آج سے چارسال قبل سلی کون ویلی کے تاجروں
سے لے کر روپرٹ مرڈوک تک کی خوشامداورچاپلوسی اوران کی تمام تجارتی خواہشوں
کے سامنے سجدہ کرنے کاوعدہ کرنے کے بعد بھارت کے اس اعلیٰ منصب پرپہنچنے کے
بعدنریندرمودی کو پول کھلتاجارہاہے اوروہ اس کے اندرکامتعصب ہندواب کھل کر
سامنے آرہاہے اورجنہوں نے اسے اقتدارمیں لانے کیلئے شوق سے گلے لگایاتھا،
اس کے پیچھے آخر ایساکیاچھپاتھاکہ اس کی بڑھتی ہوئی قتل وغارت اورمذہبی
جنونیت کی پشت پناہی کرنے والے اوراس کے اپنے ملک کے لکھاریوں اور فنکاروں
کی بڑی تعدادآج پھربغاوت پرآمادہ ہوگئی ہے۔
۲۰۰۵ءمیں جب نریندرمودی مالداربھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو
پولیس نے سفاکیت کے ساتھ شیخ سہراب الدین نامی ایک مجرم کومارڈالا۔ ۲۰۰۷ء
میں حکمراں ہندوقوم پرست بی جے پی کی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی
نے لوگوں کو یقین دلایا کہ سہراب الدین کو وہ مل گیا جس کا وہ حقدارتھا۔
انہوں نے پوچھاکہ ایسے شخص کے ساتھ بھلااورکیاکیاجاتاجوغیر قانونی اسلحہ
رکھتاہو ؟جوشیلامجمع چیخ پڑا:ماری نکھو،ماری نکھو! (مار ڈالو، مار ڈالو)۔
اسی مجمع کی پکاردہلی کے قریب ایک قصبے میں بلند ہوئی جہاں جنونیوں نے ایک
مسلم کسان کوگائے کاگوشت رکھنے کے جھوٹے شبے میں مارڈالابلکہ ایسے درجنوں
واقعات نے انسانیت کاسرشرم سے جھکادیاہے۔مودی جب برطانیہ کادورہ کررہے تھے
توناول نگارموکل کیساوان کے لفظوں میں ہندوجنونی ''مکمل شکارکے موڈمیں
چیختے چلاتے آگے بڑھ رہے تھے''۔انہی دنوں سیکولر دانشوروں'' مغرب زدہ
خواتین''مسلم اورعیسائی ناموں کی حامل عوامی شخصیات اورگرین پیس جیسی
غیرسرکاری تنظیموں کونشانہ بنانے والے ہندوفسادیوں کے خلاف نکلنے والے
کارکن اوردانشورجان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔یہ ہلاکتیں کئی ماہ سے جاری تشدد
اورہندوجنونیوں کی تنگ نظری کے بعدہوئی تھیں۔ بالی وڈ کے سب سے بڑے
اسٹارشاہ رخ خان،عامرخان سے لے کرمرکزی بینک کے معززسربراہ رگھورام راجن
سمیت متعدد عوامی شخصیات اس فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف جب احتجاج کیاتوان کے
خلاف طوفانِ بدتمیزی برپاکرکے خاموش کروادیاگیا۔ چالیس سے زائدمعتبرترین
لکھاری ساہتیہ اکیڈمی نامی بھارتی ادبی اکیڈمی کوایوارڈ واپس کرچکے
ہیں۔فنکاروں، دانشوروں،فلم سازوں اورسائنس دانوں سمیت بہت سی شخصیات اس
احتجاج میں شامل ہوئیں لیکن بے سود۔ ہندو جنونیوں کے ہاتھوں گوشت کھانے کے
شبہ میں اب تک کئی درجن افرادکی ہلاکت کے بعداب بھی یہ معاملہ عروج پر ہے۔
مودی نے وزارتِ عظمی کے لیے مہم چلاتے ہوئے گائے کے گوشت پرجذبات بھڑکادیے
تھے اوربہارکے انتخابات سے قبل انہوں نے اوران کی جماعت نے اقلیتوں کے خلاف
زہراگلتے ہوئے ان شعلوں کواورہوادی تھی۔ بھارت کی امیر ترین ریاستوں میں سے
ایک کے وزیراعلی نے تواعلان کیاکہ مسلمان ہندوستان میں صرف اسی صورت میں رہ
سکتے ہیں کہ جب وہ گائے کاگوشت کھاناچھوڑ دیں۔ ہندوقوم پرستوں کی سرپرست
جماعت آرایس ایس کے رسالے نے قدیم تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش
کی کہ گائے ذبح کرنے والے'' گناہ گاروں کومارناجائزہے''۔ وزیرثقافت مہیش
شرما نے احتجاجی لکھاریوں کے لیے کہا کہ'' اگروہ کہتے ہیں کہ ہمیں لکھنے کی
آزادی نہیں توپہلے وہ لکھنا چھوڑدیں،پھرہم دیکھ لیں گے''۔ مودی نے اس
معاملے پرخوداپنے خیالات اس وقت ظاہرکیے جب انہوں نے احتجاجی لکھاریوں کے
خلاف دہلی میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ تصاویراتروائیں حالانکہ
وہاں''دھوکے باز لکھاریوں کو جوتے مارو!''اور''لکھاری طوائفیں'' یورپ کی
لونڈیاں ہیں جیسے نعرے گونج رہے تھے۔
مودی کے انتخاب کے وقت بھارتی تجزیہ نگارپنکج مشرانے گارجین میں لکھاتھا کہ
بھارت آزادی کے بعداپنے سب سے زیادہ منحوس دورمیں داخل ہورہا ہے۔جن لوگوں
نے مودی کے اقوال واعمال اوران کے تسلسل کاجائزہ لیاہے اورجویہ دیکھ رہے
ہیں کہ ہندوتواکانظریہ بھارت میں پہلے سے کمزورجمہوری اداروں اور یگانگت کی
روایات کوسخت نقصان پہنچائے گا،وہ بھی اب اِسی نتیجے پرپہنچے ہیں۔ مودی
یورپی فاشسٹ پارٹیوں کی طرزپرتشکیل پانے والی آرایس ایس نامی نیم فوجی
تنظیم کے سرگرم رکن ہیں،جس کے ارکان بھارتی اقلیتوں کے خلاف تشددکے
اکثرمرتکب پائے جاتے ہیں۔مودی کے زیرِاقتدار گجرات میں ۲۰۰۲ء میں ایک منظم
قتلِ عام کے دوران ایک ہزارسے زائدمسلمان مارے گئے اوردسیوں ہزاربے
گھرہوئے(اسی وجہ سے امریکااوربرطانیہ نے مودی کے داخلے پر پابندی بھی لگادی
تھی)۔ اس قتلِ عام اورزیادتیوں کے واقعات میں مودی براہِ راست ملوث تھے
یانہیں،یہ ضرورواضح ہے کہ ان کا''منصوبہ پہلے سے بنایاگیا تھا''جیساکہ
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی متعدد ابتدائی رپورٹس میں لکھا''اور منصوبہ بندی
میں پولیس اورریاستی حکام کابھرپور عمل دخل بھی تھا''۔ جن گنے چنے لوگوں
کوسزاہوئی،ان میں مودی کی ساتھی وزیر مایاکودنانی،اوربابو بجرنگی نامی ایک
جنونی شامل ہے جس نے ایک صحافی کے سامنے بڑے فخریہ اندازمیں اقرارکیاکہ اس
نے اپنی تلوارسے ایک حاملہ عورت کاشکم چیرا تھااوریہ کہ مودی نے فسادات کے
بعدنہ صرف اسے پناہ دی بلکہ اس کی ضمانت کی خاطرتین جج بھی تبدیل کیے(مودی
نے آج تک ان الزامات کاکوئی جواب نہیں دیاہے)۔
گوکہ کودنانی اوربجرنگی کودرجنوں سال کی قید ہوچکی ہے مگر وہ مودی کے
ہندوستان میں باربارضمانت پررہاہوکرآزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ بھارت کے
سرکردہ تفتیشی ادارے سی بی آئی نے مودی کے قریبی ساتھی اور بی جے پی کے
موجودہ صدرامیت شاہ کوسہراب الدین کو(ساتھیوں سمیت) قتل کرنے کے احکامات
دینے کاذمہ دارٹھہرایامگریہ کہہ کر ان کے خلاف کیس واپس لے لیاکہ ثبوت کافی
نہیں ہیں۔ مودی کی سخت ناقدانسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتالودکو
باربارسپریم کورٹ نے مداخلت کرکے گرفتاری سے بچایا ہے۔
مئی۲۰۱۴ء میں اقتدارسنبھالتے ہی مودی نے شیخی خوری اوربے ڈھنگے پن کا
مظاہرہ کیا،جب وہ حلف اٹھانے کیلئے گجرات سے ایک نجی طیارے میں پہنچے جس
پران کے قریبی کاروباری ساتھی کانام لکھاہواتھا۔سترکروڑغربت کی لکیر سے
نیچے رہنے والے عوام کے وزیراعظم مودی نے محض اوباما کوگلے لگانے کیلئے
پندرہ ہزارڈالرکاسوٹ پہناجس پردھاریوں میں خودان کانام لکھاہواتھا۔ سلی کون
ویلی میں ہزاروں دیہاتوں کوانٹرنیٹ سے منسلک کرنے کے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام
کے افتتاح کے وقت بین الاقوامی شخصیت بننے کیلئےبے قرارمودی نے اپنی
تصویراتروانے کی خاطرمارک زکربرگ کوپکڑ کرایک طرف کردیا(جس کی ویڈیوجنگل کی
آگ کی طرح پھیل گئی)خودان کی تعریفوں کے پل باندھنے والی ایک شخصیت
نےچندمہینوں کے بعدشکوہ کیا کہ وزیراعظم ایک ایسی نئی نویلی دلہن بن گئے
ہیں،جوہروقت اپنے طاقتوراوردولت مند سسرالیوں کولبھانے کیلئےبنتی سنورتی
رہتی ہے۔
نتیجتاًخودان کے نظراندازکیے گئے خاندان میں بہت سے افراداب ان کے خلاف
ہوگئے ہیں۔ چندمہینوں کے بعدہی بھارت کی سب سے بڑی اورغریب ترین ریاستوں
میں سے ایک یعنی بہارمیں ان کی پارٹی کی جانب سے چلائی گئی انتہائی مہنگی
انتخابی مہم کانتیجہ انتہائی ذلت آمیزشکست کی صورت میں سامنے آگیامگرمودی
کی نمائشی آرائش نے مغرب میں بہت سوں کومدہوش کررکھاہے۔ ان کے آزادخیال
میزبان یہ نہیں جانتے یااسے اہمیت نہیں دیتے کہ جب مودی ڈیجیٹل انڈیا کی
تشہیر کیلئےکیلی فورنیامیں تھے توان کی جی حضوری کرنے والے کارندے کشمیر
میں انٹرنیٹ بندکرارہے تھےیا یہ کہ اس سال کے اوائل میں ان کی حکومت نے اس
خوفناک قانون کی حمایت کی جس کے تحت بھارتی پولیس نے فیس بک
اورٹوئٹرپراپنانکتہ نظرلکھنے والوں کوبے دریغ گرفتارکیا۔نہ ہی بے ایریا میں
بیٹھ کرپیسہ بنانے والے عقل کے اندھوں نے اس طرف توجہ دی کہ مودی نے ڈیجیٹل
انڈیاخودایک نجی پارٹی کے ساتھ مل کراپنے جنونی ساتھیوں کیلئےلانچ کیاہے
جو'' کاروان میگزین ''کے الفاظ میں''آن لائن دہشت گردی،نفرت انگیزی اورعورت
سے نفرت کیلئےبدنام ہیں''۔ بڑے بڑے سودوں پرنظررکھنے اورپیسے سے پیسہ بنانے
والی اس دنیاکے نزدیک شایدواحد قابلِ توجہ چیز معاشی ترقی ہے،چاہے وہ کسی
ایک چھوٹے سے گروہ کیلئےہی کیوں نہ ہو۔
پہلی مرتبہ کسی ملک کے سربراہ نے اپنی سستی شہرت کیلئے بیرونِ ملک کثیر
سرمایہ کے بل بوتے پرجلسوں سے خطاب کی داغ بیل ڈالی اورآج ویمبلے اسٹیڈیم
میں بھی'' مودی، مودی'' پکارنے والے اپنی اس حماقت پرشرمندہ ہیں اور بظاہر
کبھی شرمندہ نہ ہونے والی ٹوری حکومت نے شی جن پنگ کے سامنے جھکنے کے لیے
اپنے اندرنئی قوت پیداکرلی تھی اس لئے اپنی ملکی مفادکیلئے مودی کے سامنے
بھی ہندوانہ اندازمیں سشتنگاپرنام کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں کی۔
اکیسویں صدی میں بھارت کی قیادت کرنے کے لیے مودی ہمیشہ سے ہی ایک ناموزوں
انتخاب تھے۔ ان کے ابتدائی ایام میں ان سے مل کر ممتاز سماجی ماہر نفسیات
اشیش نندی نے مودی کومحدودجذباتی زندگی کاحامل،سخت گیرمذہبی، تشددکے خواب
دیکھنے والااورآمرانہ شخص بتاتے ہوئے{کلاسیکل، کلینکل کیس} قراردیا تھا۔
۲۰۰۲ء کے منظم قتلِ عام کے بعد سِسکتے لاکھوں مسلمانوں کے کیمپوں کو بچے
پیدا کرنے کے مراکز کوئی ایسا ہی شخص قرار دے سکتا تھا۔ اس قتلِ عام میں
ملوث ہونے سے متعلق جب ان سے باربارسوالات کیے گئے توانہوں نے اصرارکیاکہ
ان کی غلطی صرف یہ ہے کہ انہوں نے میڈیاسے بناکر نہیں رکھی۔ ایک دہائی سے
زائد عرصے تک جب ان سے اس غیرمعمولی بے حسی سے متعلق سوالات کیے گئے
توبالآخرانہوں نے کہاکہ انہیں ان اموات پر اتناہی افسوس ہے جتناکسی کتے کے
بچے کے گاڑی تلے آجانے پرہوتاہے۔
مودی اپنے بہت سے یورپی اورایشیائی پیشرووں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی
وقتاًفوقتاًسامنے آنے والی ناگزیرناکامیوں کی علامت تھے۔ انہوں نے غیر
مستحکم اورناہموارترقی سے عوام کی ناراضی کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے خوف
زدہ اور پژمردہ لوگوں کے سامنے اقلیتوں کوشیطانی روپ میں پیش کیا اور
آزادخیال، جمہوری مزاج اورمعاشرے سے کٹے ہوئے لوگوں کوقربانی کابکرابناتے
ہوئے ترقی کے وعدوں کوسرمایہ دارانہ نظام کی تقویت کیلئےقربان کردیا۔
امنگوں سے بھرپورمگر مواقع سے محروم نوجوانوں کے سامنے مودی نے خود سماجی
انقلاب برپا کرنے والا،بڑے سیاسی خاندانوں کوچیلنج کرنے والاچائے بیچنے
والے کابیٹااورمعاشی ترقی کی علامت بناکرپیش کیا۔انہوں نے بے حس اوربے
خبرحکمراں طبقے کے زیراثررہنے والے پرانے سیاسی وسماجی نظام کوبدل دینے
کاوعدہ کیا،وہ خودایمانداراورپاکباز ثابت کرنے میں اس لیے بھی کامیاب رہا
کیونکہ۲۰۱۴ء تک سیاست دان، تاجراورمیڈیا سب بدعنوانی کے اسکینڈلوں کی لپیٹ
میں تھے۔
اس اعلی ترین عہدے کیلئےمودی کے ابتدائی حمایتی بھارت کے امیرترین لوگ تھے
جنہیں سستی زمین اور ٹیکس میں رعایت کالالچ تھا۔اسٹیل اور کاربنانے کے
شعبوں میں مانے ہوئے رتن ٹاٹاوہ پہلے بڑے صنعتکارتھے جنہوں نے مسلمانوں کے
منظم قتل عام کے دوران مودی کوگلے لگایا۔ جھگیوں کے شہرممبئی میں۲۷منزلہ
گھر کے مالک معروف تاجرمکیش امبانی نے بھی فورا ًہی ان کے اعلیٰ بصیرت کی
تعریف کی۔ ان کے بھائی نے مودی کوبادشاہوں میں ایک بادشاہ قرار دیا۔ بڑے
صنعتکاروں، تاجروں اورملک کے بڑے تجارتی گروپس کے مالکان کی مودی کے بارے
میں دیوانگی کورپورٹ کرتے ہوئے اکانومسٹ بھی اس نمائشی خوشامد کے جھانسے
میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایساہونانہیں چاہیے تھامگرمودی کے بھارت میں
امبانی خاندان برلسکونی کی طرزپر خبروں اورتفریح کے میڈیا پر چھاتاجارہاہے۔
میڈیامینجمنٹ اب مودی کیلئے کوئی مسئلہ نہیں رہی ہے کیونکہ ٹی وی چینلوں
اوراخبارات ان کے وفادار حمائتیوں کی ملکیت ہیں،جوانہیں مسلسل بھارت کا
نجات دہندہ قراردیتے رہتے ہیں۔ مودی نے ان دانشوروں، لکھاریوں اورصحافیوں
کوبھی اپنی طرف متوجہ کیاجوسابقہ دورحکومت میں نظرانداز کیے گئے تھے۔ یہ سب
غصے میں بھرے وہ لوگ تھےجوآزادخیال تحریکوں کی مخالف سمت میں خاموشی سے
رواں رہتے تھے اور مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ نطشے کے الفاظ میں ''مواقع
سے محروم یہ لوگ دوسروں کو الزام دیتے ہوئے،انتقام کی آگ سینوں میں سلگائے
ہوئے تھے ''اورمودی کے آتے ہی اداروں کے سربراہ بن کر فضا کواپنے انتہا
پسندانہ اعمال وافکار سے آلودہ کررہے تھے۔
بھارت سے باہر مقیم وہ لوگ جنہیں گورے عزت نہیں دیتے تھے،وہ بھی اپنی مجروح
اناکی تسکین کیلئے نریندرمودی کی جانب سے چھوڑے گئے''آنے والی بھارتی صدی''
کے غبارے پکڑنے لگے۔ سماجی میڈیاپرکھلے بندوں مودی کے پٹھوکہلانے والوں نے
خوب پرپرزے نکالے۔ چھوٹے قصبوں میں رہ کرمسلمان اورہندومیں محبت کی مخالفت
کرنے والوں سے لیکرخودکوانگریزکی محبت میں مبتلابتانے والے تنگ نظرسواپن
داس گپتاتک ہرکوئی اس میں شامل تھا۔مگریہ بھی نہیں بھولناچاہیے کہ عالمی
سطح پرنامورگروہ بھی مودی کیلئےسرگرم رہے۔وسطی ایشیائی آمروں اوران کے
کارندوں کیلئےعوامی روابط بنانے والی "اے پی سی او"کمپنی سے لے کرکرائے کے
ان سپاہیوں تک سب سرگرم رہے جو سماجی میڈیا پر شور مچاتے ہیں یا آن لائن
مضامین کے نیچے تبصرے کرتے ہیں۔
ٹونی بلیئرکے سابق مشیرنے انگریزی بولنے والوں کیلئےعقیدت میں ڈوبی سوانح
لکھی۔ لیبرپارٹی کے رہنمامیگھند ڈیسائی نے ''پھرتی'' اور'' تیزرفتار ترقی''
کی دیو مالائی کہانیاں بنتے ہوئے بڑی کمپنیوں کوسہولتیں دینے کامودی کاتشخص
خوب اجاگرکیا۔ نوبل انعام یافتہ اینگس ڈیٹن کے غربت کی نفی کے تصور کاپرچار
کرنے والے ماہرین معاشیات جگدیش بھاگوتی اوراروند پاناگریانے اکنامسٹ کو
لکھے گئے ایک خط میں کہاکہ گجرات میں مسلمانوں کامنظم قتلِ عام دراصل''
فسادات'' تھے۔ جب مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوئے تو امریکی
تھنک ٹینکس میں بیٹھ کر بڑہانکنے والے دانشوروں نے اخباروں میں مودی کو ایک
ایسا رہنما قراردیناشروع کیاجوجدیدبھارت کوآگے لے جاتے ہوئے
امریکااوراسرائیل کے حق میں خارجہ پالیسی کومستحکم کرے گا۔ اس مصنوعی اتفاق
رائے کاحصہ بنتے ہوئے بہت سے اخباری نمائندے اوران کے بھارتی پشت پناہ ہوش
وخرد سے بیگانے ہوچکے تھے۔
پس مودی بغیرکسی رکاوٹ کے ذلت سے عزت کی منزل تک پہنچ گئے،ایک ایسی دنیامیں
جہاں دولت، طاقت اورمرتبے کوہی سب کچھ سمجھاجاتاہے،جہاں بالزیک کے الفاظ
میں''انسانوں کویاتوبے وقوف یابے ایمان سمجھاجاتاہے''۔ مودی ہرماہ
روزگارکیلئے نکلنے والے دس لاکھ بھارتیوں کونوکریاں دینے کاوعدہ سچ کرنے سے
شاید بہت دورہیں۔ وہ ابھی بھی تصوراتی دنیامیں سفرکرتے ہیں جہاں ہروقت
اسمارٹ شہروں اوربلٹ ٹرینوں اوراس ڈیجیٹل بھارت کاذکر ہوتا رہتاہے، جس میں
ہردورافتادہ دیہات آن لائن ہوگامگربھارت کوتیزی سے ترقی کرتی معیشت سمجھ
کرچین کے مقابلے میں لانے والی عالمی اشرافیہ غربت کے ساتھ ساتھ منظم قتل
عام کی بھی نفی کردیتی ہے۔ نیویارک میں مقیم ایک سرمایہ دارکی بھارت میں
احتجاج کرتے لکھاریوں کے بارے میں ٹویٹ مروجہ اخلاقیات کی بھرپورترجمانی
کرتی ہے: ''نئے بھارت کے معماروہ ہیں جودولت پیداکرتے ہیں۔ یہ اتنے بے وقعت
ہیں کہ ان لکھاریوں کوتوکوئی چوہے کی مینگنی کے برابر بھی اہمیت نہیں
دیتا''۔
دولت پیدا کرنے والوں،پاکبازی کی خلعتیں عطاکرنے والوں اورسہارادے کر منصب
تک پہنچانے والوں کے جھرمٹ میں جس طرح مودی اوپرآئے ہیں،وہ ہمارے لیے سوچنے
کامقام ہے کہ روزبروزبڑھتی ہوئی قتل وغارت گری میں ہم جیسے بے وقوفوں اوربے
ایمانوں کاآخرکیاکام ہے؟مودی کایہ معاشی فلسفہ اب ہر جگہ عام ہے اورہر جگہ
لالچ،دھوکے بازی اورانسانی جان اورعزت کی توہین کے سائے میں پرورش پارہا
ہے۔ بھارتی مفکرجی این ڈیوائی کے الفاظ میں یہ'' مابعد انسانیت ''زندگی کی
علامات ہیں۔
بھارت میں دولت کی پوجا،متشددقوم پرستی،دانشوری کی مخالفت،اورکمزورکے خلاف
خوف اورنفرت مودی سے پہلے بھی موجودرہے ہیں۔ بس یہ سب پہلے اتنا کھل
کرسامنے نہیں آیاتھاکیونکہ بھارتی اشرافیہ نے اسے ایڈمنڈبرکی کے الفاظ میں
''خوشنما لبادہ''اوڑھارکھاتھا،جسے بھارت میں گاندھی اور نہرو کاتصورِ بھارت
کہاجاتا ہے۔لہذا۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندوبرتری کوہوادینے اور۱۹۸۴ءمیں ۳۰۰۰
سے زائدسکھوں کاقتل عام کرنے والی کانگریس اب خودکو سیکولرکہہ سکتی ہےاوراس
کی حکومت کی سرپرستی میں رہنے والے لبرل دانشوروں کی خاموشی بھی جائزہوجاتی
ہے،جب بھارتی فوج کشمیریوں کو اسی''تصورِبھارت '' کے نام پراجتماعی قبروں
میں دفناتی ہے، زنابالجبرکرتی ہےاورمشتبہ عسکریت پسندوں کے مخصوص اعضامیں
کرنٹ سے بھرے تار ڈالتی ہے۔اگربھارتی لکھاریوں میں سے کوئی آوازبلندکربھی
دیتاتھا تواس پرادب میں سیاست کی ملاوٹ کاالزام لگ جاتاتھا۔ ٹی وی میزبان
اورکالم نگاربھی اسی تصورِبھارت کے اندرونی وبیرونی دشمنوں کے خلاف حب
الوطنی پرمبنی نفرت پھیلانے میں پیش پیش رہے۔ پرانی حکومت کے سیکولرقوم
پرست جب گلے پھاڑکرہندوبرتری کے نعرے لگانے والوں کوبراکہتے ہیں تودراصل وہ
اپنی ہی جائزاولادکوعاق کررہے ہوتے ہیں۔
صرف یہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ہندو برتری کے قائل انتہا پسندوں کا مکروہ
چہرہ شاید اشرافیہ کے عقائد و نظریات کو جھنجھوڑ ڈالے اور وہ جھوٹ میں پلنے
والی نوجوان نسل کو سیاست زدہ کرنا بند کردیں۔ یہ سچ ہے کہ مودی اور ان کے
پٹھو کسی شرم، حیا یا لحاظ کے بغیر طاقت کی سفاکیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں
اور کسی خوشنما لبادے کو چوہے کی مینگنی کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ پھر
بھی تصورِ بھارت پر ان کے حملے سنگلاخ چٹانوں میں دراڑیں پیدا کررہے ہیں،
جن میں شاید کسی طرح انسانیت پر مبنی سیاست و ثقافت کا گزر ہوسکے۔ اگر ایسا
نہ ہوا تو پھر متبادل ما بعد انسانیت بھارت ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں نظر
آگیا ہے کہ کس طرح قاتل گروہ اپنے سرغنہ کی اس پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں
کہ: اسے ماردو! اسے ماردو! |