27جولائی 2002کو ایاز امیر کا کا لم
شائع ہوا توہین دین کیا ہے،کالم میں توہین رسالت کے ضیاالحقی قانون پر کھل
کر بحث کی گئی اور جہاں یہ لکھا گیا کہ جو بھی شخص توہین رسالت کا مرتکب
پایا جائے اسے بلا شک وشبہ قتل کا مجرم قرار دے کر قرار واقعی سز دی جائے
وہیں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ اس پر یہ الزام فکس کرنے سے پہلے مکمل
تحقیقات کی جانی چاہیے کہ کسی نے ذاتی انا اور دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے
تو کسی کو نشان عبرت بنا نے کی نہیں ٹھان لی اس کے علاوہ اس شخص کی دماغی
حالت کا بھی ضرور معائنہ کرایا جانا چاہیے کہ جس کی عمر چالیس سے پچاس سال
ہے مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا مسلمانوں کے ملک و معاشرے میں پلا بڑھا تو
اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ اس غلیظ حرکت کا ارتکاب کر بیٹھا اصل محرکات جانے
بغیر اور تحقیق مکمل کیے بغیر کہ ایسی کوئی حرکت کسی سے واقعی سرزد ہوئی
بھی یا نہیں اس کے بعد اس کے خلاف ایف آئی آر یا چالان مرتب کیا جائے،کالم
روٹین میں چھپا اور پڑھا گیا،یہ کالم جولائی میں اخبارات کے صفحات کی زینت
بنا اور بات آئی گئی ہو گئی،اس وقت ملک میں فوجی راج تھا میاں صاحبان جلا
وطن تھے ملک میں ان کا نام لینا بھی جرم تھا بڑے بڑے جغادری جو آج میاں
صاحبان کے دائیں بائیں اور اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں ن لیگ کو چھوڑ چھاڑ کر
ق لیگ اور مشرف کی گود میں لوریاں لے رہے تھے،ایاز امیر چکوال میں واحد شخص
تھا جو نہ صرف چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑا تھا بلکہ ق کے ساتھ ساتھ فوجی حکومت
کو بھی سخت ٹف ٹائم دے رہا تھا ،ایاز امیر کے کالم تقریباً ہر دوسرے دن
پرویز مشرف کا ناشتہ خراب کر دیتے تھے،تین سال کے مارشل لاء کے بعد پرویز
مشرف نے ق لیگ کی نوک پلک مکمل کر کے ملک میں10اکتوبر 2002کو عام انتخابات
کرانے کا اعلان کر دیا، ادھر ایاز امیر نے ہر قسم کے دباؤکو بالائے طاق رکھ
کر ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا،اورآخری رات بارہ بجے اپنے
کاغذات نامزدگی جمع کروا کر دھواں دھار الیکشن کمپین شروع کر دی،پہلے تو
روایتی طور پر انہیں زیر کرنے کی کوشش ہوتی رہی اور پھر جیسا اپنے ہاں چلن
ہے کہ مطلب کے حصول کے لیے ہر حد سے گذر جاؤ نہ جانے کون اور کہاں سے
جولائی میں چھپے کالم کی ستمبر میں کاپی نکال کر لے آیا یکا یک طوفان بپا
ہو گیا کہ ایاز امیر نے خد انخواستہ گستاخی رسول ﷺ کا ارتکاب کیا ہے اور
توہین کرنے والوں کے حق میں کالم لکھ دیا ہے،دھڑا دھڑ اس کالم کی کاپیاں
اسی طرح تقسیم کی گئیں جیسے آج سردار غلام عباس کی عوامی مقبولیت سے خائف
ہو کر ان کے خلاف قادیانیوں کی حمایت کا الزام لگا کر چھاپی جا رہی ہیں،دیا
نتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں
کہ اگر ایاز امیر دانشوروں کی رینکنگ میں ٹاپ پہ ہیں تو سردار غلام عباس
اپنے ضلع میں عوامی مقبولیت میں اسی مقام پر کھڑے ہیں ، یہ دونوں شخصیات
ندی کے دو مختلف کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ تو رہتے ہیں مگر آپس میں کبھی مل
نہیں سکتے،تاہم ایک بات دونوں طرف سے طے ہے کہ دونوں شخصیات نے ایک دوسرے
کی مخالفت میں اخلاقیات کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑا،ایک دوسرے کو سردار
صاحب اور چوہدری صاحب کہہ کر ہی مخاطب کیا،بے نظیر بھٹو کے لیاقت باغ میں
بہیمانہ قتل کے وقت سردار غلام عباس (اس وقت قاف لیگ )چکوال میں ضلع ناظم
تھے اور ایاز امیر مخالف کیمپ کے سیاست دان تھے،قتل کی خبر ملک بھر مین
جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور رد عمل شروع ہوا تو قاف لیگ کو اس کا ذمہ دار
قرار دیا گیا قاف لیگ کے دفاتر کی توڑ پھوڑ شروع ہو گئی،چکوال میں بھی
مظاہرہ ہو ا جس کی قیاد ت چوہدری لیاقت اور ایاز امیر نے کی رات 9بجے کے
قریب مشتعل لوگوں نے تحصیل چوک پر نصب دیو ہیکل سائیکل اتار کر شاہد عباسی
کی گاڑی کے پیچھے باندھی اور گھسیٹتے ہوئے چھپڑ چوک پر پہنچے تو اس سردار
آفتاب اکبر جو کہ تحصیل ناظم تھے نے چھپڑ چوک پر جلوس کو روک لیا چوہدری
لیاقت اور ایاز امیر اسی گاڑی پر سوار تھے جس کے پیچھے ق لیگ اور سردار
غلام عباس کے بڑے بھائی کا انتخابی نشان گاڑی کے پیچھے گھسیٹا جا رہا
تھا،حالات کی کشیدگی تھی کہ بڑھتی چلی جا رہی تھی اور دونوں گروپ آمنے
سامنے آچکے تھے،کوئی بھی فرد پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہ تھا،ق لیگ کا موئقف
تھا کہ سائیکل و ہیں پہ لگائی جائے جبکہ دوسرے گروپ کی ضد تھی کہ نہیں ہم
اسے گھسیٹیں گے،سردار عباس کہیں دور تلہ گنگ میں کسی مقام پر تھے انہیں اس
معاملے کی اطلاع ہوئی آناً فاناً موقع پر پہنچے اور کمال فراست اور
دانشمندی کا مظاہر ہ کیا،اس وقت ادا کیے گئے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں
سردار غلام عباس نے چوہدری ایاز امیر اور چوہدری لیاقت سے کہا کہ بے نظیر
آپ کی نہیں میری لیڈر تھی مجھے آُ پ سے ذیادہ اس کے جانے کا دکھ اور تکلیف
ہے تاہم آپ کا احتجاج بھی بجا ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سائیکل کو
گھسیٹتے ہوئے آگے لے جانے سے بے نظیر واپس آسکتی ہے تو لے جائیں جدھر تک
مرضی ہے اور ساتھ ہی اپنے ساتھیوں کو راستے سے ہٹ جانے کا حکم دیا اتنا
کہناتھا کہ ایاز امیر نے اپنے لڑکوں کو سائیکل کو اسی مقام پر دوبارہ نصب
کرنے کا کہہ دیا یوں ایک بہت بڑا معاملہ جو بڑے فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا
نہایت ہی آسانی سے ختم ہو گیا، اس دن اگر سردار عباس دانشمندی اور صبر و
تحمل کا مظاہر ہ نہ کرتے تو چکوال میں بھی بڑا خون خرابہ ہو جاتا۔سردار
عباس ہو ں یا ایاز امیر ملک سلیم اقبال ہوں یا سردار ممتاز ٹمن یہ لوگ
عوامی شخصیات اور پبلک پراپرٹی ہیں،بہت سے لوگ ان سے پیار کرتے ہیں تو بہت
سے لوگ ان کے ناقد بھی ہیں،جس طرح خوشامد ہر کسی کو پسند ہوتی ہے کاش کہ
تنقید بھی کھلے دل سے قبول کی جاتی تو آج پاکستان کے آدھے سے زیادہ مسائل
حل ہو جاتے،اور یہ سلسلہ کسی ایک شخصیت یا ادارے کے ساتھ نہیں اپنے ہاں ہر
طرف یہی حال ہے ،تنقید کرنے والے اگر حد کراس کر جاتے ہیں تو جن پر تنقید
کی جاتی ہے وہ بھی صبر و تحمل کو دور پر ے رکھ کر لٹھ اٹھا لیتے ہیں،کچھ
ایسا ہی با رہ ربیع الاول کے روز دوالمیا ل میں برپا ہونے والے ـ:معرکہ :
حق و باطل کے بعد ہوا،اس واقعے کی تفصیلات میں جائے بغیر کہ اس پہ بہت کچھ
لکھا جا چکا ہے صرف اتنی عرض ہے کہ نہ جانے کیوں ہمارے ہاں ہر معاملے سے
اپنامفاد کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،سیاستدان ہوں یا بعض مولانا
حضرات،بغیر کسی دلیل کے محض اکثریت کو دیکھ کر دھڑوں میں تقسیم ہو جاتے
ہیں،اس واقعے کے بعد بھی یہی کچھ ہوا ہر کوئی محض انگلی کٹا کر شہیدوں میں
نام لکھوانے کے درپے تھا،یہ واقعہ کیا تھا اور کیسے رونما ہوا اس کے پیچھے
کون لوگ تھے اور وہ اب کہاں ہیں اس کی تمام تفصیل میرے معزز دوست نبیل انور
ڈھکو اپنے کالم میں بیان کر چکے ہیں،حیران ہوں کہ اب تک ان پہ فتویٰ کیوں
نہیں لگا،اس واقعے کے بعد بھی ہر اس شخص کو قادیانیوں کا حمایتی سمجھا جانے
لگا جس نے ذرا سا بھی عوامی موئقف سے اختلاف کرنے کی کوشش کی،علمائے کرام
کی پریس کانفرنس میں شریک ہو کر ہم نے جو بھی سوال کیا ڈرتے ڈرتے اور پہلے
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں کا نعرہ بلند کر کے اجازت مانگ کرسوال
کیا،اس واقعے کے بعد جب قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور ایجینسیاں حرکت میں
آئیں تو پہت سے سرخیل یا ملک چھوڑ گئے یا زیر زمین چلے گئے پیچھے وہ معصوم
لوگ رہ گئے جو آ س پاس کے دیہاتوں سے جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر اپنے
مسلمان بھائیوں کی مدد کو پہنچے تھے،جب پولیس نے رات کو دروازے اور دیواریں
پھلانگیں تو ہر چھوٹا بڑا پناہ ڈھونڈنے لگا،اس وقت سردار غلام عباس نے اپنے
گروپ کے لوگوں کو بلا کر محض اتنا کہا کہ روپوشی اور بھاگنا آپ کے لیے
نقصان دہ ثابت ہو گا عدالت آپ لوگوں کو اشتہاری قرار دے دے گی اور پھر
اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے جیسا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ایوریج عقل
والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے،آپ لوگ قانون کا سامنا کریں اور قانون نافذ کرنے
والے اداروں سے تعاون کریں،یہ لوگ تفتیش کے لیے پیش ہوئے اور پولیس کو
مطمئن نہ کر سکنے پر گرفتار کر لیے گئے ،ادھر یار لوگ شاید اسی موقعے کی
تلاش میں تھے،سردار عباس کا مقابلہ کرنا عوامی سطح پر ناممکن ہونے کے بعد
یہ سنہری موقع تھا کہ ان کی عوامی مقبولیت کو زیرو کیا جائے،اول اسلام آباد
کے ایک روزنامے میں ایک آرٹیکل لکھوایا گیا اور پھر صرف تلہ گنگ میں پمفلٹ
چھپوا کر تقسیم کر کے سردار عباس کو مسلمانوں کا غدار اور قادیانیوں کا
حمایتی قرار دیا گیا ،اور حیران کن پہلو یہ تھا کہ وقعہ دوالمیا ل میں ہوا
اور پمفلٹ تلہ گنگ میں تقسیم کیے گئے،اس پہ سردار عباس کا رد عمل فطری تھا
تاہم جذبات کی رو میں سردار غلام عباس وہ کچھ بھی کہہ گئے جو کسی بھی طرح
ان کے شایان شان نہ تھا،ایسے اوچھے ہتھکنڈے جو ان کے مخالفین نے استعمال
کیے ہیں یہ انہیں کسی بھی صورت ڈی گریڈ نہیں کر سکتے بلکہ انہیں اور اوپر
لے جاتے،اور اسی طرح ہمارے محترم بھائی ریاض انجم نے بھی جوش خطابت میں
احتیاط کا دامن ڈھیلا کر دیا،مگر یہ ری ایکشن پر ری ایکشن تھا،اگر سردار
عباس کے خلاف لکھا کالم اور چھاپے گئے پمفلٹ کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی
جاسکتی تو کسی صحافی کو بھی یوں بھرے بازارمیں رسوا کرنا کسی بھی طرح صحیح
نہیں ہے،اچھے اور خاندانی لوگ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں دوستی اور
دشمنی کے بھی کچھ اصول کچھ ضوابط اور تقاضے ہوتے ہیں امید ہے کہ بحیثیت
مسلمان آئندہ ہمارے دوست اور مہربان اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں گے۔ میں ہوں
یا آپ، ایاز امیر ہوں یا سردار عباس ہمیں کسی کے ایمان پر شک کی رتی بھر
بھی اجازت نہیں کیوں کہ جزا سزا اور دلوں کا معاملہ خالق دو جہاں نے اپنے
تک موقوف رکھا ہے۔ اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |