پرانے زمانے کے ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا
کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنے ہو
تو تشبیہا ت ، استعارات ، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ اردو زبان
استعمال کیا کرو۔ ایک بار دوران تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انہوں
نے جو زور سے حقہ گڑ گڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی
پگڑی پر جا پڑی ۔ ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا
ہوا؛ حضور والا، ؛ یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر، پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت
حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ آ پ لگ بھک نصف گھنٹہ
سے حق حقہ نوشی ادافرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپکی
چلم سے بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستار فضیلت پر
براجمان ہو گیا۔ اگر اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو
حضور والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہی حال آج کے حکمرانوں
کا ہے جنہوں نے ملک کی پگڑی کو جلنے سے بچانے کی بجائے اداروں کو تشبیہا ت
، استعارات ، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ اردو زبان استعمال کرنے کی
تلقین کر رکھی ہے۔ گزشتہ چند روز میں ایک بار پھر دن بدن بگڑتے ہوئے حالات
، خون کے آنسو روتی شاہراہیں، دن دھاڑے لٹتے شہری، ٹھنڈے فرش پر مرتے غریب
اور دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ایک جانب جہاں پاکستان آرمی دہشت
گردوں کی کمر توڑ رہی ہے ۔ دوسری جانب دہشت گردی کو لے کر حکمران اور
اپوزیشن انتہائی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا انٹیلی جنس سسٹم دنیا
بھر میں نمبر ون تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں دہشت گرد ی کے حملے سے کئی روز
پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے
ہمارے عوامی نمائندہ کہلانے والے حکمرانوں کی ترجیحات غریب آدمی کی زندگی
کی حفاظت تو شاید کبھی بھی نہیں رہی۔ اگر آپ ملک بھر میں پولیس اور ہیلتھ
ڈیپارٹمنٹ کی گاڑیوں کی لسٹ بنا کر گریڈنگ کریں تو آپکوتمام جدید اور نئی
گاڑیاں پروٹوکول پر نظر آئیں گی۔مگر غریب کی حفاظت اور صحت کے لئے کیلئے
دھکا سٹارٹ گاڑیاں اور ایمبولینس نظر آئیں گی۔ اب اگر آپکو کوئی بتابھی دے
کے فلاں شہر کا فلاں علاقہ خطرے میں ہے تو آپکے پاس تو اسکی حفاظت کے لئے
فارغ پولیس اہلکار ہی نہیں۔ آپکے پاس تو اس علاقے کو کارڈن آف کرنے کے لئے
واک تھرو گیٹ ہی نہیں۔ کیونکہ وہ تو آپ ووزیروں مشیروں کے گھروں اور دفاتر
پر عوامی ٹیکس سے خرید کر لگا چکے۔ چند شہروں کے علاوہ ملک بھر میں
ہسپتالوں کی حالت زار بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کسی بڑی حادثے کے بعد
ہم اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھوں پر لیجانے پر مجبور ہیں یا انکو دھکا
سٹارٹ ایمولینس میں سینکڑوں میل سفر کروا کر کسی تحصیل یا ڈسٹرکٹ ہیڈ
کوارٹر ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ جن میں سے دو فیصد میں بھی ونٹیلیٹر،ادوایات،
ڈاکٹرز، بیڈز، سٹی سکین، ایم آر آئی، برن یونٹ اور دیگر ضروری مشینری نہیں۔
جو دہشت گردوں کو آسان ٹارگٹ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے میں مجرمانہ طور
پر سہولت کاری کی طرح کام کر رہی ہے۔ دہشت گردی اور جنوبی پنجاب کے تعلق
کی بات کریں تو جھنگ شہر کا ذکر نہ کرنازیادتی ہو گی ۔ لشکر جھنگوی جیسی
تنظیموں کی بنیاد بھی اسی شہر میں پڑی ۔وہ لوگ جو کبھی پیسوں کے لئے دوسرے
مسلک کے لوگوں کو قتل کر دیتے تھے آج وہی لوگ شاید دشمن کے ہاتھوں بھی بک
رہے ہیں۔ اسکی بنیادی ذمہ دار ی یہاں پولیس کلچر کی بھی ہے۔ گاؤں میں کسی
کو تھپڑ مار کر بھاگنے والا، شہر میں گولیاں چلانے لگتا ہے اور اسی کو جب
کوئی سپانسر کر دے تو ملک کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔جھنگ میں پولیس کی جانب
سے جرائم کی سرپرستی اور منفی کارکردگی ملک بھر کے لئے خطرہ بنتی جا رہی
ہے۔ شاید اگر پاکستان کی تاریخ میں لگنے والے کرفیو کے اعدادو شمار اکھٹا
کئے جائیں تو ایک شہر میں سب سے زیادہ کرفیو لگنے والے شہر کا اعزاز بھی
شہر جھنگ کو ہی جائے گا۔جہاں سے اب بھی مسائل اور بڑھتی ہوئی بدامنی کی
جانب احکام بالا کی توجہ دیلانے کے لئے شہر کے نڈر صحافیوں اور کالم نگاروں
نے قلم اٹھایا تو شہر یار کے نام نہاد ٹھیکہ دار اور اسکے بیگاڑ میں حصہ
دار پنجاب پولیس نے روکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔ اس سے زیادہ جھنگ کی تاریخ
کا سیاہ دن کونسا ہو گا جہاں چند روز قبل ہی پورے جھنگ پریس کلب اور یونین
آف جرنلسٹس کے عہدیراران پر تھانہ کوتوالی جھنگ میں بے بنیاد جھوٹا مقدمہ
درج کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی تھانہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
اسکی حدود میں آج بھی دہشت گرد تنظیمیں نام بدل بدل کر کام کر رہی ہیں
اورشاید ماضی میں لشکر جھنگوی کے قیام کا باعث بھی بنا ۔ کاش کے ان نڈر
صحافیوں کی بجائے شہر میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں پر ایف آئی آر
درج ہو پاتی تا کہ اس شہر سے جڑا میرے ملک کا امن بھی بحال ہو پاتا۔ کراچی
کے بعد اب جنوبی پنجاب میں بھی فوجی آپریشن انتہائی ضروری تھا جس کا آغاز
بھی جھنگ سے ہونا چاہئے۔ تاکہ پہلے کراچی پولیس کی طرح جھنگ کی پولیس کے
اندر چھپے بھیڑیوں کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔ جو ملک بھر کے امن میں
بڑی روکاوٹ سے کم نہیں۔ جھنگ میں آپریشن سے شاید چند ووزیروں مشیروں کی
دوستی یا رشتے داری متاثر ہو جائے ۔ مگر میرے ملک کے امن سے بڑھ کر کچھ
نہیں۔ ہمیں افغانستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنی زمین کو
پاکستان کے خلاف استعمال ہونے دینے سے بھی فوری روکنا ہو گا۔ اب حکمرانوں
نے تشبیہا ت ، استعارات ، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ اردو زبان کے
استعمال کی بجائے اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی توپگڑی
کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ |