ساڑھے آٹھ ارب ڈالر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
گورنر سٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے
غریب پاکستانی قوم کی ایک جھلک دکھائی ہے،انہوں نے بتایا ہے کہ’’ پاکستانی
قوم سالانہ ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے کپڑے، گاڑیاں، میک اپ کا سامان اور اسی
قسم کی غیر ضروری اشیاء درآمد کرتی ہے․․․ جب تک امیر لوگ ایمانداری سے ٹیکس
نہیں دیتے، مسائل کے حل میں رکاوٹیں ختم نہیں ہو سکتیں ․․․‘‘۔ اپنے ہاں
عموماً پاکستان کو غریب ملک تصور کیا جاتا ہے، ظاہر ہے جب ملک غریب ہے تو
وہاں رہنے والی قوم بھی غریب ہی ہوئی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ
پاکستانی حکومتوں کو ہمیشہ امیر ہی گِنا جاتا ہے، کیونکہ اپنے حکمران ملک
کے اندر ہوں یا باہر اپنی امارت کے ایسے نمونے ظاہر کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ
دنیا بھی حیرت زدہ ہو کر منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ جن ممالک سے اپنے حکمران
قرضہ مانگنے جاتے ہیں، وہاں بھی نہایت شاہانہ شان وشوکت سے رہتے اور مہنگے
ترین سٹورز سے شاپنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ جب وہ ملک کے اندر ہوتے ہیں تو ان کا
پروٹوکول اور مراعات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کے لئے سڑکیں بند ، دسیوں
گاڑیاں ان کے آگے پیچھے ، سکیورٹی کی غرض سے سیکڑوں پولیس والے پہرہ دیتے
ہیں، مقامی انتظامیہ اپنی سرکاری سواریوں سمیت وہاں موجود ہوتی ہیں۔
انتظامات کی مد میں لاکھوں روپے ایک دورے پر خرچ اٹھتا ہے۔ ان کے سرکاری
غریب خانوں کی تزئین وآرائش پر سالانہ کروڑوں روپے لگا دیئے جاتے ہیں۔ نہ
جانے کتنے طریقے ہیں، جن سے حکمران سالانہ اربوں روپے ڈکار جاتے ہیں۔
پاکستان میں عوام دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلے خیال پایا جاتا تھا کہ طبقے
تین ہیں، ایک امیر اور دوسرا متوسط اور تیسرا غریب۔ مگر اب حالات بدل چکے
ہیں، اب درمیان والے طبقے کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے، اس کے لئے زندگی مشکل
ہوتی جارہی ہے۔ اب امیر ، امیر تر ہو رہا ہے اور غریب، غریب تر۔ درمیان
والا طبقہ میں سے کسی کا ہاتھ اڑ گیا تو وہ اوپر چلا گیا اور کسی کا پاؤں
پھسل گیا تو وہ نیچے جاگرا۔ جب انسان غریب ہوتا ہے تووہ برداشت کرنے پر
آجاتا ہے، مگر اب سختیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ مہنگائی بھی حد سے زیادہ
بڑھ گئی ہے، جو انسان کو بنیادی سہولتیں دستیاب ہونی چاہیئں، وہ نہیں ملتیں،
مفت تعلیم اور مفت علاج کا صرف نعرہ ہے، اب تعلیم کی مد میں کسی حد تک یہ
نعرہ پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ حکومت نے اپنے ہی ہزاروں پرائمری
سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے، جس
سے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم میسر آسکے گی۔ مفت علاج کا خواب آنکھوں
میں سجائے بہت سے غریب مریض ہسپتالوں کی راہداریوں میں مایوسی کے عالم میں
اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں، مگر ہمت ہے حکمرانوں کی کہ دعووں میں کمی
نہیں آنے دیتے۔ پینے کا صاف پانی، سڑکیں، صفائی، عوام منتظر ہیں، مگر حکومت
وعدوں پر وعدے اور دعووں پر دعوے کرتی جاتی ہیں۔ اب دور ایسا نہیں رہا کہ
کوئی غریب مہنگائی اور مسائل کے بغیر بھی گزارہ کرتا جائے، حالات بدل چکے
ہیں۔ اب گھر کا کرایہ بھی ہے، بجلی کا بل بھی، مہنگی دوائی بھی، دیگر
ضروریاتِ زندگی بھی غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔
جہاں تک مہنگی ترین درآمدات کا ذکر ہے تو پاکستان میں بہت سے لوگ بے حد
امیر ہیں، انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ان کے پاس پیسہ کتنا ہے اور اسے استعمال
کس طرح کریں، کبھی وہ بیرونِ ملک سیر پر نکل جاتے ہیں، کبھی عمرہ کرکے دل
کو تسلی دے لیتے ہیں، کبھی سیاست وغیرہ میں آکر یا دیگر مشاغل میں خرچ کرتے
ہیں۔ امارت کے ساتھ ہی درآمد شدہ چیزوں کا استعمال ایک فیشن بن گیا ہے، ایک
دوسرے کی دیکھا دیکھی معاملہ ہاتھ سے نکلتا جاتا ہے۔ بہت سے امیر لوگ اگرچہ
ضرورت مندوں پر اپنے انداز میں خرچ کرتے ہیں، مگر اس طرف بہت زیادہ توجہ
دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ٹیکس کا معاملہ ہے، تو ایمانداری کا تصور
ہی کہاں ہے؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیکس اس حساب سے نہیں دیا جاتا جس حساب
سے قوم کے پاس پیسہ دکھائی دیتا ہے۔ اب مردم شماری ہونے والی ہے، کوٹھیوں،
گاڑیوں اور کاروبار والوں سے ٹیکس کی تحقیق بھی ہونی چاہیے۔ یہ کام
ایمانداری پر چھوڑنے کی بجائے حکومت خود کرے(بشرطیکہ سب خود ہی نہ کھائے)،
تو ملک کی حالت سنور سکتی ہے۔ اور امیر لوگ اپنی ذات پر ساڑھے آٹھ ارب ڈالر
لگانے کی بجائے اس میں سے کچھ مدد دوسروں کی بھی کریں تو بھی تبدیلی آسکتی
ہے۔ |
|