جنوبی پنجاب کانام آتے ہی دور دراز
واقع ایسے وسیب کانقشہ ذہن میں ابھرتا ہے جس کی پسماندگی کسی ایک علاقہ سے
نہیں لوگوں کے چہروں سے جھلکتی ہے ‘ اس وسیب کے باسی دوہری مصیبت میں زندگی
بسرکررہے ہیں ‘اول یہ کہ انہیں صوبائی ‘وفاقی حکومتوں کی طرف سے بنیادی
سہولیات سے محروم رکھاجاتا ہے‘ دوئم اس وسیب کو آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے
میں جکڑی ہوئی وڈیرہ شاہی نے کہیں کانہیں چھوڑا۔ مسلسل غلامی کی زندگی
گزارنے والوں کے جسم واذہان پر اس کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا
کہاجاتاہے کہ مہاوت ہاتھی کے چھوٹے سے بچے کے پچھلے پاؤں میں جب زنجیر
ڈالتے ہیں تو وہ بہت کوشش کرنے کے باوجود اس موٹے زنجیر کوتوڑنہیں سکتا‘ وہ
عمر کے کچھ حصے تک یہ کوشش کرتارہتا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اسے محسوس
ہونے لگتاہے کہ وہ اس زنجیر کونہیں توڑسکتا یہ خیال اس قدرپختہ ہوجاتاہے کہ
وہ نوجوانی میں بھی اسی خیال کے تحت ہی زنجیر توڑنے کی کوشش بھی نہیں کرتا
۔ شایدنسلوں سے غلام چلے آرہے لوگوں کے ذہن میں یہی بات بیٹھ چکی ہے کہ وہ
غلامی کی اس زنجیر کونہیں توڑپائیں گے۔
ملتان سے لیکر بھکر کی آخری حدو ں تک ‘رحیم یارخان‘ لیہ مظفر گڑھ ‘ڈیرہ
غازی خان سمیت پورے وسیب میں ایک چیز مشترک نظرآتی ہے وہ ہے پسماندگی‘
ملتان کو اس اعتبار سے انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں تعلیم ‘معاشی خوشحالی کے
باعث یہاں وڈیرہ شاہی کی زنجیریں اب ٹوٹتی نظرآرہی ہیں لیکن باقی وسیب کی
حالت وہی ہے‘ ان پسماندہ محروم علاقوں میں سے اکثر تو ایسے بھی ہیں کہ جہاں
ڈھور ڈنگر اورانسان ایک ہی ٹھوبے پرپانی پیتے نظرآتے ہیں‘ ان محروم ومجبور
علاقوں کے ’’آقاؤں‘‘ کا طرز زندگی مختلف ہے‘ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں‘ کچے پکے
چھوٹے چھوٹے مکانات سے تھوڑاہٹ کے وسیع وعریض اراضی پرمشتمل عالیشان
کوٹھیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ محروم ومجبورلوگوں کے آقاؤں کی رہائش گاہ ہے۔
شاید انہی مجبوریوں کافائدہ ہرحکومت نے اٹھایا خاص طورپر اس وسیب کے باسیوں
کو مسلم لیگ ن سے شکوہ رہا ہے کہ(موجودہ دور کی میٹروبس سروس کے سوا) وہ
زیادہ عرصہ پنجاب پر حاکم رہنے کے باوجود جنوبی پنجاب یاسرائیکی وسیب کیلئے
کچھ نہیں کرسکی‘ ہاں یہ کارنامہ بہرحال ضرور انجام دیا ہے کہ ایسے ایسے
افسران چن چن کر ان علاقوں میں بھیجے گئے کہ جو دوہری مصیبتوں میں گھرے
عوام کیلئے مزید مسائل کھڑے کرگئے۔ ڈپٹی کمشنر تو خیر وسیب کے لوگوں کیلئے
کسی بڑے بادشاہ سے کم نہیں ہوتا پولیس افسران بھی اپناآپ ضرور ظاہرکرتے ہیں۔
بڑے بادشاہ ان علاقوں کیا کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں اس کاذکرکرنے کی
ضرورت بھی نہیں ہیں چند ہی دن قبل جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ ضلع بھکر
کی منظر عام پرآنیوالی کہانی سے ہی انداز ہوجاتاہے کہ یہاں ڈپٹی کمشنر کس
حیثیت کاحامل ہوتاہے۔ایجوکیٹرز بھرتی کے دوران ایک نہایت ہی لائق ‘ذہین
اورمستحق بچی کی جس طرح سے حق تلفی ہوئی وہ الگ کہانی البتہ وزیراعلیٰ
پنجاب کے نوٹس نے تو کمال کردکھایا انہوں نے پہلے سے اوایس ڈی بنائے گئے
سابق ڈپٹی کمشنر کو معطل کردیا ساتھ ساتھ انٹرویو کمیٹی بھی بھینٹ چڑھ گئی
‘ کہاجارہاہے کہ انٹرویو کمیٹی کے ارکان کسی بھی امیدوار کے حق دارہونے پر
متفق ہوتے تو ڈپٹی کمشنر جو اس کمیٹی کاسربراہ بھی تھا ‘فوراً وہ لسٹ چھین
کر مرضی کے نام شامل کرادیتا ‘ پھر نزلہ گرا تو انٹرویو کمیٹی پر ‘خیر یہ
کہانی آگے بڑھنے کی بجائے رک سی گئی ہے البتہ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ سابق
ڈپٹی کمشنر پھربحالی کے بعد جنوبی پنجاب کے کسی دوسرے علاقے میں بڑے افسر
بناکر بھیج دئیے جائیں گے۔
ڈی ایم جی کلاس کے ان افسروں کو معروف کالم نگار ‘ اینکر رؤف کلاسر
ا’’زکوٹاجن ‘‘ قرار دیتے ہیں جو ہروقت صرف یہی چیخ وپکار کرتے رہتے ہیں
’’مجھے کام بتا ؤ ‘میں کیا کروں ‘میں کس کو کھاؤں‘‘ مگر سوائے چیخ وپکار کے
کچھ کرنے لائق نہیں ہوتے۔ انہی افسران کو جنوبی پنجاب کے محروم ومجبور
لوگوں کے مسائل کاادراک ہوتاہے اسی لئے چاہے وہ کوئی بھی ستم روا رکھیں
‘چیخنے چلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ان محروم‘ مجبورعلاقوں میں ڈپٹی کمشنر کیاکرسکتا ہے اس کی بابت کہانی بہت
طویل ہے البتہ سرکاری زمینوں پر قبضے سے لیکر رشوت خوری کی انتہا تک سبھی
کام اس کی ناک تلے ہوتے ہیں ۔ رؤف کلاسرا کا تعلق لیہ سے ہے انہوں نے اپنے
ضلع کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر کاقصہ بھی بیان کیا کہ یہ صاحب رشوت میں کسی
کاکتا تک نہیں چھوڑتے تھے ‘وزیراعلیٰ کے ایکشن پرمعطل ہوگئے لیکن کچھ ہی
عرصہ کے بعد محکمہ اینٹی کرپشن میں انہیں پہلے سے بڑا عہدہ دیدیاگیا۔
یہ تو خیر حکومتی سطح پرہونیوالا دوسراستم ہے کہ ان محروم علاقوں میں چن چن
کر افسران تعینات کئے جاتے ہیں پہلاستم یہ کہ ان علاقوں کی پسماندگی
دورکرنے کاکوئی حقیقی اورقابل عمل منصوبہ سامنے نہیں آسکا‘ ماضی وحال میں
کئی ایسے منصوبے سامنے آئے کہ جن کی مثال ’’بھوکے کے پاس روٹی نہیں تو وہ
ڈبل کھائے‘‘ جیسی ہوتی ہے ۔ یعنی جو چیز بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے وہ
دینے کی بجائے اسے بڑی بڑی بسوں میں سفر کرنے کی پیشکش کی جائے چاہے وہ
ٹوبھے سے پانی پیتاہو یا پھر ایک وقت کی روٹی بمشکل کماپاتاہو‘ دن بھر
حویلیوں کی غلام گردشوں میں اس کے جسم کو اتنی اذیتوں سے دوچار ہوناپڑے کہ
وہ رات کو سیدھاسونے کی ہمت نہ کرسکے لیکن اگر اس شخص کو آپ میٹروبس یا
اورنج ٹرین کی ہیررانجھاکہانی سنائیں گے تو اس کے جسم کا ہرہرزخم پھر سے
تازہ ہوجاتاہے۔ نسلوں سے غلام چلے آرہے لوگوں کی محرومیوں کی کہانیاں بہت
طویل ہیں ‘ کوئی ایک پوچھنے کی جرات کربھی لے تو ذمہ داری حکومت وقت پر ڈال
دی جاتی ہے لیکن حکومت وقت کے آسمان چھوتے دعوے سنے جائیں تو لگتا ہے کہ
حکومت نے جنوبی پنجاب میں کئی طرح کے ’’چن ‘‘چڑھا رکھے ہیں۔ بھولا کہتا ہے
کہ چٹا انگریز چلا گیا لیکن کالے انگریزوں کوضرور سکھاگیا ہے کہ اگر اس
وسیب کے لوگوں کو اپنا تابع رکھنا ہے توپھر کالے نظام کے پروردہ افسران کو
بے لگام چھوڑ دو‘ یا پھر یہاں کے ’’آقاؤں‘‘ کو ہرقسم کے ستم کی اجازت دے
دو‘ عوا م خود بخود نسل درنسل غلام چلے آئیں گے۔ اس ضمن میں ن ‘م‘ و اؤ‘ ض
لیگوں کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ یہ سارے کے سارے ایک ہی مشترکہ صفت رکھتے
ہیں کہ یہ کالے انگریز ہیں اوران کے اوصاف میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انہوں
نے جنوبی پنجاب کے باسیوں کو کئی طرح کے عذابوں میں مبتلا رکھنا ہے جن میں
سے ایک ’’زکوٹے جن ‘‘ بھی ہیں- |