ایک عشرے میں !

 پریشانیوں کے اس موسم میں خوشی کا ایک جھونکا ایوانِ صدر کی طرف سے آیا ہے، جس سے پورے ماحول میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان کے آئینی سربراہ جناب ممنون حسین نے ایک ایسی خوشخبری قوم کو سنائی ہے، جو صرف پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہمیت کی حامل ہے، یہی ہوتا ہے ایک لیڈر کا طریقہ، کوئی عام سیاستدان ہوتا تو چھوٹی موٹی بات کرتا، کسی معمولی سے مفاد کی بات کرتا، کسی کی پگڑی اچھالتا، کسی پر الزام لگاتا۔ مگر یہاں تو بات ایک قائد کی ہو رہی ہے، جو مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صد رہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً قوم کو حوصلہ دیتے رہتے ہیں،قوم کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں، کرپٹ مافیا اور کام نہ کرنے والوں کو حرام خور قرار بھی دیتے ہیں، ملکی ترقی کو بھی حوصلہ افزاء قرار دیتے ہیں، حکومت مخالفین کو خاموش کروانے کے لئے بھی بیان دے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اہم ڈیوٹی یہ بھی ہے کہ وہ قومی اور دیگر اہم ایام پر بیان جاری کیا کریں، سو اِس کارِ خیر کے لئے بھاری تنخواہوں پر بڑے گریڈ کے سرکاری ملازمین رکھے جاتے ہیں، جو جناب سے پوچھے بِنا ہی بیان جاری کردیتے ہیں، کیونکہ یہی کچھ سرکاری پالیسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک بیان اور بھی دیا تھا، بعض اوقات انسان جذباتی ہو تو سچی بات بھی کر بیٹھتا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے کوئی اختیارات نہیں، مجھے کوئی نہیں پوچھتا۔

صدرِمملکت کا تازہ اور زیرِ نظر بیان وسیع تر تناظر میں ہے، انہوں نے امتِ مسلمہ کے دو اہم ترین مسائل پر روشنی ڈالی ہے، دعوے تو اِن تنازعات کے بارے میں ہزاروں لوگ کر چکے، بہت کرتے کرتے گزر گئے، بہت تیار بیٹھے ہیں، اور بہت پیچھے بھی ہیں، مگر جو بیان ممنون حسین نے ایک اہم ترین عہدے پر بیٹھ کر دیا ہے، اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’․․․ اگلے ایک عشرے میں دنیا میں بہت سی تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں، جن کے نتیجے میں کشمیر اور فلسطین سمیت بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ․․․ مذکورہ بالا دونوں مسائل حل نہیں ہوتے، جب تک وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہ کیا گیا ․․․ کشمیر پیچیدہ نہیں، بلکہ واضح مسئلہ ہے، کشمیر کشمیریوں کا ہے، بھارت نے بلا جواز قبضہ کر رکھا ہے ․․․․ ہم کشمیر اور فلسطین کی منصفانہ حمایت جاری رکھیں گیـ․․․ پاکستان اور اردن مشترکہ عقیدے، ثقافت اور تاریخ میں جڑے ہوئے ہیں ․․․․ ‘‘۔ صدر نے یہ باتیں اردن کے ایک تاریخ دان عمر محمد نزل ارموتھی سے ایوانِ صدر میں ملاقات کر رہے تھے۔ اس موقع پر مہمان نے میزبان کو ایک تحفہ بھی دیا۔
 
مسلمانوں کے دونوں مسائل عالمی نوعیت کے ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ کئی عشرے گزر جانے کے باوجود ہم بیرونی دنیا پر ان مسائل کو اجاگر ہی نہیں کر سکے، ہمارے ملک میں ہمہ وقت ایک کشمیر کمیٹی موجود رہتی ہے، جس کے چیئرمین کو ایک وزیر کے برابر مراعات اور پروٹوکول میسر ہوتا ہے، وہ بیرونی ممالک کے دورے بھی اسی بنا پر کیا کرتے ہیں، کہ اس مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کریں، مگرہر دور کے کمیٹی کے چیئرمین کا دوسرے ممالک کا سرکاری خرچ پر سیر سپاٹا تو ہو جاتا ہے، مگر یہ مسئلہ اجاگر نہیں ہو سکا۔یا وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے،یا ان کے اندر اس قدر صلاحیتیں ہی نہیں ہیں کہ وہ دوسروں کو اپنی بات پر قائل کر سکیں۔ مگر صدر مملکت نے اگلا عشرہ ان مسائل کے حل کر بتا کر امتِ مسلمہ کو حیران ضرور کردیا ہے، آخر ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی آگئی ہے کہ انہیں آنے والے دس سالوں کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ان میں یہ دونوں مسئلے حل ہونے والے ہیں، ساتھ ہی فرمایا کہ یہ مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے جب تک وہاں کے عوام کی مرضی سے فیصلہ نہ ہوا۔ گویا انہوں نے اپنی بصیرت کی آنکھ سے حالات میں جھانک لیا ہے، کہ وہاں کے عوام سے ان کی مرضی پوچھ لی جائے گی؟ یہ باتیں چونکہ ایک اردن مورخ سے بات چیت میں بتائی گئیں، شاید ان کا مدعا یہی ہوگا کہ مورخ اپنی اگلی کتاب میں دونوں بڑے مسائل کے حل کی پیشن گوئی کردے گا۔ اس نے صدر کو تحفہ بھی دیا، یقینا اپنی کوئی کتاب ہی دی ہوگی۔ جواب میں صدر نے کیا دیا، اس راز سے خبر میں پردہ نہیں اٹھایا گیا؟یہ راز بھی فاش نہ ہو سکا کہ اردن کے ساتھ مسلمان ہونے کے علاوہ ثقافت اور تاریخ میں کونسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473082 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.