مہمان کے آنے پر اس کا پر تپاک استقبال کرنا، اسے خوش
آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ہی دنیا کی
تمام مہذب قوموں کا شعار رہا ہے ۔ ہر ملک ، ہر علاقے اور ہر قوم میں گوکہ
’’ مہمان نوازی‘‘ کے انداز و اطوار اور اس کے طور طریقے مختلف ضرور ہیں
لیکن اس بات میں کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و
اکرام میں اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی
حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سر انجام دینااس کا بنیادی حق ہے
۔ اس لئے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی
عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف
سمجھی جاتی ہے۔
لیکن ہمارے مذہب اسلام نے ’’مہمان نوازی‘‘کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد
مقرر کئے ہیں یا جس خوب صورت انداز سے اسلام نے ہمیں ’’مہمان نوازی‘‘ کے
آداب و ضوابط کا پابند بنایا ہے ٗ دنیا کا کوئی بھی مہذب سے مہذب مذہب بھی
اس کی ہم سری کا ہرگز دعویٰ نہیں کرسکتا ۔
آپ اندازہ لگائیں کہ جو مذہب مہمان کے اعزاز و اکرام کا تقابل میزبان کی
ایمان جیسی عظیم دولت سے کرا رہا ہو بھلا اس نے اس کی ’’مہمان نوازی‘‘ کے
متعلق کتنے کڑیل اور سخت اصول و آداب مقرر کر رکھے ہوں گے؟اس کا اندازہ
درجِ ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
چنانچہ حضور اقدس ؐ کا پاک ارشاد ہے کہ : ’’جو شخص اﷲ جل شانہ پر اور آخرت
کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے
۔ مہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے ، اور مہمانی
تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل
قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘( بخاری : ۸ / ۳۲ ،مسلم:۳/
۱۳۵۲)
حضرت ابو شریح ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ : ’’ میرے ان کانوں نے سنا
ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ، جب رسول اﷲؐ یہ ارشاد فرمارہے تھے کہ
: ’’ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ
وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے ۔ اورجو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر
ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی پہلے دن
خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے ۔ کسی پوچھا: ’’ یا رسول اﷲؐ!
’’جائزہ‘‘ کیا ہے؟۔ ‘‘ آپؐ نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی )اعزاز
و اکرام کرنا ، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعدہو
وہ صدقہ شمار ہوتی ہے ۔‘‘ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان
رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ ( الادب
المفرد:۲۶۹/۱)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص
مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں ۔‘‘ حضرت سمرۃؓ فرماتے ہیں کہ :
’’حضورِ اقدس ؐ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے ۔ ‘‘ (مجمع الزوائد:
۸ / ۳۲۱)
حضرت ابو کریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ :
’’ مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے ۔ جس نے کسی
کے گھر میں رات گزاری وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے اگر چاہے تو
اسی دن اس قرض کو اداء کرے (یعنی وہاں رات گزار ے)اور اگر نہ چاہے تو اسے
چھوڑ دے۔‘‘(اور وہاں رات نہ گزارے)۔(الادب المفرد : ۱ / ۲۶۰)
ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت علیؓ رو رہے ہیں ۔ اس نے سبب پوچھا تو آپؓ نے
فرمایا کہ : ’’ سات (۷) دن سے کوئی مہمان نہیں آیا ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں حق
تعالیٰ شانہ نے میری اہانت کا ارادہ تو نہیں کرلیا؟۔‘‘ ( احیاء العلوم : ۴
/ ۴۶۰)
بعض جگہوں اور بعض لوگوں کی یہ بھی عادت دیکھنے کو ملی ہے کہ مہمان بھلا
کتنا ہی دور دراز کا سفر طے کرکے کیوں نہ آیا ہو یا مہمان کتنا ہی عزیز اور
قریبی کیوں نہ ہو بہرحال اس کی مہمان نوازی اور اس کی خاطر مدارات کی طرف
قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جاتی اس کا حل بھی رسولِ اکرم ؐ نے اپنی امت کے
سامنے خوب اچھی طرح پیش فرمایا ہے ۔چنانچہ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں
کہ : ’’ میں نے رسول اﷲ ؐ سے عرض کیا : ’’ یا رسول اﷲؐ! (اگر) آپؐ ہمیں کسی
قوم کے پاس بھیجیں اور وہ لوگ ہماری ضیافت نہ کریں تو آپ کی رائے میں ہمیں
کیا کرنا چاہیے ؟ ۔ آپؐ نے فرمایا : ’’ میں بتاتا ہوں کہ مہمان کو کیا کرنا
چاہیے؟ جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ تو تم انہیں (اپنی مہمان نوازی کی طرف)
متوجہ کرو! ، اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو اس قدر لے لو جتنا کہ ایک
مہمان کو لے لینا چاہیے۔‘‘ (الادب المفرد: ۱ /۲۶۰ )
بہرحال مہمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کہیں جاکر اس قدر لمبا قیام نہ
کرے کہ جس سے میزبان کو تنگی اور دقت پیش آنے لگے اور وہ کوئی ایسی حرکت
کرنے لگ جائے کہ جس سے مہمان کو اذیت کا سامنا کرنا پڑے ۔ مثلاً میزبان
مہمان کی غیبت کرنے لگ جائے یا اس کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہونے
لگ جائے کہ یہ سب امور میزبان کو گنہگار بنانے والے ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ
اُس صورت میں ہے کہ میزبان کی طرف سے مہمان کے قیام پر اصرار اور تقاضا نہ
ہو ، یا اُس کے انداز و اطوار سے غالب گمان یہ ہو کہ مہمان کا زیادہ قیام
میزبان پر گراں نہیں ہے تو اُس صورت میں زیادہ لمبا ٹھہرنے میں بھی کوئی
حرج نہیں۔
اسی طرح مہمان کا میزبان سے ایسی فرمائشیں کرنا کہ جو وہ پوری نہ کرسکتا ہو
اور اس سے اس کو دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو یہ بھی میزبان
کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ لہٰذا دوسروں کے گھر میں جاکر چناں و
چنیں کرنا ، یہ چاہیے وہ چاہیے کہنا ، ہرگز مناسب نہیں ، جو وہ حاضر کر رہا
ہے اس کو صبر و شکر سے بشاشت کے ساتھ لے لینا چاہیے ۔ اس لئے کہ فرمائشیں
کرنا بسا اوقات میزبان کی دقت اور تنگی کا سبب ہوتا ہے ، البتہ اگر میزبان
کے حال سے یہ اندازہ ہو کہ وہ فرمائش سے خوش ہوتا ہے ، مثلاً فرمائش کرنے
والا کوئی بہت قریبی عزیز یا دوست ہو اور جس سے فرمائش کی جائے وہ اس پر دل
و جان سے جان نثار ہو تو پھر جو چاہے فرمائش کرسکتا ہے۔ (فضائل صدقات:
۱۳۸/۱)
چنانچہ ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے ۔ امام
زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچہ لکھا
کرتے تھے جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی ۔ امام شافعیؒ نے
ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا
اضافہ فرمادیا ۔ دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر
اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا ۔‘‘ وہ پرچہ لے کر آقا
کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا کہ : ’’ یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود
اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔‘‘ امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت
امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے
اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرمادیا۔( احیاء العلوم : ۲/ ۲۲۸)
حاصل یہ کہ اگر ایسا کوئی خاص اور قریبی عزیز اور دوست ہو کہ جس کو میزبان
بھی دل و جان سے خوب چاہتا ہو تو اُس صورت میں یقیناایسی فرمائش بھی بڑے
لطف کی چیز ہے۔ |