پاکستانی قوم باالعموم اور کراچی کے باشندے باالخصوص ایک
طویل عرصہ سے اس بات کے منتظر تھے کہ حکومتی یا عسکری قیادت دہشت
گردوں،بھتہ خوروں،سیاسی غنڈوں اور لینڈ مافیا کے کارندوں کے خلاف بلا
امتیاز ایسی بھرپور عملی کاروائیاں کرے جس کے اثرات نظر بھی آئیں اور آخر
کارکچھ عرصہ قبل وہ وقت آگیا جب سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک کے مختلف
حصوں اور خاص طور پر کراچی میں ایک بھرپور عملی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا
اور اس مقصد کے لیئے سیاسی نمائندوں اور عوامی حلقوں کی تائید بھی حاصل کی
گئی اور پھر پاک فون نے رینجرز کے ذریعے کراچی میں جو نتیجہ خیز آپریشن
شروع کیااس کے مفید نتائج منظر عام پر آنا شروع ہوئے تو عوام الناس کی جانب
سے پاک فوج اور دیگر سیکوریٹی اداروں کی شاندار کارکردگی کا بھر پور
خیرمقدم کیا گیاکیونکہ پاک فوج اور رینجرز کی جانب سے شروع ہونے والے اس
آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے باشندوں کو ایک طویل عرصہ کے بعد پرسکون اور
محفوظ زندگی گزارنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے آج کراچی ایک بار پھر روشنیوں
کا شہر اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنتا جارہا ہے اورکراچی کے شہری جو
دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،سیاسی غنڈوں،اغواکاروں اور لینڈ مافیہ کے کارندوں
کی کارستانیوں کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت اور عدم تحفظ کا شکار تھے انہوں نے
سکھ چین کا سانس لیا جس کا کریڈٹ بہرطور ہماری عسکری قیادت اور سیکیوریٹی
فورسسز کو جاتا ہے جنہوں نے ہر طر ح کے تعصب اور مصلحت سے بالا طور ہوکر
جرائم پیشہ افرادکے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرکے بہت کم وقت میں کراچی کا
دیرینہ مسئلہ حل کیا لیکن جہاں عام لوگ فوج اور رینجرز کے ان اقدامات کو
سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں کچھ سیاسی قوتیں کراچی میں رینجرز کی
کاروائیوں کو ایک مخصوص طبقہ کے خلاف یکطرفہ اور تعصبانہ آپریشن قرار دے کر
اسے متنازعہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جو لوگ رینجرز کی جانب سے شروع کیئے گئے آپریشن سے خوش نہیں ہیں ان کا کہنا
ہے کہ رینجرزصرف اردوبولنے والے مہاجروں کے خلاف کاروائیاں کررہی ہے اور
خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سب سے زیادہ عملی کاروائیاں اور
گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور ان کے کارکنوں کو ماوارائے عدالت گرفتار کرکے
90 روز کا ریمانڈ لے کر ان پرلسانی تعصب کی بنیاد پر بے پناہ تشدد کیا جاتا
ہے جبکہ ان حلقوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ کراچی میں ملنے والی انسانوں کی
تشدد زد ہ اکثر لاشیں ایجنسیوں کی جانب سے پھینکی جاتی ہیں جن کا الزام ایک
مخصوص سیاسی جماعت پر لگایا دیاجاتا ہے۔یہ طبقہ یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ
رینجرز کے جوانوں کی اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل ہے جو اردو
بولنے والوں کو لسانی تعصب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور رینجرز کے کچھ جوان
بھی کرپشن میں ملوث ہیں جو پیسے لے کرمجرموں کو چھوڑدیتے ہیں اور اس آپریشن
کو صرف کراچی تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ دہشت گرد اور قاتل اندرون سندھ اور
پنجاب میں بھی موجود ہیں لیکن رینجرز وہاں کوئی کارروائی نہیں کررہی جوکہ
انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔
مذکورہ بالا الزامات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ ؟ اس کا جواب تو
متعلقہ سیکوریٹی ادارے ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں لیکن دیکھنے والی آنکھوں
کو آج کا کراچی پہلے سے بہت بہتر ،روشن ،پرامن اور ترقی کی جانب گامزن نظر
آرہا ہے اور کراچی کے باشندوں کے بہت سے مسائل رفتہ رفتہ حل ہوتے ہوئے نظر
آرہے ہیں ،آج اگر کراچی کے کسی عام آدمی سے کراچی آپریشن کے بارے میں رائے
لی جائے تو وہ اس کی حمایت اور تعریف کرتا ہوا ہی نظر آتا ہے جس سے مجموعی
تاثر تو یہی ابھرتا ہے کہ پاک فوج اور رینجرز جو عملی اقدامات کراچی میں
کررہی ہے ان سے اس شہر کی اکثریت بہت خوش ہے۔لیکن کچھ عرصہ قبل کراچی میں
پاک فوج کی ملٹری فورس اورکراچی رینجرز کے جوانوں پر جان لیوا حملے قانون
نافذ کرنے والے اداروں کی لیئے لمحہ فکریہ ہیں کہ کس طرح دہشت گرد آسانی کے
ساتھ اپنی قاتلانہ کارروائی مکمل کرکے فرار ہوجاتے ہیں؟ ۔دھشت گردوں کی
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں پر یہ جان لیوا حملے اس بات کو بھی
ظاہر کرتے ہیں کہ رینجرز کی تمام تر کارروائیوں کے باوجود دھشت گردوں کے
حوصلے پست نہیں ہوئے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف
کارروائیوں میں اضافہ کیا جائے اور جو دہشت گرد گرفت میں آجائیں انہیں فوری
طور پر پھانسی پر لٹکا دیا جائے تاکہ دیگر جرائم پیشہ افراد کو عبرت حاصل
ہو اور ان کے دل میں قانون کا خوف قائم ہو اور ساتھ ہی دہشت گردوں ،بھتہ
خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے سہولت کاروں پر بھی کسی قسم کے حکومتی اور سیاسی
دباؤ میں آئے بغیر ہاتھ ڈالا جائے اورجن سیاست دانوں پر کرپشن اور دہشت
گردوں کی سرپرستی جیسے سنگین الزامات ہیں ان سب کے بارے میں مکمل تحقیقات
کے بعد اگر ان پر جرم ثابت ہوجائے تو انہیں کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ
پھر کوئی سیاست یا حکومت کی آڑ میں اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب
نہ ہوسکے۔
ہمار ا کراچی کبھی امن وامان کا گہوارہ اوربے روزگاروں کا سہارا ہوا کرتا
تھا،یہاں پاکستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ کسی بھی لسانی ،گروہی
یا سیاسی تفریق اورتعصب سے بالا تر ہوکرایک ساتھ نہایت دوستانہ ماحول میں
رہاکرتے تھے اس وقت اس شہر کا کوئی باسی خود کوسندھی،، بلوچی ،پٹھان،پنجابی
یا مہاجر نہیں سمجھتاتھا اور نہ ہی اس بات کو پسند کرتا تھا کہ اسے اس کی
قومیت کے حوالے سے پکارا یا پہچانا جائے اس وقت کراچی کے تمام باشندے خود
کو صرف پاکستانی کہلانا پسند کرتے تھے لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کی
جمہوری حکومت کے جبری خاتمے کے بعد پاکستان میں مارشل لا لگا دیا گیا جس کے
سربراہ جنرل محمد ضیاالحق نے کراچی میں رہائش پذیر اردو بولنے والوں کو
لسانی طور پر متحد کرکے ایک نئی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کے نام سے ایک نئی
سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لانے کے لیے مرکزی کردار ادا کیا۔ملکی سطح پر
مقبول سیاسی جماعتوں کو کراچی کی سیاست میں چاروں خانے چت کرنے والی نئی
سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کراچی
کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا وہ کراچی جہاں سب زبانیں بولنے والے صرف مسلمان
اور پاکستانی بن کر رہا کرتے تھے اور کراچی کے شہری جو ہمیشہ وفاقی سیاسی
پارٹیوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچایا کرتے تھے انہوں نے لسانیت کے
جذبات سے مغلوب ہوکر ان ملک گیر پارٹیوں کے مقابلے میں صرف کراچی اور
حیدرآباد کے اردوبولنے والے باشندوں کی نمائندگی کی دعویدار جماعت کی جھولی
میں اپنا قیمتی ووٹ ڈال کر جو غلط فیصلہ آج سے 30 سال قبل کیا تھا اس کا
خمیازہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔لسانیت کے بت نے سب سے پہلے کراچی کے
باشندوں کو اپنی گرفت میں لیا اور پھر اس کی دیکھا دیکھی مختلف زبانیں
بولنے والوں نے بھی پاکستانیت کو ایک طرف رکھ کر لسانی بنیادوں پر سیاست
شروع کردی، پاکستان کا کوئی بھی صوبہ اب ایسا نہیں جہاں صرف پاکستانیت کے
نام پر ووٹ پڑتا ہو اب تو ہرجگہ زبان اور برادری کے نام پر ووٹ لیئے جارہے
ہیں جس کی ہر سطح پر مذمت اور بیخ کنی کی ضرورت ہے ۔ آج سے 30 سال قبل
لسانیت کا جو پودہ جنرل ضیاالحق نے لگایا تھا وہ ایک نہایت طاقتوردرخت بن
چکا تھا جسے جڑ سے اکھاڑنا اتنا آسان نہیں جتنا بعض ادارے اور سیاست دان
سمجھتے تھے لیکن اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اب دو واضح
گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے ایک الطاف گروپ جسے ایم کیوا یم لند ن کا نام
دیا گیا ہے اور دوسرا فاروق ستار گروپ جسے ایم کیو ایم پاکستان کا نام دیا
گیا ہے ،ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے سرکاری عہدے اور مراعات بچانے کے لیئے
22 اگست کے بعد اپنی پارٹی کے بانی اور قائد الطاف حسین کو ملک دشمن اور
غدار قرار دے کر اس سے مکمل لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اسے اس کی ہی بنائی
ہوئی پارٹی سے باہر نکال کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے نئے طرز
سیاست کو اپنا لیا ہے جبکہ ایم کیو ایم لندن کو22 اگست کے خطاب میں الطاف
حسین کے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے کی وجہ سے کراچی میں کھل کر سیاست
کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ کراچی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی یہ بھی
رونما ہوئی کہ تقریبا 10 ماہ قبل ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے کراچی کے
سٹی ناظم کے عہدے پر فائز ہوکر کراچی کی تعمیر وترقی کے لیئے نمایاں ترین
کام کرکے شہرت حاصل کرنے والے اردو اسپیکنگ نیک نام سیاست دان سید مصطفی
کمال نے 3 مارچ 2016 کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے
اپنی نئی سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘بنا کر حب الوطنی پر مبنی جس
فعال اورتیزرفتار سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اس کی بدولت انہیں اب ایک ملک
گیر پاکستانی سیاست دان کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جو کراچی کے باشندوں کے
لیئے اس حوالے سے بہت خوش آئند ہے کہ بہت طویل عرصہ بعد کسی اردو بولنے
والے مقامی سیاست دان کی طرف سے لسانی سیاست سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے
پاکستانیت کے بھرپور اظہار کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا ہے جوکہ
نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کے لیئے ایک چونکا دینے والی سیاسی تبدیلی
ہے کہ کراچی گزشتہ 30 سال سے اس بری طرح لسانی سیاست میں جکڑا ہوا تھاکہ
کراچی میں ایم کیوا یم کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت الیکشن میں کامیابی
حاصل نہیں کرپاتی تھی لیکن اب کراچی کی سیاسی صورتحال کافی مختلف ہوگئی ہے
کہ ایم کیو ایم لندن ،ایم کیوایم پاکستان ،پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان
تحریک انصاف کے علاوہ اب پاک سرزمین پارٹی بھی کراچی سمیت ملک بھر کی
انتخابی سیاست میں خوب جم کر حصہ لے گی جس کے باعث کراچی کی سیاست میں
یقینا بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع کی جارہی ہے،کراچی کے بدلتے
ہوئے سیاسی منظر نامے کے اثرات اور کراچی آپریشن کی وجہ سے کراچی کی بدامنی
،دہشت گردی اور قتل وغارت گری میں جو نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اس سے اس بات
کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے عوام کو جرائم میں
ملوث سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے ہمیشہ کے لیئے نجات مل جائے گی اور
جب بھی ایسا ہوا اس کا کریڈٹ پاک فوج اور رینجرز کی محب وطن قیادت اور
جوانوں کو دیا جائے گا۔
جب سے کراچی میں رینجرز نے کنٹرول سنبھالا ہے دہشت گردی اور بھتہ خوری کی
وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس پر کراچی کے عوام رینجرز کے
افسران اور جوانوں کو سیلوٹ اور سلام پیش کرتے ہیں کہ پاک رینجرز کی وجہ سے
دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،لینڈمافیا اوران سب کے سیاسی سرپرستوں سے کراچی کے
شہریوں کو نجات مل رہی ہے اور امید ہے کہ اگر پاک فوج اور پاک رینجرز اسی
طرح ہر قسم کی سیاسی مصلحت اور دباؤ کا شکار ہوئے بغیرکراچی میں دہشت گردوں
اور ان کے سرپرستوں کے خلاف عملی کارروائیاں کرتی رہی تو انشاء اﷲ کراچی
ایک بار پھر امن وامان کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بن جائے گا کہ کراچی
میں ایک طویل عرصہ بعد کافی امن قائم ہوا ہے جس کا کریڈٹ پاک فوج اور
رینجرز کو جاتا ہے جن کی وجہ سے دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے ہاتھوں یر
غمال کراچی کے باشندے اب بے خوف وخطر روزمرہ کے کاموں میں مشغول نظر آتے
ہیں لیکن دہشت گرد اپنے خوف کی سیاست کو قائم رکھنے کے لیئے کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیتے جیسا کہ گزشتہ 15 روز کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں
میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دھشت گردی کے المناک واقعات ہیں جن میں سیکڑوں
پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن پاک فوج اور رینجرز کو کسی بھی
قسم کے دباؤ میں آئے بغیر دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف اپنی
کارروائیاں جاری رکھنی چاہیئے کہ کراچی کے باشندوں کی امیدیں اب پاک فوج
اور رینجرز سے وابستہ ہیں کہ سیاسی لوگوں کو تو سیاسی چالوں اور کرپشن کرنے
سے ہی فرصت نہیں ملتی جو وہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے بارے میں کچھ
سوچیں۔
گزشتہ 15 روز کے دوران ملک بھر میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں جو تیزی
آئی ہے اور جس طرح انہوں نے ملک کے مختلف صوبوں کے اہم مقامات پر خود کش
بمباروں کی مدد سے بم دھماکوں کے ذریعے بے گناہ پاکستانی عوام کو شہید کیا
ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی فکر
کرنی ہوگی کہ آخر دہشت گردوں کو ایکبار پھر پاکستانیوں کے خون سے ہولی
کھیلنے کا موقع کیوں ملا اور وہ کس طرح آسانی کے ساتھ سہون شریف پر لعل
شہباز قلندر کے مزار اور ملک کے دیگر حصوں میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں
میں کامیاب ہوئے ،مذکورہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث خود کش بمباروں
کے جو سہولت کار گرفتار کیئے گئے ہیں ان سے مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد
انہیں اور ان کے سرپرستوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کسی بھی
دہشت گرد تنظیم کو معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی جرات نہ
ہوسکے۔اس حوالے سے سیکیوریٹی ایجنسیوں کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر بنانے
کی ضرورت ہے تاکہ کسی معمولی سی بھی غفلت کی وجہ سے دہشت گردوں کومزید
کارروائیا ں کرنے کا موقع نہ مل سکے جیسا کہ حال ہی میں خیبر پختون خواہ کی
پولیس نے فرض شناسی اور بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جانوں کی پرواہ کیئے
بغیرچند خود کش بمبار دہشت گردوں کو بروقت روک کر انہیں اپنے مضموم مقاصد
میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
پاک فوج اور رینجرز کی قیادت سچے،محب وطن اور مخلص افراد کے ہاتھ میں ہونے
کی وجہ سے اہلیا ن کراچی اس بات کے متمنی ہیں کہ پاک فوج اور رینجرز کراچی
میں بلاخوف وخطر اور کسی بھی سیاسی یا حکومتی دبا ؤ میں آئے بغیر ہر سیاسی
پارٹی کے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر یہ بات ثابت کرے گی کہ
پاکستان میں آج بھی فوج اور رینجرز ہی وہ ادارے ہیں جن پر پوری قوم کو
اعتماد اور فخر ہے کراچی کے باشندوں کو امید ہے کہ پاک فوج اور پاک رینجرز
اس بار سیاسی دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کرے
گی اور تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز کاروائیاں کرکے کراچی کو
ایک بار پھر روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ بنا کردم لے گی۔کراچی کے
عوام کی اکثریت کراچی میں قائم ہونے والے امن و امان سے بہت خوش ہے البتہ
لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے ورکروں نے کراچی میں
رینجرز کی موجودگی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ان کی کاروائیوں کو جانبدارانہ
قرار دیا اور اس بات کی شکایت کی کہ کراچی میں رینجزز کے آپریشن کا اصل
محور اردو بولنے والے لوگ ہیں جن کے ساتھ نانصافی کرتے ہوئے صرف ایک مخصوص
پارٹی کے ورکروں کو دہشت گردی اور بھتہ خوری کے الزامات عائد کرکے پکڑا
جارہا ہے ، خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سب سے زیادہ عملی
کاروائیاں اور گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور ان تمام کارروائیوں کا مرکز صرف
کراچی کو بنایا گیا ہے جبکہ دہشت گردی اور قتل وغارت گری میں سندھ اور
پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ملوث ہیں لیکن ا ندرون سندھ اور پنجاب
میں رینجرز کوئی قابل ذکرکارروائی نہیں کررہی جو کہ انصاف کے تقاضوں کے
خلاف ہے، اس رائے میں کتنا وزن ہے اس کاجواب متعلقہ حکام اور ادارے ہی دے
سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر کراچی کے عوام کی اکثریت جن میں اردو سمیت ہر
زبان بولنے والے لوگ شامل ہیں ،پاک فوج اور رینجرز کی کامیابیوں کے لیئے
دعاگو ہیں جنہوں نے دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں
یرغمال کراچی کے مظلوم عوام کو پرامن کراچی واپس دلوانے کے لیئے جو کارہانے
نمایاں انجام دیئے ہیں ان پر پاک فوج اور رینجرز کو جتنا بھی خراج تحسین
پیش کیا جائے کم ہے ۔
اب یہ پاک فوج اور رینجرز کے ترجمان کا کام ہے کہ وہ ان لوگوں کے اعتراضات
کا اطمینان بخش جواب دے جو کراچی میں رینجرز کی کاروائیوں سے خوش نہیں ہیں
اورانہیں جانبدارنہ قرار دیتے ہیں جبکہ ساتھ ہی پاک فوج اور رینجرز کو ان
لوگوں کی توقعات پر بھی پورا اترنا ہوگا جو ان سے کراچی کو دوبارہ امن
وامان کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بنانے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔( ختم
شد) |