مسئلہ کورم کا!چند تجاویز !

 دانشوراور لکھاری طبقے کا فرض ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں حکومت پنجاب کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں۔ اپنی تجاویز اور زورِ قلم سے ایسا ماحول بنائیں کہ حکومت اس عذاب سے نجات حاصل کر سکے۔ پنجاب اسمبلی میں کورم کی ٹوٹ پھوٹ حکومت کے لئے ایک مستقل مسئلہ کی صورت اختیار کر چکا ہے، کوئی دن ہوتا ہے کہ اجلاس سکون سے ہو سکے، کوئی عوام دشمن اپوزیشن رکن اٹھتا ہے اور کورم کی نشاندہی کردیتا ہے، گنتی ہوتی ہے، بات درست نکلتی ہے، گھنٹیاں بجتی ہیں، چیف وہپ، وزیراعلیٰ کا عملہ وغیرہ کورم پورا کرنے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں، ارکان کے منت ترلے ہوتے اور انہیں وزیراعلیٰ کے نام سے ڈرایا جاتا ہے، مگر اکثر یہی ہوا کہ ایک مرتبہ ٹوٹا ہوا کورم شیشہ دل کی طرح ٹوٹنے کے بعد جُڑ نہ سکا۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی ہوا، نتیجتاً اجلاس پیر تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ حکومتی ممبران میں سے بہت سے اجلاس میں آتے اور حاضری لگا کر چلتے بنتے ہیں، بس اس موقع پر انہیں چیف وہپ اور وزیراعلیٰ کے سٹاف سے آنکھ بچا کر نکلنا ہوتا ہے۔ کہا گیا کہ غیر حاضر ارکان کی تنخواہ میں کٹوتی ہوگی، کبھی وزیراعلیٰ کو شکایت لگانے کی دھمکی دی گئی، کبھی لالچ اور کبھی دھمکی سے کورم پورا کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کوئی ترکیب کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اس صورت حال میں پاکستان کے تمام صوبوں سے تیز اور متحرک وزیراعلیٰ کی گڈ گورننگ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ حکومت ایک طرف تو ’’مار نہیں پیار ‘‘ کی قائل ہے، دوسری طرف اپنے ارکان کو خشک انداز میں صرف دھمکیاں وغیرہ ہی دیتی اور زبردستی سے اجلاس میں حاضر کرنا چاہتی ہے۔

اگرچہ کرنی حکومت نے اپنی ہی مرضی ہے، کیونکہ یہی روایت چلی آرہی ہے، مگر کچھ تجاویز (دل کے خوش رکھنے کو) ہم بھی دینا چاہتے ہیں، اول ؛ ہر اجلاس میں معزز ارکان کے لئے پُر تکلف کھانے کا اہتمام کیا جائے، اگر اجلاس دن میں پہلے وقت شروع ہو جاتا ہے تو ’’ہائی ٹی‘‘ سے آغاز کیا جاسکتا ہے، پھر دوپہر لنچ کا وقفہ وغیر ہ ہو سکتا ہے۔ اگر اجلاس شام کو شروع ہو تو آغاز (سہ پہر کو) ’ہائی ٹی‘ اوراختتام وی آئی پی ڈنر پر ہونا چاہئے۔ دوم؛ اجلاس کا دورانیہ دو گھنٹے سے زیادہ نہ ہو، اگر ایسا کرنا مجبوری ہو جائے تو درمیان میں وقفہ کر کے تفریحی پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کسی گلو کار کو پرفارم کرنے کے لئے تکلیف دی جاسکتی ہے، کسی بڑے ایکٹر کو بلا کر ’ون مین شو‘ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی کبھار گانے کے ساتھ ماحول کو مزید رنگین بنانے کے لئے اداکاراؤں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اجلاس میں زیادہ حاضر باش ارکان کو سرکاری خرچ پر غیر ملکی دوروں پر بھجوانے کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے۔ اگر یہ دورے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے ساتھ ہو جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔

ان دعوتوں، دوروں اور انعام و اکرام کے علاوہ ایک اور بھی طریقہ ہے، جس سے کورم ہی نہیں پورا ہوگا بلکہ حاضری بھی مثالی ہوگی۔ اس نسخہ کوا ٓزمانے کے بعد شاید ہی کوئی معزز رکن ہو گا جو اجلاس میں نہیں آئے گا۔ وہ تیر بہ ہدف نسخہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب خود بنفسِ نفیس اسمبلی میں تشریف لائیں، اجلاس میں شرکت کریں، کارروائی کا خود جائزہ لیں، اپنے ارکان کی دلچسپیوں کا اندازہ لگائیں، اپنے ممبران کی صلاحیتوں کا حساب کریں، دیکھیں کہ وہ کس طرح عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہیں ۔ اجلاس میں سنجیدگی کا عالم کیا ہوتا ہے، کتنے لوگ سوال کرتے ہیں، اپوزیشن کے رویے کیا ہیں؟ ان کے سوالوں کی نوعیت کے لحاظ سے کس طرح کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ جائزہ لیں کہ ان کے معزز وزراء دیگر ارکان کے سوالوں کے کس طرح جواب دیتے ہیں، کتنے فیصد لوگوں کو مطمئن کرتے ہیں، جواب کتنا مکمل اور تسلی بخش ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گندم کا جواب چنا دیا جا رہا ہو، اور جواب دینے کی بجائے ایک دوسرے کو ٹھٹھہ مذاق کے ذریعے مصروف رکھا جارہا ہو؟ لیکن ہمیں یہ ڈر نہیں بلکہ یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ نہ وزیراعلیٰ اسمبلی میں آئیں گے، (کیونکہ انہیں اور بھی بہت سے اہم کام کرنے ہوتے ہیں) وزیراعلیٰ کے نہ آنے کی وجہ سے وزیر بھی نہیں آئیں گے اور ان دونوں لوگوں کے نہ آنے کی وجہ سے ان کے دیگر ارکان بھلا اسمبلی میں نہیں جائیں گے، تنخواہ اور مراعات تو مل ہی جاتی ہیں، عوام بغیر احتساب اور حساب کے ووٹ بھی دے ہی دیتے ہیں۔ ایسے میں اسمبلی میں جانے کا فائدہ؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428325 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.