23مارچ ہماری قومی تاریخ میں غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے۔
اس دن برصغیر کے مسلمانوں نے اقبال پارک لاہور میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن
کا پیمان باندھ کر اس کے حصول کی باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔اس عہد کو
تاریخ نے ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا اور تحریک پاکستان کا یہ نقطہ
عروج کہلایا۔ ہندو لیڈروں کوہرگز گوارا نہ تھا کہ مسلمان ایک آزاد اور خود
مختار وطن میں آزادی کی سانسیں لے سکیں۔ قرارداد پاکستان کی منظوری نے ان
کی نیندیں اڑا دیں۔ ان کے سینوں پر سانپ لوٹنا شروع ہوگئے تھے۔انہوں نے بھی
اعلان کردیا کہ دھرتی ماتا کے ٹکڑے نہ ہونے دیں گے۔ مگر قدرت پاکستان کو
دنیا کے نقشے پر لانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ مسلمانوں کسی سازش، کسی رکاوٹ
اور کسی خطرے کو خاطر میں لائے بغیر آزادی کی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں اس منزل تک لے جانے کے لیے قائد اعظم محمد علی
جناحؒ کی جیسی پرجوش و پرخلوص قیادت میسر آئی۔ان کے بلا جیسے اعتماد کے
سامنے انگریزوں اور ہندوؤں کی تمام سازشیں دم توڑگئیں اور مسلمان ’’لے کے
رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے منزل کی جانب بڑھتے
چلے گئے۔ قائد اعظم ؒنے مسلمانوں کو ’’اتحاد، تنظیم اور ڈسپلن‘‘ کی وہ شمع
عطا کی جس کی روشنی میں وہ آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوئے۔ فرمایا:
’’ مسلمانوں کو اب یہ معلوم ہوتا چاہئے کہ پاکستان ہماری طاقت سے حاصل
ہوگااور وہ طاقت ہمارا اتحاد و تنظیم ڈسپلن اور کریکٹر ہے۔ ان خصائص کی
نشونما اور حصول کسی قوم کو صحت مند اور مضبوط بناتا ہے۔ کوئی قوم اس وقت
تک آزاد نہیں ہوسکتی یااپنی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک اس کی
تنظیم میں انتشار ہو اس کا ڈسلپن کمزور اور اس کے عوام پست ہمت ہوں۔ لگاتار
محنت اور قربانی کے لئے آمادگی کے بغیر آج زندگی اور موت کی جدوجہد میں
کامیابی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مضبوط تنظیم اور ڈسپلن کے
بغیرہماری قوت مدافعت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے اگر خدانخواستہ کبھی ایسا
ہوا تو اس نیم براعظم میں دس کروڑ مسلمانوں کے لئے امید کی کوئی کرن باقی
نہیں رہ جاتی۔‘‘
’’ آزادی کے معنی ایک عظیم ذمہ داری ہیں۔ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے
میں مسلمان نوجوانوں کو خاص طور پر دعوت دیتا ہوں کہ وہ یقین کامل اور
شجاعت سے آگے بڑھیں اور اس ذمہ داری کے اہل بنیں۔تمہارا ماٹو ہے: اتحاد ،
یقین اور ڈسپلن۔‘‘ (ہفتہ وار سعادت کے نام پیغام22جون 1945)
پاکستان نے جب ترقی کی منزل حاصل کی تو شدید بے سروسامانی کی کیفیت
تھی۔کوئی ادارہ فعال اور نہ کوئی سسٹم رواں تھا۔اس عجیب بے ترتیبی اور
نامساعد حالات کے پس میں ہندو و انگریز رہنماؤں سمیت مختلف عالمی مبصرین کا
یہی خیال تھا کہ یہ نوخیز مملکت شاید چند سال ہی اپنا آزادانہ وجود برقرار
رکھ سکے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ یہ کٹا پھٹا پاکستان زیادہ دیر تک بھارت سے
الگ نہیں رہ سکے چنانچہ تقسیم ہند کے فوراََ بعد گاندھی نے ایک ’’پرارتھنا
سبھا ‘‘ میں کہا کہ ’’ مسلم لیگ جلد ہی بھارت میں واپس آنے کے لئے کہے گی‘‘۔
مولانا آزاد کے بقول ( ایک اور ہندو لیڈر) آنجہانی پٹیل نے اس یقین کا
اظہار کیا تھا کہ ’’ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا، اور مسلم
لیگ کو پاکستان کو سنبھالتے وقت ایسا وقت ملے گا جو وہ کبھی نہیں بھلا سکے
گی۔‘‘ ہندؤوں کے ایک کے ایک سیاسی مفکر آنجہانی وی پی مینن نے قیام پاکستان
کے فوراََ بعد بڑے وثوق سے کہا تھا کہ ’’ ہمارا ملک دراصل متحد ہونے کے لئے
تقسیم ہوا ہے۔‘‘ لیکن قائد اعظم کی بصیرت اور مسلمانوں کے جوش و جذبہ نے ان
کے تمام خیالات کو محض قیاس آرائیاں ثابت کردیا۔
ہندؤوں کے انہی انتقامی عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم
نے یکم نومبر 1947ء کو ہندوستان میں انگریزوں کے نمائندہ گورنر ماؤنٹ بیٹن
سے واشگاف انداز میں کہا تھا کہ ’’ مجھے یہ بالکل صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت
پاکستان کی پیدائش ہی پر اس کا گلا دبا کر اسے موت کی نیند سلا دینا چاہتا
ہے۔‘‘ قائد اعظم کا یہ بیان اس وقت سچ ثابت ہوا جب بٹوارے کے وقت پاکستان
کے حصے میں محض ایک زمین کے ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہ آیا۔اسلحہ نہ روپیہ،
اثاثہ نہ سازوسامان لیکن ان حالات میں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا اصول
پاکستان کو استحکام بخشتا گیا۔آزادی کے روز قائد اعظم نے قوم سے خطاب میں
اسی سنہرے اصول کو استحکام پاکستان کارازپاکستان کے باسیوں کا نصب العین
اور کامیابی کی کنجی بتایا:
’’ اگرچہ افق پر تاریکی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، لیکن میں آپ سے اپیل کرتا
ہوں کہ اپنے میں تحریک پاکستان جیسا مومنانہ جذبہ پیدا کریں۔ حوصلے اور
امید کے ساتھ اپنا کام کئے جائیں۔ اسلام کی تاریخ مشکلات اور پریشانیوں کے
مقابلے میں عزم و ہمت ، ایثار اور غیرت مندی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ
بھی مشکلوں اور رکاوٹوں کے باوجودآگے بڑھتے جائیں۔ ایک ایسی متحدہ قوم جو
عظیم ارادے کی مالک ہو، عظیم اسلامی تہذیب و تاریخ کی وارث ہو، اسے بدترین
حالات میں کسی بھی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جب رب کریم نے ہمیں
آزادی کا نشان ،پاکستان عطا فرمایا، وہ اس کے دفاع، سلامتی، استحکام اور
خوشحالی کا سامان بھی پیدا فرمائے گا۔ اب آپ کا فرض ہے کہ آپ جہاں بھی ہیں،
جو کچھ بھی ہیں، کام ، کام، کام اور دیانتداری سے اپنا کام کئے جائیں اور
اپنا یہ نصب العین کبھی نہ بھولیں: اتحاد، ایمان اور تنظیم۔ انشاء اﷲ
کامیابی پاکستان اور اہل پاکستان کا مقدر ہے۔‘‘
آزادی کے بعد پاکستان نے جہاں بہت ترقی کی وہاں کئی امتحانوں سے دوچار ہوا۔
قیام پاکستان کے وقت جب ہمارے پاس پیپر پن بھی نہیں تھے آج پاکستان جدید
ترین میزائلوں سے لیس ہے۔ آج پاکستان اسلامی دنیا کی واحد اور دنیا کی
ساتویں ایٹمی طاقت کے طور پرتسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم دفاعی خود کفالت کی منزل
حاصل کرچکے ہیں۔ خطے میں بھارت کے ساتھ دفاعی توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں
اور یہ بات انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ پوری قوم دفاع پاکستان پر کسی
قسم کو کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف افسوس ناک پہلو یہ ہے
کہ23مارچ 1940ء کو ہم نے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کرجس نصب العین کا
اعلان کیا تھا، آج دہشت گردی، فرقہ واریت اورصوبائیت کے ناسور اس کے درپے
ہیں۔ ہم لسانی الجھنوں کا شکار ہوچکے ہیں۔کچھ اپنے ہی لوگ قومی یکجہتی میں
چھید ڈال رہے ہیں۔دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ وہ ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے
کے لئے معصوم ذہنوں میں زہر گھول کر انہیں اپنے بھائیوں سے ہی دست وگریبان
ہونے کاخواب دیکھ رہا ہے۔ وہ ہماری حرمت کو پامال ، ہماری آزادی کو یرغمال
بنا لینا چاہتا ہے۔آج 23مارچ یوم پاکستان کا دن ہم سے اس بات کا تقاضا
کررہاہے کہ ہم غیروں کی سازشوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔ آپس کے اختلافات بھلا
دیں اور ملک کی سا لمیت اور تحفظ کوہرچیز پر ترجیح دیں کیونکہ یہ ہم سب کا
پاکستان ہے ۔ (ختم شد)
|