یوکرین میں ۲۰۱۴ء کے بحران نے روس اور مغرب
کے درمیان جو کشیدگی پیدا کی، اس کے دور رس سیاسی جغرافیائی اثرات مرتب
ہورہے ہیں اوریوریشیا یعنی یورپ اورایشیامیں بالادستی کی امیدیں لیے روس
مشرق میں نئے اتحادیوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ چین کی جانب جھکاؤ
رکھنے والا روس، امریکا اور یورپ کا سیاسی و معاشی دباؤ برداشت کرتے ہوئے
مشرق اور مغرب کے درمیان موجود طاقت کے طور پر یوریشیا میں اپنی روایتی
حیثیت دوبارہ حاصل کررہا ہے۔
ماسکو اب برلن کی نسبت بیجنگ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ کسی چین، روس اتحاد کا
پیش خیمہ تو نہیں لیکن، بعد از کمیونزم، روس کی مغرب کے ساتھ یگانگت ضرور
دم توڑتی جارہی ہے۔ نئے تاریخی منظرنامے میں روس ایشیا پر توجہ مرکوز کرتے
ہوئے غیر مغربی اقوام کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کرے گا۔ روایتی
طورپرماسکونے امریکا،چین اوریورپ سے آغاز کرتے ہوئے عالمی بساط کے تمام
اہم مہروں سے روابط متوازن رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایشیا اور بحر الکاہل کی
جانب رخ کرتے ہوئے روس نے اس خطے سے متعلق خارجہ پالیسی کو یورپ اور
اوقیانوس سے الگ کرنے کے بجائے اس سے منسلک کردیا تھا۔ ماسکو خطے کے اندر
بھی چین، بھارت اور جاپان جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کے لیے
کوشاں رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں کریمیا میں مداخلت اور اس پر مغربی ردعمل نے کچھ
عرصے کیلئے ہی سہی، لیکن ایک بڑے دھچکے کی صورت میں توازن کو ناپید کردیا
تھا۔
یوکرین کے میدانِ استقلال میں انقلابی واقعات رونما ہونے سے پہلے پوٹن
جرمنی کے ساتھ ایک ایسے معاشی و سیاسی تعلق کا خواب دیکھ رہے تھے جو تعاون
کا ایک محور تشکیل دے سکتا تھا۔ اپنے اس تصور کو پوٹن نے عظیم تر یورپ کا
نام دیا جو لِزبن سے ولادی ووسٹوک تک معیشت، ثقافت اور سلامتی کے فروغ کی
فضا قائم کرتا۔ اس منصوبے کے تحت یورپی صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے لیے روسی
قدرتی وسائل بروئے کار لائے جاتے، جبکہ روس یورپی یونین کو ایشیا اور
بحرالکاہل تک جغرافیائی سیاسی اور تزویراتی رسائی فراہم کرتا۔روسی بالادستی
کا حامل یہ تصور جرمن تجارتی طبقے کے لیے تو پرکشش تھا، لیکن سیاسی حلقوں
اور میڈیا میں بہت شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ بالآخر چانسلر اینجلا مرکل نے
بھی معاملے پر سرد مہری سے کام لیا۔ نتیجتاً جرمنی کے ساتھ کلیدی تعلق اب
ٹوٹ چکا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں روس کے رہنما میخائل گوربا چوف نے ایک مشترکہ یورپی
گھر کا تصور پیش کرتے ہوئے جرمنی کو متحد ہونے دیا۔ اس وقت سے روس مغربی
یورپ کے ساتھ ایک ایسے رسمی تعلق کی طرف بڑھ رہا تھا جس کا مرکز جرمنی ہو۔
لیکن ۲۰۱۴ء تک وہ اپنے کلیدی بیرونی شراکت دار سے دور ہوچکا تھا۔
تمام پہلووں کو مدنظر رکھا جائے تو مغرب کے ساتھ روس کے تنازع کا سب سے
زیادہ فائدہ چین کو ہوا۔ بظاہر تو روسی اقدامات نے بیجنگ کے خارجہ پالیسی
اصولوں کو پامال کیا لیکن چینی رہنما کیف (یوکرین کا دارالحکومت)کے ان
واقعات سے صرفِ نظر نہیں کرسکے جنہوں نے ماسکو کو ردعمل پر مجبور کیا۔ ان
کے لیے ماسکو کے ردعمل سے زیادہ یوکرین میں یورو میدان جیسے رنگین انقلابوں
کو میسر مغربی حمایت چین سمیت سب کی سلامتی کے لیے زیادہ بڑا خطرہ تھا۔ کچھ
چینی حکام کے نزدیک تو کریمیا کے بحران سے نمٹنے کا پوٹن کا طریقہ سراہے
جانے بلکہ اپنائے جانے کے قابل تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ روس کی امریکا کے
ساتھ محاذ آرائی نے چین کو اس خطرے سے بے پروا کردیا کہ متحرک پوٹن کہیں
واشنگٹن کے ساتھ کسی مفاہمت کے خواہاں نہ ہوجائیں۔اس سے روس کے سامنے عالمی
سطح پر موجود ممکنات میں بھی کمی ہوئی اور اسے بیجنگ کے لیے مفید شرائط کے
تحت چین کی جانب جھکنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ چین روس کی بے دریغ حمایت نہیں کرنا
چاہتا تھا کیونکہ ماسکو کی طرفداری کرنے سے واشنگٹن کے ساتھ اس کے تعلقات
پر آنچ آتی تھی۔ ایک مکمل تبدیل شدہ ماحول میں ماسکو نے پیسے، سرمایہ
کاری، حتی کہ کچھ ٹیکنالوجی کے لیے بھی بیجنگ کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔
مغربی پابندیوں کے ہوتے ہوئے، روس مخالف اتحاد سے باہر چین واحد سب سے بڑی
معیشت کے طور پر رہ گیا تھا۔ اس کے علاوہ چین ۲۰۰۹ء سے روس کا سب سے بڑا
تجارتی شراکت دار ہے اور باہمی تجارت کا حجم۲۰۱۴ء میں۹۵ ملین ڈالر تک پہنچ
گیا تھا۔
روس کا مشرق و مغرب کے درمیان ڈولنا چینی خارجہ پالیسی کو مزید متحرک
بناگیا ہے۔ صدر شی جن پنگ کی زیرِ قیادت چین ایسی سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں
سے وہ اپنے مفادات کے تحفظ اور پھیلاو پر زیادہ زور دے سکتا ہے۔ امریکا کے
ساتھ چین کے تعلقات مسلسل مسابقت کی جانب مائل ہیں۔ مشرق میں بحرالکاہل کی
طرف چین کے پھیلاؤکو امریکی زیرِ قیادت اتحادوں کا سامنا ہے، مغرب کی جانب
راستہ البتہ امریکی مداخلت سے پاک ہے اور بیجنگ کو ایشیا میں اثر و رسوخ
بڑھانے اور وسائل اور منڈیوں تک رسائی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ روس کے ساتھ
قریبی روابط اس حکمت عملی میں پوری طرح سما جاتے ہیں۔ روس کا ایشیا کی طرف
متوجہ ہونا بہرحال چین کو گلے لگانا ہی ہے، لیکن اس روسی معانقے کی وجہ خطے
میں دیگر قابلِ اعتماد ساتھیوں کا نہ ہونا بھی ہے۔
جاپان، فروری۲۰۱۴ء کے سوچی اولمپکس میں وزیراعظم ایبے کی پوٹن سے ملاقات
تک، روس کے ساتھ تزویراتی سکونت کا سوچ رہا تھا، لیکن یوکرین کے معاملے میں
روس پر پابندیاں لگنے کے بعد اس کے پاس اپنے واحد اتحادی امریکا کا ساتھ
دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔۲۰۱۴ء کے اواخر میں پیوٹن کا مجوزہ دورئہ
جاپان ملتوی ہوا اور امن معاہدے اور سرحدی اتفاقِ رائے کے ذریعے جنگ عظیم
دوم کا باب بالآخر بند کرنے کی امیدیں موہوم ہوگئیں۔ بحیرئہ جنوب مشرقی
چین میں روسی بحریہ نے چینی پیپلز لبریشن آرمی کے ساتھ مشقوں میں حصہ لیا
اور ۲۰۱۵ء میں بیجنگ اور ماسکونے دوسری جنگ عظیم میں جاپانی سامراجیت اور
عسکریت کی شکست کے ۷۰ سال پورے ہونے پر مشترکہ جشن بھی منایا۔
جاپان کے برعکس یوکرین کے بحران نے روس کے جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات کو
زیادہ متاثر نہیں کیا۔ ٹیکنالوجی اورسرمایہ کاری کے معاملات پرسیول کے ساتھ
سودے بازی کی قوت بڑھانے کیلئےماسکو،پیانگ یانگ(شمالی کوریا کا
دارالحکومت)میں زیادہ متحرک ہوگیا ہے لیکن اس کی جنوبی کوریا کے ساتھ تعلق
داری روس کے شمالی حصوں کی ترقی کے لیے ایک حد تک ہی معاون ثابت ہوسکتی ہے
کیونکہ واشنگٹن نے سیول کو ماسکو سے تعلقات بڑھانے کی ایک حد تک ہی اجازت
دی ہے۔ اسی طرح خطے میں موجود سنگاپور اور تائیوان جیسے انتہائی ترقی یافتہ
معیشت کے حامل امریکی اتحادی واشنگٹن کی خفگی سے بچنے کی خاطر ماسکو کے
ساتھ معاملات میںانتہائی محتاط ہیں ۔
جہاں یہ خدشات کسی حد تک غیر اہم ہیں، وہیں روس کو بھی اپنی روایتی دوستانہ
تعلق داریاں معیار کے لحا ظ سے ایک نئی سطح تک لے جانی ہوں گی۔ اس سے سب سے
بڑھ کر مراد ایشیا میں روس کے دو تزویراتی شراکت دار یعنی بھارت اور ویتنام
ہیں۔پچھلی چھ دہائیوں سے بھارت روسی اسلحے کاسب سے بڑا خریدار رہاہے اوراب
بھی اسلحے کے سپیئرپارٹس کی مد میں روس کوخاصازرمبادلہ مل رہاہے اورایک ارب
سے زائدآبادی کی منڈی پربھی روس کی نگاہ ہے لیکن مودی کاتیزی سے امریکاکی
گودمیں بیٹھنے سے روس کے تحفظات بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مودی کی
امریکامیں روزافزوں دلچسپی پر روسی ردّعمل آنا ابھی باقی ہے۔ علاوہ ازیں
امریکاکے ساتھ مخاصمت کے تناظر میں چین پرروس کا بڑھتا ہوا انحصار بھی
تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ویت نام یقینا روس کے لیے اہم ہے، مگر وہ ایک درمیانی طاقت ہے۔ روس کے لیے
ویتنام جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم(آسیان)تک رسائی کا ذریعہ ہے جس
کے ساتھ ماسکو روابط بڑھانا چاہ رہا ہے۔ لیکن معاشی کمزوریوں کے باعث روس
کے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ پائیدار تعلق داری قائم کرنے کے اقدامات
ناکافی ہیں۔ ماسکو کو اب ہنوئی (ویتنام کا دارالحکومت)کے ساتھ معاملہ کرنے
میں بھی خاص احتیاط کی ضرورت ہوگی تاکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات پر ضرب نہ
پڑے۔ مغرب کا ہمیشہ یہ گمان رہا ہے کہ چین، روس شراکت داری ان کیلئے معاشی
پریشانیوں کاسبب بن سکتاہے جس کیلئے ضروری ہے کہ روسیوں کے لیے چینیوں کی
جوحقارت بڑھ رہی ہے اس سے بھرپورفائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش کی جائے۔لیکن
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ قیاسات کبھی سچے تھے بھی تو اب نہیں ہیں،نہ صرف چین
اور روس کے بہت سے بنیادی مفادات مشترک ہیں بلکہ دنیا کو دیکھنے کا زاویہ
بھی ایک جیسا ہوتا جارہا ہے۔ اب ایک ایسی مضبوط ریاست کی ضرورت سرفہرست ہے
جو بین الاقوامی سطح پر کچھ بھی کرگزرنے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی چیز نے
دونوں ملکوں کے لیے ایک دوسرے کی حکومتوں کی حمایت کو کلیدی ترجیح بنا دیا
ہے۔ کریملن اور زونگ ننہائی کے نزدیک ان کے ملکوں میں جمہوریت اور انسانی
حقوق کے لیے چلائی جانے والی مغربی مہم انہیں غیرمستحکم کرنے کی امریکی
پالیسی کا حصہ ہے۔
روسی اور چینی رہنما مغربی حکومتوں کی تنقید کو ناپسند کرتے ہیں اور غیر
سرکاری تنظیموں کے لیے بیرونی سرمائے، باغیانہ سوچ ابھارنے کے لیے انٹرنیٹ
کے استعمال اور مغربی میڈیا کے ابلاغ کو متعصب قرار دیتے ہوئے ان سب کو
مسترد کرتے ہیں۔ یہ سب ان کے نزدیک ان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے جسے
محدود یا معدوم ہوجانا چاہیے۔ پوٹن نے ۲۰۱۱ء / ۲۰۱۲ء میں ماسکو کی سڑکوں پہ
ہونے والے مظاہروں کا الزام روسی سول سوسائٹی کو حاصل امریکی حمایت پر
لگایا، جبکہ بیجنگ کو ہانگ کانگ کی احتجاجی تحریک کے پیچھے بیرونی ہاتھ نظر
آیا۔ چونکہ ماسکو اب مغرب اور غیر مغرب کو ساتھ لے کر چلنے کے قابل نہیں
رہا، اسی لیے واشنگٹن کی عالمی پالیسی کو جانچنے کے روسی اور چینی پیمانے
ایک جیسے ہوتے جارہے ہیںلیکن یہاں ایک اہم فرق بھی واضح ہے۔ اپنی بڑھتی
ہوئی طاقت کے پیشِ نظر چین ایشیا میں اپنی’’ فطری‘‘ تاریخی حیثیت بحال کرکے
اسے عالمی سطح تک لے جانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب روس اب عالمی اجارہ داری کی
دوڑ میں شامل نہیں رہا۔ وہ اب صرف یوریشیا میں طاقت کا مرکز بننے کے ساتھ
ساتھ عالمی طاقتوں کی صف میں شامل رہنا چاہتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اگلی
دودہائیوں میں امریکاعالمی نمبردارکامنصب کھودے گا۔ |