سردار غلام عباس کی ہنگامی پریس کانفرنس
(Javed Iqbal Anjum, Chakwal)
مکرمی و محترمی جناب سردار غلام عباس جب
ضلعی ناظم تھے تو بندۂ ناچیز کو اُن سے تین بار انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔
اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے کمال عزت دی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ
میں نے اپنے کالم میں اُن کے کچھ غلط سیاسی فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بھی
بنایا مگر اُنہوں نے ہمیشہ اس کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیا۔ آج کل وہ پھر
خبروں کا مرکز ہیں۔ پہلے وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تو بے شمار خبریں
اُن کے حوالے سے آئیں، پھر اُن کی وزیراعظم سے ملاقات کو بھی متنازعہ بنایا
گیا اور ابھی سانحہ دوالمیال کے حوالے سے روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد میں
ایک کالم چھپا جس کو پھر مقامی سطح پر بھی کافی اُچھالا گیا۔ کچھ مقامی
اخبارات میں بھی اس حوالے سے خبریں لگائی گئیں۔ خصوصاً تلہ گنگ میں اس
حوالے سے کافی شور شرابا سننے کو ملا۔ اس حوالے سے سردار غلام عباس نے
ہنگامی پریس کانفرنس تلہ گنگ میں کی۔ اُن کے انداز بیاں اور چہرے سے غصہ
عیاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں لیکن جب میرے
ایمان پر حملہ ہو گا تو پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دوں گا۔ نبی اکرم ﷺ کے
بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں، آپ ﷺ مجھے ماں، باپ، مال اور ہر چیز سے زیادہ
عزیز ہیں۔ میرا ختم نبوت پر غیر متزلزل یقین ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حافظ
عمار یاسر جس کو انگلی پکڑ کر سیاست کرنی سکھائی اُس نے جو حرکت کی ہے حشر
والے دن میں اپنے اﷲ تعالیٰ کے دربار میں عرض کروں گا اور اپنا مقدمہ پیش
کروں گا۔ تلہ گنگ شہر کی مختلف مساجد اور دیہاتوں کی مساجد میں بھی میرے
خلاف پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔ جس میں مجھ پر بہتان لگایا گیا کہ میں نے
دوالمیال واقعہ میں احمدیوں کی جانبداری کرتے ہوئے مسلمانوں کو پولیس کے
حوالے کیا۔ میں اس شر انگیز الزام کی شدید مذمت کرتا ہوں اور اس ضمن میں
لکھے گئے کالم نگار، مقامی اخبار اور پمفلٹ تقسیم کرنے والوں کے خلاف
عدالتی کارروائی کروں گا۔ سردار غلام عباس نے کہا کہ ماضی میں تلہ گنگ کی
سیاست میں مخالفین کا احترام کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ چند سالوں
میں سیاست میں وہ لوگ آگئے جو سیاسی آداب سے واقف نہیں ہیں۔ میں 1983ء سے
سیاست میں ہوں۔ 1993ء میں اﷲ تعالیٰ نے اقتدار دیا۔ لوگوں کی خدمت کی۔
دیہاتی سطح پر تبدیلیاں آئیں۔ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی۔ 8 سال ضلع ناظم
کی حیثیت سے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ 8 ارب صرف بجلی کی مد میں خرچ کئے۔
تلہ گنگ میں بچیوں کے لئے ڈگری کالج نہیں تھا۔ پہلی دفعہ 275 سے زائد بچیوں
نے کالج میں داخلہ لیا تو اُس وقت میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ جب بچیاں
رکشوں میں بیٹھ کر کالج آتیں تو اوباش تنگ کرتے تو اُن کے لئے بسوں کا
انتظام کیا۔ میرے دور میں الحمد ﷲ کسی پٹواری کو ریکارڈ تبدیل کرنے کی جرأت
نہ تھی۔ ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی کو میں قتل کے مترادف سمجھتا ہوں۔ یہ سب
کام میں نے عوام کی فلاح و بہبود اور اﷲ کی دی گئی امانت کو صحیح استعمال
کرتے ہوئے کئے۔ میں کمیشن کو حرام سمجھتا ہوں لیکن بعض لوگ کمیشن کو حلال
سمجھتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی گاڑیاں خریدنا اور حرام کمانا بائیں ہاتھ کا
کھیل ہے لیکن حرام کی کمائی نہیں کر سکتا۔ میں اﷲ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں 8 سال اقتدار میں رہا، آج بھی پائی پائی کا حساب دے
سکتا ہوں۔ سرکاری مکان، سرکاری گاڑی اور دفتر کا سارا حساب رکھا ہوا ہے،
اُس دور میں لوگوں کی پانچوں نہیں دسوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ بیان حلفیوں
پر چھ چھ پلاٹ لئے گئے۔ میں جھوٹا بیان حلفی دینا حرام سمجھتا ہوں۔ انہوں
نے حافظ عمار یاسر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ حرام کی
کمائی سے مدرسوں میں دیگیں بھجوانا اور علمائے کرام کو لاکھوں روپے کے
تحائف دینا کہاں کا اسلام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مولانا طارق جمیل سے
ملوں گا اور اُن سے اس بارے میں دریافت کروں گا۔ سردار غلام عباس نے اس
پریس کانفرنس میں ہمارے معزز و محترم صحافی دوست محمد ریاض انجم کو بھی
شدید تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ اُن کو یہ بھی معلوم
نہ تھا کہ ’’پریس فورم‘‘ کس صحافی کا اخبار ہے۔ اُن کی زبان سے پہلے یونس
نکلا، پھر جب اُن کو بتایا گیا تو پھر انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔
انہوں نے محمد ریاض انجم کے ذریعہ معاش کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو کسی
طرح بھی درست نہیں ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں جس طرح سردار غلام عباس کی
شخصیت کو متنازعہ بنایا گیا کوئی بھی شخص اس کو قبول نہیں کر سکتا۔ وہ صوم
و صلوٰۃ کے متقی انسان ہیں۔ اُن سے اس طرح کی باتیں منسوب کرنا درست نہیں
ہے لیکن جس طرح سردار غلام عباس نے ہمارے صحافی دوست کی کردار کشی کی اس کو
بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سردار عباس اعلیٰ پائے کے سیاستدان ہیں۔
’’پریس فورم‘‘ میں جو خبر شائع ہوئی وہ اُسی کالم کا حصہ تھی بلکہ کالم سے
ہی خبر بنائی گئی اور اس میں سردار غلام عباس کے لئے اپنا مؤقف دینے کے لئے
صفحات حاضر کا بھی لکھا گیا۔ اصل میں سردار غلام عباس کو چاہئے تھا کہ وہ
’’اوصاف‘‘ کے کالم نگار کو عدالت میں لے کر جاتے البتہ جس طرح تلہ گنگ میں
اس خبر کو سیاسی رنگ دیا گیا یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ سردار غلام
عباس ایک سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے اعلیٰ کردار اور صوم و صلوٰۃ کے
پابند سیاستدان ہیں۔ اُن کو نبی اکرم ﷺ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کسی بھی
خالص مسلمان کو ہو سکتی ہے۔ اس لئے میری صحافی بھائیوں سے ہمدردانہ گذارش
ہے کہ جب بھی مذہب کے حوالے سے کوئی خبر لگائیں تو اس میں خاص طور پر
احتیاط کریں کیونکہ مذہب کا معاملہ بہت حساس ہوتا ہے اور سیاستدانوں کو بھی
چاہئے کہ وہ مذہبی معاملات میں سوچ سمجھ کر مداخلت کیا کریں۔ اﷲ تعالیٰ
پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |
|