کچھ
دن پہلے طبیعت بہت خراب تھی تو سرکاری ہسپتال جانا ہوا․ ارادہ تھا اچھے سے
چیک اپ کروا لیں․ کیونکہ ٹی وی پر محکمہ صحت حکومت پنجاب کے کمرشل دیکھ
دیکھ کے ایسا لگنے لگا تھا واقعی پاکستان کے حالات بدل گئے ہیں اور ہمارے
ہسپتالوں میں ایسی تمام سہولیات میسر ہیں جس کی تصاویر ہمیں اشتہارات میں
دکھائی جارہی ہیں․ اس لیے ہمیں اس بیماری میں بھی سکون سا تھا کہ اس طرح سب
سہولیات کا مزہ چکھ لیں گے ہسپتال پہنچے تو مجھے وہ ہسپتال سے زیادہ ویران
سنسان سائیں سائیں کرتی عمارت لگی․ شام کا وقت تھا تمام ڈاکٹرز ڈیوٹی سے جا
چکے تھے․ ایمرجنسی وارڈ پہنچے تو وہاں ایک کمرے میں اﷲ اﷲ کرکے ایک ڈاکٹر
نظر آیا ڈاکٹر صاحب کے ارد گرد کچھ لوگ جمع تھے شاید کوئی انکے ملنے والے
تھے اور دوسری طرف 3 مریض ہماری طرح انتظار میں کھڑے گھڑی کی سوئیاں دیکھ
رہے تھے․ قریبا 15 منٹ بعد ڈاکٹر صاحب فارغ ہوئے انہیں رخصت کیا اور ہماری
طرف توجہ کی․ ہمارے تو تلوں میں تیل آگیا․ ہم خوشی سے آگے بڑھے․ ڈاکٹر صاحب
نے ہمارا نام پوچھا جلدی سے رجسٹر میں درج کیا اور
پھر ہم سے ہماری طبعی حالت دریافت کی․ ہم نے مسیحا جان کے الف سے یے تک
ساری داستان سنانا شروع کر دی․ ہمیں پتہ ہی نہ چلا ہمارے سنانے کے دوران
ڈاکٹر صاحب نے ایک پرچی ہمیں تھما دی․ ہم حیرانی سے ڈاکٹر صاحب کی طرف
دیکھنے لگے․ کیونکہ ہمیں لگا تھا کہ جیسی ہماری حالت ہے کوئی سنجیدہ ٹیسٹ
تو ضرور تجویز کریں گے․ کم از کم ایکسرے کا ہی کہہ دیں گے․ مگر ہائے دل
ناداں کی خوش فہمیاں․ ․ ․ ․ ہم نے اداس سا چہرہ بنا کے پھر سے ڈاکٹر صاحب
سے کہا ڈاکٹر صاحب 6،7 دن سے ایسا ہے ہم نیم ڈاکٹر کی تمام دوائیاں پہلے ہی
لے چکے ہیں ردی بھر کا بھی فرق نہیں پڑا ہمیں․ آپ ذرا ٹھیک سے چیک اپ کریں
کہیں کوئی جان لیوا مرض تو نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے ایک نظر ہماری طرف دیکھا
اور کہنے لگے ٹیکہ لکھ دوں؟ ہم نے ڈر کے مارے کہا نہیں نہیں․ ٹیکہ نہیں․ بس
گولیاں لکھ دیں․ ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرف پرچی بڑھاتے ہوئے کہا جی گولیاں
لکھ دی ہیں․ یہ ہمارے پاس موجود نہیں آپ ذرا باہر کسی میڈیکل سٹور سے لے
لیں․ ہم تو جیسے صدمے سے گرتے تھے کہ سرکاری ہسپتال کے چکر میں ہم نے تو
اپنے پاؤں پہ ہی کلہاڑی مار دی․ کرایہ بھی ضائع ہوگیا ہمارا تو․ ہم نے پھر
عقل کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے کہا جس ٹیکے کا آپ کہہ رہے ہیں اگر
آپ کے پاس موجود ہو تو لکھ دیں․ انہوں نے ہماری رحم کی اپیل منظور کرتے
ہوئے ایک ٹیکہ لکھ دیا جو ہمیں وہیں سے مل بھی گیا یوں ہمارا کرایہ حلال
ہوگیا مگر ہماری طبیعت صاحبہ پھر بھی بحال نہ ہوئی․ وہ سرکاری دوائیاں بھی
ہم نے پیسے سے لیکر 2 دن کھائیں مگر شفا ندارد․ پھر ایک دوست نے ہماری
محترمہ حالت کو دیکھ کے کہا فلاں جگہ فلاں ڈاکٹر صاحب کا پرائیویٹ کلینک ہے
وہاں سے چیک اپ کروا کے دیکھو․ ایک بار جاؤ گے تو سب کو بھول جاؤ گے والا
معاملہ ہوگا پہلی خوراک میں ہی تمہیں آرام آجائے گا․ ہم نے بابا قائد اعظم
کی تصویر والے نیلے 2 نوٹ پرس میں ڈالے اور پہنچ گئے کلینک․ ڈاکٹر صاحب کی
شکل جانی پہچانی تھی مگر ڈاکٹر صاحب ہمیں نہ پہچان پائے․ لگاتار کوئی 15
یا20 منٹ تک ڈاکٹر صاحب ہم سے ہماری تکلیف پوچھتے رہے․ پھر بلڈ پریشر چیک
کیا․ اپنے گلے میں لٹکی ہار نما دو تاریں اپنے کان میں ڈالیں اور ایک سرا
ہمارے دل جگر پہ لگا کے کچھ آوازیں سننے کی کوشش کرتے رہے․ پھر بہت تسلی سے
تین ٹیسٹ لکھ دیے اور ساتھ ہی ایک ڈرپ، دو تین انجکشن اور کچھ گولیاں بھی
تجویز کر دیں․ ہم نے برا سا منہ بناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا تو
کہنے لگے گھبرانے کی کوئی بات نہیں دو دن بعد پھر سے چیک اپ کروا لیں․ اس
ساری نوازش کے بدلے میں ڈاکٹر صاحب نے ہم سے بس قائد اعظم کی تصویر والے
چند چمکتے کاغذ مانگے․ ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب آپکی فیس کچھ زیادہ نہیں؟؟ تو
مسکراتے ہوئے کہنے لگے بھائی جان ہے تو جہان ہے پیسہ تو ہاتھ کی میل ہے․
آنی جانی شے ہے․ صحت سے بڑھ کے تو نہیں․ چلیں ایسا کرتے ہیں آپ سے سرنج کے
پیسے نہیں لیتے․ اوپر والے 50 روپے نہ دیں․ اس مہربانی پر ہم نے شکر مند
نگاہوں سے ایک نظر ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا اور اپنے پرس سے مہینے کی ساری
بچت ہاتھ کی میل سمجھ کے ڈاکٹر صاحب کے دست شفا پہ رکھ دی․ جاتے وقت ڈاکٹر
صاحب نے ہم سے ایک سوال کیا․ لگتا ہے آپ کو کہیں دیکھا ہے؟؟ ہم نے مسکرا کے
کہا جی ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے ہم سرکاری ہسپتال میں آپ کے پاس آچکے ہیں
وہاں آپ نے ہمیں کہا تھا معمولی سی تکلیف ہے جو چند گولیوں سے دور ہوجائے
گی․ ڈاکٹر صاحب کچھ ڈھونڈنے کی غرض سے سامنے پڑی میز پر ادھر ادھر دیکھنے
لگے․ ہم نے ڈاکٹر صاحب کے اس طرح بوکھلا جانے پر اجازت چاہی اور واپسی کی
راہ ناپی․ صحت کے بگڑنے سے زیادہ ہمیں یہ پریشانی کھائے جارہی تھی آخر ایسا
کونسا سرکاری ہسپتال ہے جہاں غریب کیلئے تمام سہولیات میسر ہیں․ جہاں کا
سٹاف غیر ملکی ڈاکٹرز سے بڑھ کے قابلیت والا ہے․ جہاں غریب کا علاج مفت اور
بغیر کسی لالچ کے کیا جاتا ہے․ کہیں ہماری حکومت نے ایسے ہسپتال پاناما مرض
کے شکار غریبوں کیلئے تو نہیں بنا دیے یا پھر ہم اتنی زیادہ ترقی کر گئے
ہیں کہ غریب کے علاج کیلیے ہسپتال چاند پر بنوا لیا ہو اور اب وہاں تک
پہنچنے کیلئے میٹرو بس روڈ بنایا جارہا ہو اور اس سروس کی افتتاح جلد ہی
متوقع ہو․ اگر آپ کو ایسے منصوبے کا علم ہو تو پلیز ہم سے ضرور شیئر کیجئے
گا․ کیونکہ ہمیں بھی اپنا علاج کرانا ہے یا پھر میاں صاحب سے کہیں ہمیں بھی
علاج کیلیے لندن بھیج دیں۔ |