بِسّم اللہ الرَّحْمنِ الرَّحْیم
مجھے کچھ کہنا ہے
1993 کے آغاز سے ہی کراچی بھر کے دیواروں پر یہ نعرہ بڑے بڑے حروف سے لکھا
نظر آنے لگا اور پھر یکم مئی 1993 کو ایم کیو ایم کے چئیرمین جناب عظیم
احمد طارق کو اُن کے گھر میں قتل کر دیا گیا، مرحوم گھر پرپیر و مرشد کے
حکم پر اور تنظیمی محافظوں کی نگرانی میں نظر بند تھے، مگر پھر بھی قتل کر
دئیے گئے 1992 میں آفاق احمد اور عامر خان نے اپنا الگ دھڑا ’’ ایم کیو ایم
‘‘ ( حقیقی ) بنا لیا، حالانکہ 1991 سے ہی تنظیم میں دراڑیں پڑنا شروع ہو
گئی تھیں، ایم کیو ایم ( حقیقی ) کے قیام کے بعد پیر و مرشد اپنے ہر ساتھی
کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، ایم کیو ایم کے چئیرمین جناب عظیم احمد طارق
کے بارے میں بھی وہ مشکوک ہو گئے تھے کیونکہ اُس دوران جناب عظیم احمد طارق
صاحب کسی کو اطلاع دئیے بغیر کچھ عرصے کے لیے روپوش ہو گئے تھے، پھر و ہ
اچانک ہی منظر عام پر آگئے اور اُنہوں نے ایک پریس کانفرس بھی کی تھی، جس
کے فوراً بعد اُنہیں کچھ سرکاری ایجنسیوں سے رابطے کا الزام لگا کر سیکورٹی
کے نام پر گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور پھر وہ قتل ہو گئے، قاتلوں کا آج
تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
1998 میں ایم کیو ایم کے فنانس سیکرٹری جناب ایس ایم طارق صاحب بھی قتل کر
دئیے گئے، جناب ایس ایم طارق صاحب بھی اپنے قتل سے کچھ عرصے گوشہ نشین ہو
گئے تھے وہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر بھی نہیں جاتے تھے، پھر
اُنہیں بھی ایجنسیوں سے رابطے کا الزام لگا کر غیر فعال کر دیا گیا اور کچھ
ہی عرصے بعد وہ قتل ہو گئے، قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں ملا۔
2002 میں ایم کیو ایم کے دو سابق اراکین پارلیمنٹ ڈاکٹر نشاط ملک اور جناب
مصطفیٰ کمال رضوی صاحب کو ڈیفنس میں قتل کر دیا گیا، دونوں مقتولین، نائن
زیرو پر طلبی کے بعد گھر وآپس جاتے ہوئے قتل کر دئیے گئے، اور یہ دونوں
اراکین بھی پیر و مرشد کے کچھ پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے، اور مقتولین
کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں لگا۔
2003 میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن جناب خالد بن ولید بھی
نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں قتل کر دئیے گئے، جناب خالد بن ولید کو بھی
پیر و مرشد کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف تھا اور جناب خالد بن ولید پر بھی
ایجنسیوں سے رابطے کا الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد وہ بھی رابطہ کمیٹی کی
رکنیت سے معطل کئے گئے، جناب خالد بن ولید صاحب، کراچی واٹر اینڈ سیورج
بورڈ کے چئیرمین اور جامعہ کراچی کے سیڈیکیٹ کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں، اُن
کے قاتلوں کا بھی آج تک پتہ نہیں چلا۔
2003 میں ہی ایک اور اہم رہنما جناب رزاق خان ایڈوکیٹ قتل ہو گئے، جناب
رزاق خان، کراچی کے ڈپٹی مئیر رہنے کے علاوہ سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر
اور پھر اسپیکر بھی منتخب ہوئے تھے، 1992 کے آپریشن کے دوران جناب رزاق خان
ایڈوکیٹ بھی بغیر کسی کو بتائے روپوش ہوگئے تھے اور پھر 1993 کو وہ بھی
اچانک منظر عام پر آگئے مگر اُن پر اعتبار نہیں کیا گیا اور اُنہیں بھی غیر
فعال کر دیا گیا، کارکنوں کو اُن سے رابطہ رکھنے سے سختی منع کر دیا گیا،
1998 میں جناب رزاق خان ایڈوکیٹ صاحب نے از خود ایم کیو ایم سے علیحدگی کا
اعلان کیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی، اُن کے قاتل بھی ہنوز
نامعلوم ہی ہیں۔
جولائی 2009 میں کراچی کے علاقے لانڈھی میں ایم کیو ایم کے لندن سیکٹریٹ
میں کام کرنے والے حاجی جلال اپنے بیٹوں سمیت قتل کر دئے گئے، حاجی جلال
صاحب بھی پیر و مرشد سے کسی اختلاف کے سبب لندن سے کراچی آئے تھے، اور پھر
اُن کے قاتل بھی ابھی تک نامعلوم ہی ہیں۔
16 ستمبر 2010 کو جناب ڈاکٹر عمران فاروق صاحب بھی قتل ہو گئے، ڈاکٹر عمران
فاروق صاحب اپنے موجودہ دو سالہ غیر فعالی کے باوجود ایم کیو ایم میں پیر و
مرشد کے بعد سب سے زیادہ محترم سمجھے جاتے تھے، اور اُنہیں معطل بھی اِسی
لیے کیا گیا تھا کہ پیر و مرشد کو اُن سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا، 1992 کے
آپریشن کے بعد جناب پیر و مرشد تو لندن سُدھار گئے تھے مگر ڈاکٹر عمران
فاروق پاکستان میں روپوشی کی حالت میں پارٹی کو سنبھالے رہے، سات سال
روپوشی کی حالت میں گزارنے کے بعد جناب ڈاکٹر صاحب 9 ستمبر 1999 کو جعلی
پاسپورٹ پر لندن پہنچ گئے اور جہاں اُنہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی جو
قبول کر لی گئی اور وہ تب سے ہی وہاں مقیم تھے، 2000 میں ڈاکٹر عمران فاروق
نے عملی طور پر تمام تنظیمی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے، پیر و مرشد کو
اُن سے پہلی بار خطرہ محسوس ہوا مگر تب تک ڈاکٹر صاحب نے کراچی میں اپنا
نیٹ ورک فعال کر لیا تھا تمام سیکٹروں میں اپنی پسند کے سیکٹر انچارج لگا
دئے تھے جو اُن سے براہ راست رابطے میں رہتے تھے، بات محض یہاں تک رہتی یو
شاید خیر ہی تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے اورسیز یونٹس کے معاملات بھی اپنے ہاتھ
میں لینے شروع کر دئیے تھے، کئی یونٹس میں پیر و مرشد کو بتائے بغیر ہی
ردوبدل کر دیا تھا، پہلی بار پیر و مرشد نے اُنہیں بتایا کہ وہ ایم کیو ایم
کے قائد ہیں، یہ وہی وقت تھا جب کراچی کے دیواریں کہہ رہی تھی ’’ ہمارا
قائد صرف الطاف ‘‘ اور پھر پیر و مرشد نے ڈاکٹر صاحب کا بنایا ہوا سارا نیٹ
ورک دھیرے دھیرے ختم کیا، تمام سیکٹر انچارج ایک کے بعد ایک تبدیل کئے،
2002 میں پیر و مرشد نے ڈاکٹر صاحب کو معطل کر دیا مگر ڈاکٹر صاحب کی
مقبولیت دیکھ کر اور پارٹی میں کسی ممکنہ بغاوت کے سبب کچھ عرصے بعد بحال
کر دیا، کچھ عرصے بعد پھر معطل اور بحال کیا، اور آخری بار اگست 2008 میں
ایک بار پھر اُنہیں مکمل طور پر غیر فعال کردیا گیا اور وہ ہنوز غیر فعال
ہی تھے، اَس دوران پیر و مرشد صاحب نے اُن پر سنگین الزامات لگائے تھے اور
تمام کارکنان، ارکان پارلیمنٹ اور ہمدردوں کو سختی سے اُن سے ملنے یا رابطہ
رکھنے سے منع کر دیا تھا ایسا کرنے والے ہر شخص کو غدار تصور کیا جاتا تھا،
ڈاکٹر صاحب پر الزامات کی طویل فہرست تھی، اور سب سے سخت الزامات، آفاق
احمد سے رابطے اور نئے دھڑے کے قیام کے تھے، حالیہ دنوں میں اورنگی ٹاؤن
میں بہاری سیکٹر کی بغاوت اور بہاری قومی موومنٹ کا قیام بھی ڈاکٹر صاحب کے
کھاتے میں ڈالا گیا تھا، مگر ڈاکٹر صاحب کے قتل کے بعد ایم کیو ایم نے جس
ڈرامائی انداز میں اُنہیں اپنایا ہے، اُن کی بنیادی رکنیت اور کنویری کو جس
طرح بحال کیا ہے اور سب سے بڑھ کر جناب پیر و مرشد صاحب کی آہ و بکاہ اور
ماتم کا اعلان ۔ اب بھی ہے کوئی نگار ایوارڈ کا دعویدار؟ |