حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین
میں اصلاحات کیلئے مشیر خارجہ وزراء قانون امور کشمیر ،صدر ،وزیراعظم
آزادکشمیر پر مشتمل کمیٹی سے خطہ کے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور
امید کی جا رہی ہے کہ یہ کمیٹی جلد ازجلد خود کو تفویض کردہ فریضہ احسن
انداز میں سر انجام دیتے ہوئے ایک نیا باب رقم کریگی ۔قبل ازیں گلگت
بلتستان کے حوالہ سے بھی مشیر خارجہ کی سربراہی میں وہاں کے آئینی امور کو
سلجھانے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔پہلی
اور اب آزادکشمیر کے حوالے سے قائم کردہ کمیٹی میں مشیر خارجہ کی موجودگی
واضح کرتی ہے کہ ریاست کشمیر کے مستقبل کی تصفیہ طلب حیثیت کا خصوصی پہلو
پیش نظر رکھا گیا ہے ۔،اب بات باقی چاروں صوبوں کو اٹھارویں ترامیم کے بعد
جو اختیار ملے ہیں وہی آزادکشمیر گلگت بلتستان کی اولین ضرورت ہے ۔اس حوالے
سے قانون ساز اسمبلی سے سفارشات کی تیاری کا پہلا مرحلہ طے ہوا تھا ۔جن کو
ڈرافٹ کی شکل دینے کیلئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل ،سیکرٹری قانون ایڈووکیٹ
جنرل پر مشتمل کمیٹی آئندہ چند ایام میں اجلاس منعقد کرے گی جس کے بعد
حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا کام شروع ہوگااور پھر
وزیر اعظم پاکستان جو کشمیر کونسل کے چےئرمین بھی ہیں کہ منظوری سے ایک
خواب کی تعبیر سامنے آسکے گی ۔جس میں آزاد حکومت کا عالمی سطح پر مقدمہ
کشمیر پیش کرنے میں فعال کردار سے لے کر قومی اقتصادی کونسل ارساء سمیت
فیصلہ ساز اداروں میں اپنے حقوق کی ترجمانی کرنے کا حق وسائل پر دسترس سمیت
خطہ کے اندر ترقی ،خوشحالی ، معاشی آسودگی سمیت اعتماد وقار قائم کرنا ہے ۔اگرچہ
یہ ایک بہت کٹھن اور نازک ہدف ہے جس میں یقیناًچاروں صوبوں کی مکمل تائید
حمایت بھی درکار ہوگی ۔جن کی حکومتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنے سمجھانے
اعتماد دلانا اصل کام ہے ۔جیسا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فاٹا کو
صوبہ کے پی کے میں شامل کرنے کے متعلق اجلاس سے خطاب میں واضح کیا کہ فاٹا
آزادکشمیر گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا اور ان کو سائل
میں بطور حصہ دار تسلیم کرنا ہوگا۔یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز
شریف کا نقطہ نظر واضح اور شفاف ہے ۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک
چےئرمین آصف علی زرداری کا بطور صدر پاکستان اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو
تفویض کرنے ،اٹھارویں ترامیم کے ذریعے چاروں صوبوں کو اختیارات،وسائل کی
منتقلی کے عملی اقدامات ان کی قومی سوچ کا ثبوت ہیں جو نظر انداز،پسماندہ
علاقوں کی جانب زیادہ توجہ دینے کے حامی و ناصر رہے ہیں ۔ان سے زرداری ہاؤس
اسلام آباد میں کشمیری رہنماؤں سابق وزیر اعظم سردار عتیق خان ،اسپیکر شاہ
غلام قادر ،عبدالرشید ترابی سمیت حریت رہنماؤں نے ملاقات کی ۔جس میں کشمیر
کانفرنس کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ۔آصف علی زرداری نے ان کی توقعات
سے بڑھ کر اپنی شرکت اور مکمل تعاون تائید و حمایت کے جذبات کا اظہار کیا ۔تحریک
کشمیر آزاد خطہ ،گلگت بلتستان ،مقبوضہ کشمیر اور پاکستان ،عالمی علاقائی ،جغرافیائی
،معاشی ،ثقافتی ہر حوالے سے باہم جڑے ہیں ۔جن کو الگ الگ یا محدود فکر و
عمل میں نہیں رکھا جا سکتا۔اب بدلتی دنیا کے تقاضے ہیں کہ دل و دماغ کو
سمندروں جیسی وسعتوں میں ڈال کر مسائل ،مشکلات ،چیلنجز کو بہتری اور فلاح
کے امکانات میں بدلا جائے تاکہ سندھ کے صحراؤں سے لے کر لداخ کی چوٹیوں پر
رہنے والے عام شخص کو بھی احساس ہو کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہے اور
باوقار زندگی بسر کر رہا ہے ۔بدقسمتی ہے کہ آزادکشمیر کے تعلیمی معیار کو
بہتر بنانے کیلئے اقدامات میں حکمران جماعت کی اتحادی جماعت ،علاقہ ،ضلع ،برادری
کے نام کو غلط استعمال کرتے ہوئے خرابی پیدا کی جا رہی ہے ۔جس کا اس جماعت
کی قیادت اور حکومت دونوں جانب سے سختی سے نوٹس لیے جانے کی ضرورت ہے کہ
حکومتی پالیسیوں اور ضابطہ اور قانون سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے ۔قول و
عمل میں تضاد ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہوتا ہے ۔اب مذہب مسلک ،علاقہ برادری
سمیت تعصبات جیسی جہالت کا وقت نہیں رہا ہے ۔بلکہ بہتر وہ ہے جو دوسروں
کیلئے بھی بہتری کا باعث بنے ۔نہ کہ اپنی بہتری کیلئے دوسرے کی تکلیف کا
باعث بنتا ہو۔ |