پاکستان اورافغانستان دوبردار اور ہمسایہ اسلامی ممالک
ہیں یہاں کے عوام کے درمیان صدیوں کے رابطے اور رشتے موجود ہیں اور
بسااوقات تو یہاں رسوم ورواج بھی ایک جیسے ہی ہیں دونوں طرف زبان ایک ہونے
کی وجہ سے آپس کے رابطے بہت آسان ہیں جس کے فائدے بھی ہیں اورنقصانات بھی،
جن میں سب سے بڑا نقصان افغانستان کے لیے ،بڑی آسانی سے دہشت گردوں کو سرحد
پار کرانا اور ان سے دہشت گردکاروائیاں کرادیناہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ وہ
ایسا کرتے ہوئے اُس مضبوط ترین رشتے کو بھول جاتا ہے جس کا نام مذہب ہے
بلکہ مذہب ہی کے نام پر بہت سی دہشت گرد کاروائیاں بڑی آسانی سے کروائی
جارہی ہیں اور اس سب کچھ کے لیے اُسے ہمارے مشرقی ہمسایے کی مکمل حمایت
حاصل ہے بلکہ حمایت سے زیادہ یہ سب اُس کے مطالبے پر کیا جارہاہے۔ مجھے
افغانیوں سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ مدد کے لیے یہ پاکستان کی طرف دیکھتے
ہیں لیکن سنتے اور مانتے یہ بھارت کی ہیں۔ یہ پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے
گن گا تے ہیں یہ بھارت کی شہ پر پاکستان کے امن کو تباہ کیے ہوئے ہیں پہلے
حامد کرزئی اور اب اشرف غنی بھارت کے چنگل میں پھنس گئے۔ بھارت نہ صرف
مشرقی سرحد سے پاکستان کے خلاف اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ مغربی
سرحدوں پر سازشوں کا منبع بھی اُسی کی طرف سے پھوٹتا ہے۔ بھارت نے پاکستان
کے قیام کے ساتھ ہی اس کے خلاف جن سازشوں کا سلسلہ شروع کیااُن میں سے ایک
اس کا پانی روکنا تھا۔ یکم اپریل 1948 کو اُس نے پہلی بار پانی کو بطور
ہتھیار اس نوزا ئیدہ مملکت کے خلاف استعمال کیا اور پنجاب کی نہروں کا پانی
روکا۔ ہیڈور کس بھارتی یعنی مشرقی پنجاب میں ہونے کی وجہ سے اُس کے لیے
ایسا کرنا بہت آسان تھا۔1960کے سندھ طاس معاہدے کے بعد بھی وہ پاکستان کے
خلاف آبی دہشت گردی کا مرتکب ہوتارہتا ہے، اس معاہدے کی روسے سندھ، جہلم
اور چناب کا پانی پاکستان کے حصے میں آیالیکن بھارت ان دریاؤں کا پانی بھی
جب چاہتا ہے روک دیتا،موڑدیتا ہے، ان پر ڈیم بنا لیتا ہے اور ان پر ایسے
منصوبے بنا لیتا ہے کہ پانی پاکستان تک پہنچ ہی نہ سکے اور پنجاب کے لہلہا
تے کھیت بنجر ہو جائیں۔لیکن اب تواُس نے اپنی آبی دہشت گردی کا دائرہ پورے
پاکستان تک پھیلانے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور افغانستان کے راستے جہاں
دوسری دہشت گردکاروئیاں کر رہا ہے وہیں اُس نے اُسے دریائے کابل کا پانی
روک کر اُس پر بند بنانے کا مشورہ بھی دینا شروع کر دیا ہے بلکہ اُس کو مدد
کی پیشکش بھی کردی ہے کہ وہ دریائے کابل پر اُسے ایک ذخیرہ تحفتاََ بنا کر
دے گا اوریہ اِن دونوں ممالک کی دوستی کی ایک مثال ہو گی۔ دراصل افغانستان
کی پاکستان مخالفت اور بھارت کی حمایت بالکل غیر فطری ہے اور صرف بھارتی
پرو پیگنڈے پر مبنی ہے۔بہر حال بھارت پانی کے ہتھیار کو اب ایک نہیں دو طرف
سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور افغانستان کو ایسا کرنے پر راضی
کرنا اس کے لیے کافی آسان ہے لہٰذاپاکستان کو وقت سے پہلے ہی اس پہلو پر
کام کرنے کی ضرورت ہے۔دریائے کابل افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والا
700کلومیٹرلمبا دریا ہے جس پر افغانستان میں پہلے ہی تین ڈیم موجود ہیں
ناگلو،سروبی اوردارونتاافغانستان میں دریائے کابل پر ساٹھ کی دہائی میں
بنائے گئے ڈیم ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق وہ مشترکہ دریاوءں پر بارہ ایسے
منصوبے بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سات
دریا مشترک ہیں لیکن ان دریاوءں کے پانیوں کے بارے میں کوئی معاہدہ موجود
نہیں۔افغانستان اکثر اوقات اندرونی خلفشار کا شکار رہتا ہے لہذاوہ ایسے
مسائل پر توجہ دینے کی شاید پوزیشن میں نہیں ہوتا اور جب اُس کی حکومت کچھ
عرصے کے لیے مستحکم بھی ہو جائے تو کم از کم ماضی قریب میں تو یہ حکومتیں
بھارت کے کچھ ایسے زیر اثر آجاتی ہیں کہ اُس کی دست وبازو بن جاتی ہیں بلکہ
اُس کی دوستی میں افغانستان پاکستان کے خلاف اُس سے بڑھ کر پروپیگنڈا کرتا
ہے، جانے یا انجانے میں اُس کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے وہ اب بھی اسی کی
خوشنودی کے لیے پاکستان دشمنوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔لیکن اگر افغان اپنی
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ یہیں پاکستان ہے جس نے جب
کبھی اُن پر مشکل وقت پڑا اُن کی مددکی اُن کی خاطر پوری دنیا سے ٹکر لی
جبکہ اُن کے مشکل وقت میں بھارت ایک طرف ہی رہا۔اس وقت بھی اگر وہ
افغانستان میں منصوبے مکمل کروا رہا ہے تو افغانوں کی محبت میں نہیں بلکہ
وہ ان سے اپنے دو مقاصد حاصل کر رہا ہے پہلا بھارتیوں کواپنے ہاں سے
پاکستان میں داخل کروا رہا ہے اور دوسرا اُس کے سرمایہ کار اپنے خزانے
بڑھارہے ہیں۔ یہی مقاصد وہ دریائے کابل کے اوپر ڈیم بنانے سے بھی حاصل کرنا
چاہتا ہے۔بھارت کی افغانستان میں دلچسپی صرف پاکستان کی مخالفت اور اس کے
لیے مسائل پیدا کرنے کی حد تک ہے۔پاکستان کو ان مسائل کا علم توہے لیکن
اُسے ان کا توڑ بھی ہر سطح پر کرنا چاہیے اور اس سے پہلے کہ وہ مغرب کی طرف
سے ایک اور دہشت گردی کرتا ہوا حملہ آور ہو حکومت پاکستان کو اس مسئلے کو
سنجیدگی سے لینا چاہیے اور افغانستان کے ساتھ دریائے کابل کے بارے میں کوئی
معاہدہ کر لینا چاہیے اور اُسے اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ دنیا میں
بہت سے ممالک بہت سے دریاؤں کا پانی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دریاؤں کے منبے کسی ایک ملک میں ہوتے ہیں اور اس کے پانی پر حق اُن تمام
ممالک کا ہوتا ہے جن میں ان کی گزرگاہ ہوتی ہے۔ دنیا میں تقریباََ 276 دریا
اور جھیلیں ایسی ہیں جو ایک سے دوسرے ممالک میں داخل ہوتے ہیں ان276 دریاؤں
کے راستے میں 148ممالک آتے ہیں اور ان میں اکثریت پر امن طور پر ان پانیوں
کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسے دریاؤں کے پانی کے بارے میں کئی بین الاقوامی
معاہدے موجود ہیں جن میں امریکا ۔میکسیکو،امریکہ۔کینڈا ،میکانگ معاہدہ اور
پاکستان اور بھارت کے درمیان سندہ طاس معاہدہ چند ایک مثالیں ہیں۔ اسی طرح
نیل کے پانی پرسمجھوتہ یورپی یونین کے سمجھوتے اور معاہدے بھی موجود
ہیں۔پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایک محفوظ اور مناسب معاہدہ کر لینا
چاہیے جس میں پاکستان کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی ملتا رہے یہ معاہدہ
دونوں ملکوں کی باہمی رضا مندی سے ہو تاکہ بھارت جیسے دشمن کو مداخلت کا
موقع ہی نہ مل سکے اور پاکستان اور افغانستان آپس میں مل بیٹھ کر اپنے
مسائل خود حل کریں اور دشمن کو فائدہ اٹھانے نہ دیں۔ پاکستان کو دو محاذوں
پر کام کرنا ہے ایک تو دشمن کا براہ راست مقابلہ اور دوسرا افغانستان کو یہ
احساس دلانا کہ پاکستان اُس کا دوست ہے ایسا دوست جس نے ہر موقع ہر مشکل
اور مصیبت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے اُس کے دشمن کو پاکستان نے اپنا
دشمن سمجھا ہے لہٰذاافغانستان یہ سمجھ لے کہ بھارت اُسکی دوستی میں نہیں
پاکستان کی دشمنی میں اُس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر پاکستان افغانستان کو یہ
احساس دلانے میں کامیاب ہو گیا تو یہ دونوں ملکوں کی دشمن کے خلاف مشترکہ
فتح ہوگی۔ دریائے کابل کا پانی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ ملکیت ہے
اور اس مسئلے کے سر اٹھانے سے پہلے حل کر لینا چاہیے۔ |