یہ ایک عام فہم سی بات ہوگئی ہے کہ کسی اہم ایشو معاملے
وغیرہ پر چاہے حکومتی ہو سرکاری محکمہ جات ہوں سیاسی جماعتوں سمیت سب ہی
شعبہ جات میں آسان حل سمجھا جاتا ہے کہ جس کام کو نہ کرنا ہو یا وقت گزار
کر مٹی ڈال لینی ہو تو کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں اور اوپر سے نیچے تک خاص سے
عام تک سمجھ جاتے ہیں کہ اب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ مگر آزاد
کشمیر میں دو کمیٹیوں نے اس صورتحال کے برعکس ہل چل مچائی ہوئی ہے۔ ایک
کمیٹی وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے تشکیل دی تھی جو آزاد کشمیر کے
عبوری آئین میں اصلاحات سے متعلق ہے جس نے آئین میں ترامیم کیلئے سفارشات
کو فائنل کرنا ہے ۔ تاکہ آزاد حکومت پر بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے
حوالے سے نمایاں کردار اور خود اپنے فیصلوں کے سلسلے میں فعالیت سمیت کشمیر
کونسل و آزاد حکومت کے اختیارات و کردار کو باوقار متوازن بنانا ہے۔ جسمیں
قومی اقتصادی کونسل سمیت فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی اپنے وسائل پر
اختیار و حقوق کا حصول بھی شامل ہے ۔ یہ کمیٹی رواں عرصے میں ہی وجود میں
آئی جس کا پہلا اجلاس اسلام آباد مرکزی وزیر حکومت پاکستان برائے قانون
زاہد حامد کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز ، وزیر
امور کشمیر برجیس طاہر اور وزیر اعظم فاروق حیدر ، وزیر قانون راجہ نثار
سمیت دونوں جانب کے متعلقہ بیوروکریٹس شریک ہوئے۔ وزیر اعظم نے کمیٹی کو
آئینی اصلاحات کے حوالے سے تمام تر ایشوز اس کے پہلوﺅں سے آگاہ کیا اور طہ
پایا کہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس اپریل کے پہلے ہفتہ میں ہوگا۔ یعنی وہ بڑا
کام جس کے حوالے سے خطہ میں برسراقتداررہنے والے حکمران اپنی جبلت کے
ہاتھوں سمجھتے تھے کہ کہیں ہمارا اقتدار ہی نہ چلا جائے۔ اور خود ساخطہ خوف
یا پھر مفادات جیسی مصلحتوں مجبوریوں کمزوریوں کی زنجیروں میں جکڑے اجتمائی
وقار مفادات بھلائی کی شاہراہ سے چلنے سے گریزاں اسلام آباد مظفرآبادکو
حقیقتوں کے ادراک سے دور رکھتے ہیں ۔ مگر اب یہ بڑا کام ہونے جارہا ہے
فاروق حیدر حکومت نے اس ضمن میں خطہ کی بڑی جماعتوں کے قائدین چوہدری
عبدالمجید، بیرسٹر سلطان محمود کے علاوہ سردار خالد ابراہیم ، جسٹس ریٹائرڈ
عبدالمجید ملک سے ملاقاتیں کر کے مشاورت بھی کی ہے جس کا تسلسل جاری ہے۔
فاروق حیدر حکومت ان بڑے مقاصد کے حصول کیلئے اسی طرح تسلسل سے کام کرتی
رہی تو یقینا سرزمین پاکستان و آزاد خطہ کی تاریخ میں سنہری بات رقم کر
جائے گی۔ جس کے سبھی کردار معتبر و محترم کہلائیں گے ، اس کمیٹی نے تو ابھی
اپنا کام شروع کیا ہے جس کے نتائج کے حصول میں مزید خاص وقت اور آئندہ
حالات اہمیت کے حامل ہوں گے۔ تاہم پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے
رواں سال کے آغاز میں پی پی آزاد کشمیر کی مرکزی تنظیم سازی کیلئے کمیٹی
تشکیل دی گئی تھی ، جس نے تمام اضلاع میں ورکرز کنونشن منعقد کر کے کارکنا
کی رائے حاصل کی ۔ مرکزی قیادت کے اس سے آگاہ کیا اور بالآخر جمعرات 23مارچ
کو زرداری ہاﺅس کراچی میں بلاول بھٹو کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں
سفارشات کے ختمی شکل دی گئی اور 24ءمارچ کو بلاول بھٹو کی منظوری سے نئی
تنظیم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس کےمطابق پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے صدر
چوہدری لطیف اکبر، سینئر نائب صدر چوہدری پرویز اشرف، جنرل سیکرٹری راجہ
فیصل ممتاز راٹھور، سیکرٹری اطلاعات سردار جاوید ایوب، ڈپٹی سیکرٹری
اطلاعات شاہین کوثر ڈار اور پیپلزیوتھ آرگنائزیشن کا چیئرمین سردار
ضیاءالقمر کو بنایا گیا ہے۔ نئی تنظیم خالصتاََ بھٹو مائنڈ سے اور عوام میں
جڑیں رکھنے والی سینئر و یوتھ کے زبر دست امتزاج سے ہم آہنگ ٹیم پر مشتمل
ہے ۔ یعنی بلاول بھٹو نے سندھ پنجا ب کے بعد آزاد کشمیر میں بھی کامریڈز کو
قیادت سونپ کر جیالوں کے دلوں پر اپنی مہر ثبت کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے
اندر میلہ لوٹنے کی ہیٹرک مکمل کر لی ہے۔ جسکے مخالفین متعرف ہیں۔ چوہدری
لطیف اکبر جو خطہ کی سیاسی ضروریات تقاضو ں کے تناظرمیں کشمیر کاز سے لے کر
تاریخ ثقافت اور عوامی مزاج کارکنوں کے جذبات پوری طرح سمجھتے ہیں اور جملہ
امور پر دسترس رکھنے والے سیاستدان ہیںنے پارٹی کے عہدے ہوں ، قائد خزب
اختلاف کا منصب ہو یا صدر ریاست کا انتخاب ہو ہمیشہ ایثار کا مظاہرہ کرتے
ہوئے قیادت کے فیصلوں کو لبیک کہا اور بالآخر ان کو پارٹی قیادت کا اعزاز
بھی مل گیا ہے۔ اب کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح سابق وزیر چوہدری
عبدالمجید ، سابق صدر ریاست سردار یعقوب خان، اپوزیشن لیڈر چوہدری یٰسین
سمیت ، سینئر ز رہنماﺅں کو ان کے احترم و عزت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر
رکھتے ہوئے پرانے جیالوں اور نئے لوگوں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور جس طرح
کے بلاول بھٹو نے مثالی مرکزی تنظیم تشکیل دے کر ان پر اعتماد کا اظہار کیا
ہے وہ اسی طرح مزید تنظیموں کو تشکیل دیتے ہوئے اپنے انتخاب کو درست ثابت
کرتے ہیں یا نہیں ۔ یہ بھی دلچسپ صورتحال بنی ہے کہ آزاد کشمیر کی برسر
اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کے صدر بھی خود وزیر اعظم فاروق حیدر ہیں جن کا
تعلق چوہدری لطیف اکبر کی طرح مظفرآباد سے ہے اور دونوں پڑوسی بھی رہے ہیں۔
اس طرح اب حکومت اور اپوزیشن کے مرکزی کردار مظفرآباد ہی ہوں گے۔ اور یہ
دونوں لیڈر کس طرح ایک دوسرے کے برداشت کرتے ہیں اجتماعی بھلائی کے بڑے
مقاصد کی تکمیل میں کریڈٹ ڈس کریڈٹ کے جنجال میں الجھے بغیر قومی لیڈر شپ
میں اپنا شمار انصاف میرٹ پر مبنی فیصلہ ثابت کرتے ہیں۔ یہ ان کا کمال ہو
گا اور کمال تو باکمال لوگ ہی کرتے ہیں خطہ کی وزارت عظمیٰ سے لیکر
پیپلزپارٹی کی صدارت تک کے فیصلوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ مال دولت محل
کوٹھیاں ، عالیشان گاڑیاں ، نمود و نمائش ، چاپلوسی تعصبات کوئی حیثیت نہیں
رکھتے بلکہ جرات صلاحیت ، محنت ریاضت، کمٹمنٹ کا ہی اصل مقام ہے اور جن کو
یہ مقام ملا وہ اپنے قول فعل سے اسے درست ثابت کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو
پھر بت تو مٹی کا ڈھیر ہی بننے ہوتے ہیں۔ مگر کردار زندہ رہتا ہے جیسا کہ
مسلم لیگ کے نائب صدر ، سابق وزیر و ممبر اسمبلی راجہ عبدالقویم خان نے
اپنے انتخابی حریف چوہدری لطیف اکبر کو صدر پیپلزپارٹی بننے پر ٹیلی فون کر
کے مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوشی و مسرت کے جذبات کا اظہار کیا ، اس سے پہلے
جب لطیف اکبر شدید بیماری کے دوران زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھے تو
راجہ عبدالقیوم خان اپنے گھر قرآن خوانی کر کے ان کی صحتیابی کیلئے دعائیہ
تقریب کا انعقاد کیا تھا اور انتخابی عذاداری واپس کر کے سیاسی رواداری کی
بہترین مثال قائم کی ، جو درحقیقت کھاوڑہ کے عوام کیلئے بھی اعزاز ہے ۔ |