوبنے سے ہوا تھا تو اس شخص نے حیرت
کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو پانی سے خوف نہیں آتا‘‘۔ ملاح نے اس شخص
کی باتوں کا جواب دینے کے بعد کہا کہ آپ کے ابا جان کا انتقال کہاں ہوا تھا؟
اس شخص نے کہا کہ چند دن بخار میں مبتلا رہ کر گھر میں انتقال کر گئے۔ ملاح
نے پھر سوال کیا کہ ’’آپ کے دادا جان کا انتقال کہاں ہوا تھا‘‘؟ تو اس شخص
نے جواباً کہا۔ ’’گھر میں‘‘ ملاح نے اس شخص کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو گھر سے ڈر نہیں لگتا‘‘۔ ہم پاکستان میں رہنے والوں سے اگر کوئی شخص
یہ سوال کرے کہ آپ کے ہاں دہشت گردی ہوتی ہے، فرقہ واریت ٹارگٹ کلنگ ہوتی
ہے، بھتہ خوری، ڈکیتیوں اور قتل و غارت کی وارداتیں ہوتی ہیں، آپ کو
پاکستان میں رہتے ہوئے ڈر نہیں آتا۔ ابھی میں یہ سطور تحریر کر ہی رہا تھا
کہ میرے دوست کو اس کی بیوی نے ٹیلی فون کیا۔ آپ اس وقت کہاں ہیں؟ پنجاب
اسمبلی کے سامنے دھماکا ہو گیا ہے‘‘۔ ابھی ہم دھماکے کا افسوس کر ہی رہے
تھے کہ میرے گھر سے بھی ٹیلی فون آگیا۔ گھر والوں نے بتایا کہ آپ اس وقت
کہاں ہیں؟ پہلے صرف دھماکے کا افسوس تھا۔ اب ہلاکتوں کی خبر نے مزید افسردہ
کر دیا۔سانحہ پشاور کے بعد سب سکول کالجز بند کر دیئے گئے۔ سب تعلیمی
اداروں کی دیواریں اونچی کرا دی گئیں اور ان پر خار دار تاریں لگا دی گئیں
تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے اوقات مقرر کر دیئے گئے۔ تعلیمی اداروں میں
کنٹرول روم بھی قائم کر دیئے گئے۔ اساتذہ اکرام اور دیگر عملے کی گاڑیوں
اور موٹر سائیکلوں پر ادارے کے نام پتے والے سٹکرز لگانے بھی انتہائی ضروری
قرار پائے۔ آرمی سکولوں کے باہر فوجی جوان اور پٹرولنگ کرتی فوجی گاڑیاں
بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جب ہم نے اپنی تمام تر توجہ اپنے تعلیمی اداروں پر
مرکوز کر لی تو دہشت گردوں نے مسجدوں، امام بارگاہوں اور پولیس ہیڈ
کوارٹروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ایک صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
ہم دہشت گردی سے محفوظ رہنے کے لئے جو پالیسی بھی بناتے ہیں، اس پالیسی کو
میڈیا کے ذریعے خبروں کی صورت میں نشر کرواتے ہیں۔ یہ خبریں دہشت گردوں کو
گائیڈ لائن مہیا کرتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کے پاس
اتنا اسلحہ اور جنگی وسائل ہیں، جتنا اسلحہ ہماری پولیس، رینجرز اور فوج کے
پاس ہے۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ دہشت گردی برطانیہ میں کیوں نہیں ہوتی،
دہشت گردی امریکا میں کیوں نہیں ہوتی۔ چین میں کیوں نہیں ہوتی، ایران میں
کیوں نہیں ہوتی، سعودی عرب میں کیوں نہیں ہوتی۔ اس طرح بے شمار ممالک کے
نام گنوائے جا سکتے ہیں جہاں دہشت گردی کے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ کیا ان
ممالک کی پولیس، رینجرز اور دیگر سکیورٹی کے آدمی گوشت پوست کے انسان ہوتے
ہیں یا کسی سٹیل مل کے بنے ہوتے ہیں؟ کیا دہشت گردی پر قابو پانے والے
محکموں کے لوگوں کے دس دس ہاتھ اور دس دس ٹانگیں ہوتی ہیں؟ ہمارے ہاں جی
ایچ کیو اور نیول بیس جیسی جگہوں پر حملے ہو چکے ہیں مذہبی جلسے جلوسوں پر
بم پھینکے جا چکے ہیں۔ حملوں کا سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا۔ اب ہم نے دہشت
گردی کے اسباب تلاش کرنے کے حوالے جو ریسرچ ورک کیا ہے، اسے ہم نے اپنی اہم
شاہراؤں کے چوکوں پر بڑے بڑے بورڈوں کی صورت میں آویزاں کر دیا ہے تاکہ
دہشت گردوں کو ہمارے پلان کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جائے۔ ہمیں اپنی
حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں سے کوئی شکایت نہیں ہے اور ان کی نیت بھی صاف
ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ہے، جس کا ثبوت ہمارے سکیورٹی اہل
کار شہادتوں کی صورت میں پیش کر چکے ہیں۔ ہماری شاہراؤں پر دہشت گردی کے
حوالے سے جو ہدایات نظر آتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اس شخص پر نظر
رکھیں جو آپ کے محلے میں اجنبی ہو یعنی وہ کسی سے گْھل مل کر نہ رہتا ہو اس
دور میں تو ہمیں ہر شخص اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ پہلے محلے کے لوگ ایک دوسرے
سے ملتے تھے گپ شپ کرتے تھے اور ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہو جاتے تھے۔
اب تو کسی کے پاس دس منٹ کا وقت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کالعدم
تنظیمیں دوبارہ فعال نہ ہو سکیں۔ اور میں وزیر اعظم اور آرمی چیف سے گزارش
کرتا ہوں کہ اس کے ساتھ ہی سزائے موت کے جن قیدیوں کی رحم کے اپیلیں مسترد
ہو چکی ہیں انہیں پایہ ٓانجام تک پہنچایا جائے اور قانون کا ڈر پیدا کرنے
کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ دہشت گردوں کا جو بھی الہ کار پکڑا جائے اسے
تحقیق کے بعد کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ |
|