سعودی عرب اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات کا آغاز۰۰۰

اس سال ایرانی عازمین حج و عمرہ فریضہ حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ جواد ظریف

مشرقِ وسطی کے حالات کو پرامن بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایران اور سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے درمیان بہتر اور خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔گذشتہ دو سال سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اس کی ایک وجہ منیٰ سانحہ کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی تھی تو دوسری وجہ 2؍ جنوری 2016کو سعودی عرب کے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کو سعودی عدالتی فیصلہ کے مطابق پھانسی دے دی گئی تھی اس کے خلاف ایران کے کئی شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا اور تہران میں ہونے والے مظاہرے میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے سعودی عرب کے سفارتخانے میں فرنیچر کو توڑکر عمارت کو آگ لگادی ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وہاں موجود عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے نیم فوجی دستوں کے رضاکاروں کے گروہ کو عمارت پر بم پھینکتے ہوئے دیکھا‘‘ ۔ شیخ نمر باقر النمر سمت 47افراد کو دہشت گردی کے مرتکب قرار دے کر موت کی سزا سنائی گئی تھی جس پر عملدرآمد ہوا۔ سعودی عرب کی حکومت نے تہران میں سفارت خانہ کو آگ لگانے اور توڑپھوڑ کئے جانے کے بعد سرکاری سطح پر ایران سے تحریری طور پر احتجاج کیا۔ اس پر ایران نے یہ جواب دیا کہ سنی مسلک کی سعودی عرب حکومت کی جانب سے شیخ نمر کو پھانسی دیا جانا اسے مہنگا پرے گا۔ ایمنسیٹی انٹرنیشنل نے بھی سعودی عرب میں دی جانے والی موت کی سزا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سیاسی بنیادوں پر دی جانے والی سزا قرار دیا۔ اس طرح ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگئی اور دونوں ممالک کے درمیان ایرانی عازمین حج و معتمرین کی، مملکت سعودی عرب کے مقدس شہروں میں آمد اور فریضہ حج و عمرہ اور زیارت مقدسہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے بات چیت کے مراحل ناکام ثابت ہوئے۔اصل میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بگاڑ اس وقت شدت اختیار کرنے لگی جب عرب ممالک میں بہار عرب کا آغاز ہوا۔ شام میں صدربشارالاسد کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا اور خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرگئی ۔ بشارالاسد کو ایران اور روسی فوجی ساز و سامان اور تعاون کرنے لگے ، بشارالاسد کی فوج کی جانب سے عام سنی مسلمانوں کا قتل عام ہونے لگا جس کے خلاف سعوی عرب اور دیگر عرب ممالک نے بشارالاسد کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کیا۔عراق اور شام میں داعش کی سرگرمیوں میں بھی شدت پیدا ہوئی ۔ عام شہریوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت کے خلاف سعودی عرب و دیگر ممالک نے بشارالاسدجیسے ظالم حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی مانگ کرنے لگے لیکن بشارالاسد ایران اور روس کی حمایت و تعاون سے آج بھی اقتدار پر فائز ہے بشارالاسد اپنی اور شیعہ ملیشیاء وروسی اور ایرانی فوج کے ذریعہ عام شہریوں کو اسی طرح نشانہ بنارہا ہے ۔یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے صدر یمن عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا اور صدر عبد ربہ کو یمن چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ صدرعبدربہ کی درخواست پر سعودی عرب و دیگر عرب ممالک نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا جس کے خلاف ایران نے آواز اٹھائی اور اندرونی طور پر یمن میں حوثی باغیوں کو فوجی سازو سامان اور ہتھیار پہنچائے ۔ عراق ، شام اور یمن میں ایران کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے تو دوسری جانب ایران نے یمن میں سعودی عرب کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طرح دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ تہران میں سعودی سفارت خانہ پر ایرانی شیعہ مظاہرین کی جانب سے حملہ کے بعد سعودی عرب نے اپنے سفارتی عملے کوایران سے واپس بلالیا تھا اس کے بعد ہی ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگئی تھی ۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ سالِ گذشتہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان عازمین حج و معتمرین کے لئے بات چیت کے مراحل بے معنی ثابت ہوئے جس کے بعد ایران نے اپنے عازمین کو سعودی عرب بھیجنے سے انکار کردیا اور سعودی عرب نے بھی بات چیت کے مراحل میں سخت رویہ اپنایا ہوا تھا۔ لیکن سعودی عرب اور ایران نے اس سال عازمین حج و عمرہ کے لئے بات چیت کا آغاز کیا اور یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران رواں سال اپنے شہریوں کو حج کیلئے بھیج سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا ایران، سعودی عرب سمیت تمام پڑوسی ممالک سے تعمیری تعلقات چاہتا ہے۔ ایرانی وفد نے 23؍فروری کو سعودی عرب میں حج میٹنگ میں شرکت کی۔ سعودی عرب سے اب تک مطلوبہ شرائط طے پا گئی ہیں۔

خطہ میں سعودی عرب، امریکہ اور دیگر مغربی ویوروپی ممالک سے کروڑوں ڈالرز کی لاگت کے فوجی سازو سامان اور ہتھیار خرید رہا ہے تو دوسری جانب ایران سے متعلق میزائل ٹکنالوجی میں ترقی کرنے کی خبریں عام ہورہی ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسن باقری کا کہناہیکہ ایران کے پاس جدید ترین اور ایکوریٹ میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے۔جنوب مغربی ایران میں ایک دفاعی نمائش سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر جنرل محمد حسن باقری نے کہا کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی میں غلطی کا امکان، دس میٹر سے بھی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسی میزائیل ٹیکنالوجی دنیا کے بہت کم ملکوں کے پاس ہے اور ایران ایسے میزائل تیار اور انہیں استعمال کرنے کی پوری توانائی رکھتا ہے۔چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر جنرل محمد حسن باقری نے واضح کیا کہ اس نمائش میں رکھے گئے آلات مکمل طور پر ایرانی ٹیکنالوجی سے تیار کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ایران کے نوجوان سائنسدان، خود اعتمادی کی دولت کے ساتھ ہر میدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔اس طرح ایران دنیا کو بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ اتنے برس اس پر پابندی رہنے کے باوجود وہ ترقی کے منازل طے کر رتارہا ہے۔ خطے میں دہشت گردانہ ماحول کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت کو شدید نقصان اٹھانا پڑرہاہے، کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے خریدنے پڑرہے ہیں جس کی وجہ سے دو سال سے سعودی عرب اپنے بجٹ کو خسارہ میں بتارہا ہے۔

یمن میں حوثی باغیوں کا مسجد پر حملہ ۰۰۰
یمن میں عبد ربہ منصور ہادی کو جس طرح حوثی شیعہ باغیوں نے ملک چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا اور پھر سعودی عرب و عرب ممالک کی جانب سے فوجی کارروائی کے بعد عبد ربہ منصور ہادی اپنے وطن یمن واپس ہوسکے۔ یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے حکومت کے خلاف بغاوت اور پھر مساجد اور دیگر مقامات پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ جمعہ یعنی 17؍ مارچ کو حوثی باغیوں نے یمن کے صوبے مآرب میں ایک فوجی اڈے پر واقع ایک مسجد پر میزائل حملہ کرکے اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ اگر حوثی باغی مسلمان ہوتے تو اس طرح کا حملہ نہیں کرتے۔ یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی نے اس حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد پر حوثی باغیوں کا میزائل حملہ ایک بدنما داغ اور دہشت گردی کا حقیقی چہرہ ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر منصور ہادی نے ایک بیان میں کہا کہ حوثی ملیشیا کی دہشت گردی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ہے اور حوثی جنگجو دہشت گردی کے تمام پہلوؤں کے نمائندہ ہیں۔مآرب میں نماز جمعہ کے وقت حوثی باغیوں کے میزائل حملے میں فوجیوں سمیت چونتیس افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔یمن کے وقف اور دعوت وارشاد کے وزیر احمد عطیہ نے کہا کہ مساجد کو حملوں میں نشانہ بنایا جانا ایک جنگی جرم ہے اور حوثی ملیشیا کے پاس اس حملے کا کوئی جواز نہیں ہے۔حوثیوں کے زیرانتظام خبررساں ایجنسی نے اعتراف کیا کہ یہ حملہ حوثی باغیوں ہی نے کیا تھا اور انھوں نے بھاری توپ خانے سے مسجد کو نشانہ بنایا ہے اس سے قبل بھی حوثی شیعہ باغیوں نے یمن میں ایک مسجد پر اس طرح کا تباہ کن میزائل حملہ کیا ہے نہیں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی مختلف شہروں میں مساجد کو اپنے حملوں میں نشانہ بنا چکے ہیں اور ان کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔

اقوام متحدہ نے اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دے دیا
اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر ظلم و زیادتی کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہتا ہے ۔ اسرائیل کی ظلم و زیادتی کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی گئی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی اسرائیل کے خلاف بیان دیا ۔ گذشتہ دنوں اقوام متحدہ نے اسرئیل کو نسل پرست ریاست قرار دے ہے۔بیروت میں اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن مغربی ایشیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پرنسلی تعصب مسلط کر رکھا ہے۔دوسری جانب رپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرنے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رکھے ہیں۔واضح رہے کہ رپورٹ ادارے کے18ممالک کی درخواست پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد بھی اسرائیلی فوج اپنی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں گزشتہ روز جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں ایک 16سالہ فلسطینی بچہ شہید اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔فلسطینی وزارت صحت کیجانب سے جاری کردہ ایک بیان میں شہید فلسطینی لڑکے کی شناخت مراد یوسف ابو غازی کے نام سے کی گئی ہے جس کی عمر 16 سال بتائی گئی ہے ۔ وزارت صحت کے مطابق مراد ابو غازی کی شہادت سینے میں گولی لگنے کے نتیجے میں ہوئی۔غازی کو شدید زخمی ہونے کے بعد العروب پناہ گزین کیمپ کے ایک مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق شدید زخمی فلسطینی لڑکے کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا تھا مگر وہ زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔اسرائیلی فوج کی ریاستی دشت گردی کے نتیجے میں متعدد دوسرے شہری بھی زخمی ہوئے ہیں جنہیں علاج کیلئے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔اس طرح عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف کوئی کچھ کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔

فاشزم یوروپ کی سڑکوں پر صدرترکی طیب اردغان
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے ہالینڈ اور یورپی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاشزم یورپ کی سڑکوں پر دوڑ رہا ہے، ان کا تہذیب اور ماڈرن دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ان لوگوں نے بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ یورپ میں فاشزم اب بھی موجود ہے، یورپ میں یہودیوں کے ساتھ ماضی کی طرح کا سلوک ہورہا ہے، یورپ اپنے خوف کے ہاتھوں خود ہی پستی میں گر رہا ہے۔ یورپ میں ترکوفوبیا،اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ یورپ میں پناہ حاصل کرنے والے تارکین وطن سے بھی یورپ والے خوفزدہ ہیں، یہ لوگ ہر اس چیز سے خوفزدہ ہوتے ہیں جوان سے تعلق نہ رکھے۔ ہالینڈ کی جانب سے ترک وزرا کو ہالینڈ میں ترک ریلی سے خطاب سے روکنے پر ترکی اور ہالینڈ میں کشیدگی چل رہی ہے اور اس میں مزید اضافہ بتایا جارہا ہے۔

خواتین کیا پہنیں اورکیانہ پہنیں یہ بتانا حکومت کا کام نہیں
دنیا کے بعض ممالک میں خصوصاً مغربی و یوروپی ممالک میں اسلام کے خلاف ہر قسم کا پروپکنڈا کیا جارہا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو دوسری جانب مسلم خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔ اس سلسلہ میں یوروپی یونین کے ایک عدالتی فیصلہ پر ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے یورپی یونین عدالت کے حجاب پر پابندی سے متعلق فیصلے پرکہا کہ یہ حکومت کا کام نہیں ہے اور نہ ہی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ انہیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں۔اپنے بیان میں برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خواتین کیا پہنیں گی اس بات کافیصلہ کرنا حکومت کا نہیں بلکہ خواتین کا حق ہے۔ مسلم خواتین اسٹاف کا حجاب پہننا یورپی کمپنی مالکان کی مرضی سے مشروط کرنے کے یورپی یونین عدالت کے فیصلے پر عالمی اداروں سمیت دنیا بھر میں تنقید کی جارہی ہے۔

Rasheed Junaid
About the Author: Rasheed Junaid Read More Articles by Rasheed Junaid: 358 Articles with 255973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.