جہاں مقبول بٹ شہید اپنے عزم ،حوصلے اوربے مثال استقامت کے پسِ منظر میں دو
جہاں کے لیے امر ہو کر عنداﷲ مقبول ہو ا وہی افضل دورِ حاضر کی سب سے بڑی
جمہوریہ کے دعویدار ملک کی سیکولر اور اہنسا کے بت کو پاش پاش کر نے میں
کامیاب ہو گیا اس لیے کہ ان دونوں کو اس کانگریس نے تختہ دار پر چڑھایا جس
کا نگریس کاآ ٓر ،ایس،ایس،بجرنگ دل ،وی ،ایچ،پی اور بی جے پی کے برعکس
سیکولر اور ’’پیامبر اہنسا ‘‘ہو نے کا دعویٰ ہے ۔مگر دینا جانتی ہے کہ جہاں
مسئلہ کشمیر کے ’’کینسر‘‘ کی موجد کانگریس ہے وہی اس کی تاریخ میں شامل یہ
تضاد بھی قابل غور ہے کہ کانگریس ایک دن کے لیے بھی ’’عملی میدان‘‘میں
سیکولر تنظیم ثابت نہیں ہو ئی ہے یہ کامل انتہا پسند جماعت رہی ہے اور رہے
گی اس لیے کہ اس نے صرف کاغذوں میں سیکولر ازم کا نعرہ درج کر رکھا ہے عملی
طور پر یہ جماعت آر،ایس،ایس سے دس ہاتھ آگے ہے ۔یہی وہ جماعت ہے جس نے نصف
صدی تک بھارت پر حکومت کی ،یہی وہ جماعت ہے جس کی(بقول سابق راجہ سبھا
ممبرارشد مدنی کے) نصف صدی کی حکمرانی کے دور میں بھارت بھر میں مسلمانوں
پرپنتالیس ہزار حملے کئے گئے ،مظفر نگر فسادات تو کل کی بات ہے ،بابری مسجد
کا سارا مسئلہ ہی کانگریس کے دور حکومت میں ابھرا اور خوفناک شکل اختیار کر
گیا ،ہزاروں لوگ مارے گئے اور ہزاروں خاندان اُجڑ گئے مگر مسئلہ پون صدی
گذرنے کے باجود جوں کا توں ہے ۔ یہ کانگریس حکومت ہی تھی جس کے لیڈروں نے
مسئلہ کشمیر کو جنم دیا اور اس مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے دہشت،تباہی ،نسلوں
کی بربادی ،معیشت کی خرابی ،سیاسی بے یقینی ،تعلیمی پسماندگی اور آپسی نفرت
و عداوت کی ایسی نہ بجھنے والی آگ برآمد ہوئی کہ دہائیاں گذر جانے کے
باوجود بھی مسئلہ اسی جگہ زندہ ہے جس جگہ یہ سن سنتالیس میں تھا ۔یہ مسئلہ
کشمیر ہی تھا جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چارلا حاصل جنگیں
چھڑ گئیں جس میں کھربوں ڈالروں کا نقصان اور ہزاروں کی زندگیا ں فنا
ہوگئیں۔ مگر مسئلہ کشمیر اس کے باجود اپنی جگہ زندہ رہا اس سے بھی حیرت کی
بات یہ کہ 1947ء کے تقسیم برصغیر کے وقت چار لاکھ لوگ جموں خطے میں مارے
گئے اور 1990ء کے بعد سارے جموں و کشمیرمیں ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں
،ہزاروں ہندؤ ،مسلم اور سکھ بے گھر ہو کر مہاجرانہ زندگی گزارنے پر مجبور
کر دئے گئے اور آج کی نئی نسلیں اپنی حقیقت تک فراموش کرتی جارہی ہیں اور
وہ نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوکر نہ ہی
نئے علاقوں میں اپنے آپ کو ضم کر پائے اور نہ ہی یہ نئی نسلیں کشمیری رہ
پائیں ۔
کانگریس کی حکومتوں کا دوسرا المیہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ بھی دیکھئے
کہ اس جماعت کے لیڈروں جواہر لعل نہرو سے لیکر سونیا گاندھی تک ہر ایک نے
اس مسئلے کو فوجی سطح پر حل کرنے کے برعکس مذاکرات سے حل کرنے کی نہ صرف
وکالت کی بلکہ بلند بانگ دعوے بھی کرتے رہے مگر یہ باتیں اوردعوئے افسانے
معلوم ہو ئے اس لیے کہ بی ،جے ،پی کے مقابلے میں اس کے اندر کھوٹ کل بھی
تھی اور آج بھی ہے ۔اس جماعت کے دور میں ڈیڑھ سو مرتبہ مذاکرات ہو ئے مگر
حاصل صفر، بلکہ خطے کے پیچیدہ مسائل کے حوالے سے ایک انچ بھی تبدیلی نہیں
آئی اس لئے کہ یہ جماعت جو بھی کام کرتی ہے اس میں دکھاوے کا پہلؤ اور ہوتا
ہے اور حقیقت کا اور ؟؟؟رہی بات بی ،جے ،پی کی یہ اعلاناََ ایک شدت پسند
تنظیم ہے اس کی پالیسی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس کی زبان پر وہی بات
ہوتی ہے جو ان کے دلوں میں ہوتی ہے ،اس کی مسلم ’’دشمنی یا دوستی‘‘بالکل
عیاں ہے اس نے اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی مسئلہ کشمیر کے
حوالے سے مثبت تبدیلی کے اشارے دئے تھے اور وہ بہت آگے جانے کے خواہش مند
تھے اگر لال کرشن ایڈوانی راستے میں حائل ہو کر اس کا راستہ نہ روکتے!تو
شاید اب تک ماحول میں کافی خوشگوار تبدیلی آچکی ہوتی۔ اب تو بی جے پی کا
’’مودی چہرہ ‘‘سامنے آنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ واجپائی والی بی جے پی
بھی نہیں ہے جو سب کچھ کانگریس ہی کی طرح کرتی تھی مگر بول میٹھے بولتی تھی
۔مودی جی اور ڈوول انسانیت اور جمہوریت کش پالیسی پر عمل پیرانظر آتے ہیں
لہذا ان کے وقت میں بھی ہمیں کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کرنی چاہیے ۔
محمدمقبول بٹ کے بعد افضل گورو کی پھانسی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی
ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ تھا ان دونوں پارٹیوں نے مقبول بٹ کی پھانسی سے
کوئی سبق نہیں سیکھا تھا صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے ان دونوں جماعتوں نے
برصغیر کے امن کے ساتھ ساتھ کشمیر کو بھی تباہی اور بربادی کے مقام پر لا
کھڑا کردیا !مقبول بٹ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے ایک علامت بن گیااس
کی پھانسی نے کشمیریوں کے جذبات کو مشتعل کردیا ،کانگریس اور نیشنل کی یہ
تھیوری کسی نے بھی قبول نہیں کی کہ وہ کوئی ڈکیٹ تھا بلکہ بعد کے حالات نے
محمد مقبول بٹ کو ’’بابائے قوم‘‘ بنا دیا اور وہ کشمیر کی تاریخ میں جلی
حروف کے ساتھ لکھے جانے والے ناقابل فراموش شخصیات میں شامل ہو کر تحریک
آزادی کے لیے ایک علامت بن گیا ۔یہ کام سیکولر تنظیم نہیں بلکہ صرف ایک
انتہا پسند جماعت ہی انجام دے سکتی ہے پھر افسوس یہ کہ اسی کے عشرے میں
پھانسی پر لٹکانے کے بعد محمد مقبول بٹ کے خون سے جنم لینے والی تحریک سے
پہلے یا بعد میں بھی حقائق پر مبنی تجزیہ کرنے میں دہلی کے لوگ ناکام رہ
گئے ،بھروقت حل تلاش کرنے کے بعد انھوں نے بھارت کی ساری فوجی قوت میدان
میں جھونک دی جس کے نتیجے میں زخموں کی ان مٹ داستان رقم ہو گئی ،اس لیے کہ
فوج کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل ایک احمقانہ تجربہ تھا جو دلی باربار دہرا
رہی ہے ۔ایک لاکھ کشمیریوں کی موت اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود آج
بھی دلی کے پالیسی ساز ادارے جوں کی توں پوزیشن پر کاربند نظر آتے ہیں
حالانکہ سابق چیف آرمی اسٹاف جرنل ملک نے رٹائر منٹ کے وقت بی ،بی،سی ہندی
سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ فوج نے اپنا کام کر
لیا اب سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کریں مگر
ہم نے دیکھا کہ ’’کانگریس کی سیکولر سرکار‘‘نے ایک قدم بھی اگلی جانب نہیں
بڑھایا اس لیے کہ کانگریس میں عزائم اوربلند حوصلوں کی شدید کمی پائی جاتی
ہے اس سے صرف اقتدار عزیز ہے اور بس؟
محمد افضل گورو کی پوری داستان ہندوستانی نامی دانشوروں کے بقول ہی مشکوک
اور مظلومانہ ہے ایک سابقہ عسکریت پسند کو مجبوری کی حالت میں پولیس آفیسر
نے ایک آدمی کو دلی پہنچانے کا حکم دیا جب اس نے ایسا کیا تو واپسی پر اسے
سرینگر میں گرفتار کر کے دلی پہنچا کر پارلیمنٹ حملے کا ماسٹر مائینڈ قرار
دیا گیا اور اس ماسٹر مائنڈ سے بھی بڑا سرغنہ دلی پولیس نے پروفیسر
عبدالرحمان گیلانی کو قرار دیدیاتھا۔گیلانی کو سپریم کورٹ کے نامی وکیل اور
قانون دان رام جیٹھ ملانی کی خدمات حاصل کرنے کے وسائل میسر تھے اور دوستوں
کی ایک بڑی تعداد نے اس کی بڑی جانفشانی سے ہر محاذ پر مدد کی ،برعکس اس کے
افضل گورو بے رحم ہاتھوں میں پھنسا مظلوم انسان ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا
جس کی سزا صرف پھانسی ہی ہو سکتی تھی ۔پھر المیہ یہ کہ بھارت کی اعلیٰ ترین
عدالت نے ’’انتہائی شرمناک‘‘الفاظ میں افضل کی پھانسی کو برقرار رکھنے کی
نہ صرف حمایت کی بلکہ نچلی عدالت کے فیصلے کو کھول کر تفصیل سے دیکھنے کے
برعکس ’’ہندوستانی عوام کے ضمیر کے اطمینان کے لیے‘‘پھانسی کی سزاکو برقرار
رکھ کردنیائے عدل و انصاف کے چہرے پر وہ داغ ڈالا جس دھبے کو دھونا اس کے
لئے کم سے کم کشمیر میں اب کبھی ممکن نہیں ہو سکتا ہے ۔
افضل گورو کی پھانسی کے حوالے سے سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ
محمد مقبول بٹ کی پھانسی کے کئی عشرے بعدساری دنیا بدل چکی تھی، یورپ سے
لیکر افریقہ اور ایشیا تک سوچوں میں بڑی تبدیلی آئی تھی البتہ یہ ایک
ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر سوچ اور اپروچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی
تو وہ صرف کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی سوچ اور اپروچ تھی۔ یہ لوگ آج بھی
بادشاہوں کی طرح سوچتے ہیں ،ان کے رویے سے یہ بات افضل گورو کی پھانسی کے
بعد اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے ،دلی کی ناقص اور پست سوچ کا نتیجہ یہ ہے
کہ انھوں نے مقبول بٹ کی پھانسی سے کے بعد ’’ناقص اور جُزوی سیاسی فائدے
‘‘کے لیے افضل کو تختہ دار پر چڑھا دیا ،کانگریس کی حکومت باجپا کے پرُشور
مباحثوں سے بوکھلاہٹ کی شکار ہوئی تھی تو انھوں نے بی ،جے ،پی کو پچھاڑنے
کے لیے ایک مظلوم آدمی کو عدالت کے ذریعے قتل کرادیا۔ خدائے لم یزل نے
کانگریس سے ایک مظلوم انسان کے خون کا بدلہ اس انداز میں لے لیا کہ فی
الحال اس کے تمام تر راستے بند ہوچکے ہیں ۔اس المناک داستان کا ایک شرمناک
پہلو یہ بھی ہے کہ محمد مقبول بٹ اور افضل گورو دونوں کے جسد خاکی ابھی تک
تہاڑ جیل کے حکام نے ان کے وارثین کے حوالے نہیں کئے ۔اس کی ذمہ دار بھی
دونوں مواقع پر کانگریس اور نیشنل ہی رہی ۔یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف
ورزی ہی نہیں بلکہ خود آئین ہند کی بھی توہین ہے ،آئین ہند کے رُو سے اگر
کوئی بھی باشندہ یا اس کا شہری کسی بڑے سے بڑے جُرم میں ماخوذ ہو کر پھانسی
جیسے خوفناک سزا تک پہنچا کر تختہ دار پر بھی لٹکادیا جاتا ہے تو بھی اس کے
حقوق اس کے مرتے ہی ختم نہیں ہو تے ہیں بلکہ مردہ جسم کا ہر مذہب اور ہر
قانون میں احترام لازمی اور واجب ہے یہ صرف دلی سرکار کی مطلق العنانیت کا
نتیجہ ہے کہ انھوں نے مقبول بٹ کے بعد محمد افضل گورو کے اجساد کو ان کے
گھر والوں کے سپرد نہیں کیا جو بھارت کے ساتھ ساتھ تاریخ کشمیر میں بھی دلی
سرکارکی نااہلی اور پست ہمتی کے نتیجے میں ایک المناک باب کے طور پر شامل
ہو چکے ہیں ۔مقبول بٹ اور افضل کے بعد کولگام کے ایک گاؤں کا نوجوان مظفر
احمد آج کل خبروں میں ہے۔ جس کو کلکتہ کی ایک نچلی عدالت نے پھانسی کی سزا
سنا کر سب کو ششدر کر دیا ۔اس خبر کے بعد مظفر خبروں میں آگیا اور ہر طرف
اس فیصلے پر تبصرے اور تجزئیے جاری ہیں اور خدشہ اس بات کا ہے کہ مودی
سرکار الیکشنوں کے پیش نظر کانگریس کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے مظفر کو
قربانی کا بکرا بنا کرکہیں پھانسی پر نہ چڑھادیں اس لئے کہ بھارتی عدالتوں
کے گرتے میعارِ عدل میں جب ملک کی’’ اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ‘‘ یہ کہے
کہ ’’گرچہ افضل کے خلاف کوئی مضبوط ثبوت نہیں ہے مگر ملک کے’’ اجتماعی ضمیر
کے اطمینان کے خاطر‘‘ہم سزا برقرار رکھتے ہیں تو دوسری نچلی عدالتوں کا
عالم کیا ہوگا ؟
خیر یہ تو دلی کے ساتھ جڑے کشمیری حریت پسند وں کی داستان کا افسوسناک پہلؤ
ہے ،مگر اس داستان کو دوسرا شرم ناک پہلؤ خود کشمیر کی سیاست سے بھی جڑا
ہوا ہے ،کشمیری قوم دو حصوں میں منقسم ہے ہند نواز کشمیری اور حریت پسند
کشمیری؟دونوں کے نزدیک عدالتوں میں محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کے ساتھ
’’انصاف‘‘ نہیں ہواہے ،دونوں کے خیال میں آخری رسومات ان کے گھر والوں کا
حق ہے ! مگر کیا وجہ ہے کہ کشمیرکی مین اسٹریم دلی کو اس نازک مسئلے پر خوب
گالیاں دیتے ہیں مگر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں
؟انجینئر عبدالرشید ایم ،ایل،اے لنگیٹ نے منتخب ہو نے کے بعداسمبلی ایوان
میں باربار افضل گورو کا مسئلہ اُٹھایا کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کو تمل
ناڈو کی اسمبلی کی تقلید کرتے ہو ئے افضل کی پھانسی پر روک لگانے کے لیے
قرارداد پاس کرنی چاہئے ،قرارداد کو جس حقارت کے ساتھ مین اسٹریم نے ٹھکرا
دیا کے بعد انھیں اب واویلا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ،ان لوگوں نے افضل
گورو کو پھانسی دینے کے لیے اپنے عمل سے ساری روکاوٹیں دور کردیں ،دلی کے
لیے جہاں باجپا نے ہنگامہ برپا کر کے ’’دہشت گردی‘‘کے لیے نرم گوشہ رکھنے
والوں کے طور پر پیش کیا تھا وہیں کشمیر کی مین اسٹریم نے ’’قراردادا پاس
نہ کر کے ‘‘میدان خالی چھوڑ کر تمام روکاوٹیں دور کردیں تھیں لہذا یہ مین
اسٹریم کی دوغلی سیاست اور کھلی منافقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے نہ کہ تنہا
دلی سرکار کی سنگدلی۔پی ڈی پی نے پھانسی کے بعد یہ تاثر دینے کی بڑی ناکام
کوشش کی کہ ہمیں پھانسی دینے کی قبل از وقت اطلاع نہیں تھی اور یہ عمر
عبداﷲ اور ریاستی کانگریس کی مرکز کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ تھا حالانکہ
بعض ذرائع کا اصرار ہے کہ ان دونوں مقامی پارٹیوں کو پہلے ہی مرکزی حکومت
نے اعتماد میں لیاتھا البتہ ووٹ سیاست کے لیے انھوں نے سارا گندھ مرکز کے
سر پھینک ڈالا ،مرکز کی کمزوری روزاول سے کشمیر میں یہ رہی ہے کہ وہ مین
اسٹریم کے سوا کسی کی بات پر اعتماد نہیں کرتا ہے حالانکہ غور سے دیکھا
جائے تو یہاں کی مین اسٹریم دو فیملیوں کی تگ و دو کا نام ہے یہ دو خاندان
جس طرح چاہتے ہیں دلی کو کشمیر کے مسائل باور کراتے ہیں اور دلی میں
برسراقتدار چند بااثر خاندان اپنی دوستی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتے
ہیں یہاں تک کہ کشمیریوں کی بھی؟ عقل اس مفروضے کو کبھی بھی قبول نہیں کر
سکتی ہے کہ مین اسٹریم میں غالب دو خاندان ہی سب کچھ ہیں مگر دلی کی آنکھیں
جب پون صدی میں نہیں کھلی تو اب کیوں کھل سکتی ہیں !جس سیاست کی بنیاد لالچ
اور جھوٹ پر ہو اس کی کوکھ سے کسی سچائی یا اچھائی کے برآمد ہونے کی اُمید
رکھنا کارِعبث ہے۔
اب آزادی پسند خیمے کی جانب ایک نظر دوڑایئے تو سوالات کا انبار جنم لیتا
ہے ،اٹھائیس سالہ تحریکی تجربات کی روشنی میں یہ بات بلا کسی خوف و تردید
کے لکھی اورکہی جا سکتی ہے کہ تحریکی حلقوں میں ’’زندہ رُفقاء اور کارکنان
‘‘کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں سابق عسکریت پسندوں
کو ’’نشانِ عبرت‘‘بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی ؟تحریکی حلقوں
(چاہئے وہ سیاسی ہوں یا عسکری)کو صرف ’’شہیدوں‘‘کی حاجت اور تلاش رہتی ہے
جو محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کے بعد اب مظفر کی شکل میں انھیں مل
گیا ۔نو فروری 2013ء تک کسی کو افضل کی کوئی فکر نہیں تھی یہاں تک کہ دلی
والوں نے اس کو پھانسی پرچڑھا دیا مگر جوں ہی افضل کی ’’شہادت‘‘کی افسوسناک
خبر کشمیر پہنچ گئی تو گویا لیڈروں کی من چاہی مراد پوری ہو گئی اس لیے کہ
یہ لوگ ’’حادثات‘‘کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اس سے قبل اور بعد انھیں ان
حادثات کی ایندھن بننے والوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے ۔ افضل گورو کوعدالت
سے پھانسی کی سزا ہونے کے کئی سال بعد تک جب وہ تہاڑ جیل میں تنہائی کے
ایام کاٹ رہا تھا تو ’’لیڈرانِ کرام ‘‘کس جہاد میں مصروف تھے یہاں تک کہ
افضل کے موت کی خبر کشمیریوں کو صبح سویرے اس وقت سنائی گئی جب کشمیر کا
چپہ چپہ سیکورٹی فورسز کے سخت ترین کرفیو سے خاکی نظر آرہا تھا ،سچی بات یہ
ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اس اسٹیٹمنٹ کو اندر ہی اندر قبول کیا جا
چکا تھا جو اس نے افضل گورو کو پھانسی پر چڑھانے سے کئی سال پہلے ایک نچلی
عدالت میں دلی پولیس کے ذریعے پیش کیا تھا کہ افضل پارلیمنٹ حملے کا ماسٹر
مائینڈ ہے تو کشمیر میں ہم نے یہ تصور پال لیا کہ ’’ہوں نہ ہوں وہ پارلیمنٹ
حملے میں بلواسط یا بلاواسط ملوث رہا ہو‘‘اگر ایسا نہ ہوتا تو کشمیر کی
قیادت ’’سزا اور موت کی طویل ‘‘مدت میں خاموش نہ رہتی ! !! افضل گورو کی
سزا کا معاملہ بھارت نے پارلیمنٹ حملے کے ساتھ جوڑ لیا تھا لہذا ایسے سخت
الزام کے لیے بیان بازی یا محمد یٰسین ملک کا چند افراد کے ساتھ جنتر منتر
پر احتجاج کرنا کافی نہیں تھا یہ مسئلہ ایک تحریک کا متقاضی تھا ،آزادی
پسند قیادت کو زندہ افضل کی زیادہ ضرورت نہیں تھی لہذا انھوں نے اس سانحہ
کے واقع ہو نے سے قبل اس حوالے سے کوئی مشترکہ موقف نہیں اپنایا ۔
افضل گورو کی کہانی کے کئی پہلؤ بہت ہی افسوسناک رہے ہیں گرفتاری کے بعد سے
لیکر تختہ دار پر چڑھائے جانے تک ان کی قریبی رشتہ داروں ،دوستوں اور بیوی
تک کی یہ شکایت رہی کہ تحریک آزادی کی لیڈر شپ نے افضل کے مسئلے کو ہر وقت
نظر انداز کردیا ؟؟؟تبسم کوآج بھی یہ شکایت ہے کہ لیڈر شپ نے افضل کے لیے
کچھ بھی نہیں کیا ؟تبسم کے’’ کچھ بھی نہیں ‘‘کے الفاظ اپنے اندر معنی کا
سمندر چھپائے ہو ئے ہیں ،وہ ’’کچھ بھی نہیں‘‘کی وضاحت بے شک نہ کریں مگر سچ
یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں کیا گیا؟؟؟کیوں؟ غور و فکر کے بعد جو باتیں کشمیری
قوم اور لیڈر شپ کو دیکھ کر نظر آتی ہیں ان میں اہم بات یہ ہے کہ لیڈر شپ
نے مل کر افضل گورو کی پھانسی کو روکنے ،رام جیٹھ ملانی جیسا قابل وکیل بہم
پہنچانے ،بھارتی سول سوسائٹی کو کیس کے کمزور پہلؤ سمجھا کر تعاون فراہم
کرنے ،جموں و کشمیرکے کسی جیل میں شفٹ کرانے،نیشنل کانفرنس اور پی،ڈی،پی پر
اسمبلی میں اس کے حق میں قراردادپاس کرانے کے لیے دباؤڈالنے ،جیل کے اندر
افضل کو جیب خرچہ پہنچانے اور اس کی فیملی کی پتلی گھریلو حالت کی دیکھ
ریکھ کے لیے واقعتاََ کچھ بھی نہیں کیا گیا ،اور حیرت کی بات یہ کہ مجھ سے
لیڈر شپ کی نااہلی کی یہ سبھی باتیں کسی بھارتی ایجنٹ نے نہیں بلکہ خود بعض
حریت لیڈران نے افضل گورو کی فیملی سے سن کر کہی ہے البتہ ایک ایسے بھی
لیڈر ہیں جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی کہا کہ میں نے ذاتی
طور پر مقدور بھر مدد کی ہے اور میں یہ احسان کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذمہ
داری سمجھ کر کیا کرتا تھا۔مظفر کو ہی لے لیجیے کل تک کسی کو بھی اس کی
گرفتاری اور قید کی خبر نہیں تھی مگر سزا ہو تے ہی حریت لیڈران اس کے گھر
جا کر اس کے ’’انتہائی مفلوک الحال اور مسکین والدین‘‘کے ساتھ غم میں شریک
ہو کر حاتم کو بھی سخاوت میں پیچھے چھوڑ گئے اس لئے کہ ایک آدھ بیان اور
سوشل میڈیا پر مظفر کے گھر والوں کی ساتھ تصاویر لوڈ کر کے گویا مظفر کو
پھندے سے اتار کر والدین کی گود میں ڈالا ہو جبکہ ان ’’غربا‘‘کا کہنا ہے کہ
گرفتاری سے آج تک ان کی اپنے بیٹے سے کوئی ملاقات نہیں ہو سکی اس لئے ہمارے
پاس نہ کولکتہ جانے کے اخراجات ہیں اور نا ہی کیس لڑنے کے ۔
تنازع کشمیر کے دیو نے مقبول ، افضل اور مظفرکو ہی نہیں بلکہ ہزاروں کشمیری
نوجوانوں کو نگل لیا ہے اور ابھی نہیں معلوم یہ خون کا پیاسا دیو اور کتنے
انسانوں کو نگل لے گا،مقبول اور افضل کی پھانسی کو دلی والوں نے کشمیریوں
کے حوصلے توڑنے کے لیے دیدی مگر نادان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس طرح کی
موت نہ صرف مرنے والے کو نیا جنم دیتی ہے بلکہ وہ قوم کو نیا جذبہ بخشتی ہے
۔کشمیری مسئلہ کشمیر کے نام پر جو بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں سوال پیدا
ہوتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہے گا ؟اور کب تک مقبول ،افضل
،مظفراور دوسرے نوجوان مسئلہ کشمیر کے دیو کا شکار ہوتے رہیں گے ،دلی اپنی
ضد پر قائم ہے ،عالمی برادری کو اسے کوئی مطلب نہیں ہے بلکہ ان کے لیے دلی
کی عالمی منڈی کو گنوا دینا بہت مشکل معلوم ہو رہا ہے ،لیڈر شپ کے پاس کوئی
واضح لائحہ عمل نہیں ہے وہ بڑے سے بڑے انقلاب کے بعد یہ تک نہیں سمجھ پاتے
ہیں کہ معاملات کو اگلی منزل کی جانب کس طرح بڑھانا ہے اور کس طرح مسائل کو
انگیز کرنا ہے ان کے حوصلے کا عالم یہ ہے کہ وہ تحریک کے تقاضوں کو پورا
کرتے وقت تحریک کے نشیب و فراز کے بجائے اپنی ذات اور پارٹی کو ترجیح دیتی
ہے ،ان سے اٹھائیس سالہ تحریک کو صحیح سمت میں منزل بہ منزل چلانا ممکن
نہیں ہوسکا ،ان سے تحریک کے لیے کوئی معمولی سا قدم از خود اُٹھانا ممکن
نہیں ہے یہاں تک کہ کوئی اچھنبایا حادثہ پیش نہ آئے ۔قبل ازوقت نہ کوئی
حکمت عملی اور نہ ہی آنے والے چلینجز سے نمٹنے کے لیے کوئی پلاننگ دستیاب
ہوتی ہے؟ تحریک چلے اور کامیاب ہو جائے تو کیسے ؟حیرت یہ کہ تحریک کا تقاضا
1990ء کے بعد بھی یہ تھا کہ اجتماعی محاسبہ ہو اور یہ تقاضا آج بھی اپنی
جگہ قائم ہے مگر ہمارا قومی نقص یہ ہے کہ ہم ہر کام انجام دے سکتے ہیں مگر
اپنا محاسبہ نہیں کر سکتے ہیں ۔ |