جمہوریت کو اس لیے بہترین نظامِ حکومت کہا جاتا ہے کہ اس
میں عوام اپنے لیے قیادت کا انتخاب خود کرتے ہیں۔اگر قیادت ان کی توقعات پر
پورا نہ اترے تو وہ اسے ایک مخصوص عرصے کے بعد تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔اس
طریقہ کار سے طرزِ حکمرانی میں بہتری آتی ہے۔اس طریقہ سے حکمرانوں کا
بہترین احتساب بھی ہوتاہے۔جمہوری اور مہذب ملکوں میں بدعنوان اور نااہل
حکمرانوں کے لیے کوئی بھی فرد نرم گوشہ نہیں رکھتا ہے۔کرپٹ حکمرانوں اور
رہنماؤں کو سخت ترین احتساب کے عمل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔قانون ایسے لوگوں
کے ساتھ جو بھی سلوک کرے وہ اپنی جگہ پر لیکن عوام میں وہ ناپسندیدگی اور
نفرت کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔وہاں ایسے لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا
ہے اور انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔جمہوری اور مہذب ملکوں میں عوام کی یہ روایت
انھیں ترقی کی جانب گامزن رکھتی ہے اور فلاحی ریاست کے قیام میں ان کی
معاون ثابت ہوتی ہے۔
اگر ہم پاکستانی معاشرہ میں جمہوری نظام کا مطالعہ کریں تو یہاں صورتِ حال
مختلف ہے۔ضیا الحق کے دورِ حکومت کے اختتام سے لے کر اب تک اس ملک میں
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باری باری حکومت رہی ہے۔ اگرچہ کہ مشرف دور
میں مسلم لیگ ق کو بھی اقتدار ملامگر یہ جماعت بھی مسلم لیگ ن کی ہی بی ٹیم
تھی ۔ن لیگ سے ہی لوگ ق لیگ میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے شامل ہوئے اور
مشرف کے جانے کے بعد وہ پھر واپس ن لیگ میں لوٹ گے اور صاحبِ تخت و تاج بن
گے۔ان دو بڑی جماعتوں نے مفاہمت کے نام پر پاکستانی عوام کو خوب بے وقوف
بنایا ہے۔یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام بھی لگاتی ہیں
مگر ایک دوسرے کا احتساب بھی نہیں کرتی ہیں۔رینٹل پاور کیس، ریمنڈ ڈیوس کا
فرار،میمو گیٹ سکینڈل،ابیٹ آباد کمیشن کی رپورٹ اور سرکاری اداروں میں من
پسند اور نااہل لوگوں کی تقرریاں پیپلز پارٹی کے دور کے سیاہ کارنامے
ہیں۔اس دور میں امریکیوں کو دیے گئے ویزوں کا شور اب بلند ہورہا ہے۔اصغر
خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اب تک کسی نے عمل درآمد نہیں کیا
ہے۔پانامہ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو مگر دورانِ سماعت ن لیگ کی جو درگت بنی
وہ سب کے سامنے ہے۔ ن لیگ کی خود ساختہ سچی اور پرہیزگار قیادت ٹی وی
مذاکروں میں یہ چیلنج کرتی تھی کہ ان کے بیرونِ ملک کوئی اثاثے نہیں ہیں
مگر پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ان کے اس قدر اثاثے سامنے آئے کہ قارون
بھی ان سے شرما جائے۔ مہذب اور جمہوری ملکوں میں جھوٹ کو نا قابلِ معافی
جرم سمجھا جاتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے پانامہ سکینڈل کے دفاع
میں اپنی کی جانے والی تقریروں میں جو تضاد دیکھایا ہے اس کے باوجود ان کا
قوم کے سر پر سوار رہنا پاکستان کے جمہوری نظام پر ایک بڑا سوال ہے۔ان
دونوں جماعتوں کے ادوار میں عوام کا معیارِ زندگی بلند ہونے کی بجائے گرا
ہے۔لوگوں کی تکالیف اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبے
زوال کا شکار ہیں۔لوگوں کی اکثریت پینے کے لیے صاف پانی کی سہولت سے محروم
ہے۔تھر میں بچے غذائی قلت سے مر رہے ہیں۔پنجاب میں مریض ہسپتال کے فرش پر
ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔ لوگ انصاف سے محروم ہیں۔ ایان علی کو ایر
پورٹ سے گرفتار کرنے والے انسپکٹر کی بیوہ اپنے مقتول شوہر کے قاتل کو تلاش
کررہی ہے جبکہ ایان علی ملک سے باہر پانچ گانوں کی ماڈلنگ کا معاوضہ ایک
کروڑروپے طے کرنے کے معاہدے پر دستخط کر رہی ہے۔ پراسیکیوشن میں سقم ہونے
کی وجہ سے امیر اور غریب کے لیے یہاں الگ الگ انصاف ہے۔بیرونی دنیا میں
پاکستان کی عزت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔آج کل پاکستان کے سیاسی میدان میں
جو درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے وہ مصنوعی ہے۔ سابق صدرزرداری جس طرح سے گرج رہے
ہیں اور اب اس کے جواب میں نواز شریف جس طرح بڑھکیں لگا رہے ہیں وہ سب اگلے
ہونے والے انتخابات کی تیاری ہے۔دونوں کی بلند ہوتی ہوئی آوازیں عوام کو
اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے۔وہ ایک بار پھر پاکستانی قوم کو بیوقوف
بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔آصف زرداری اور نواز شریف اس نظام کی چکی کے دو
ایسے پاٹ ہیں جن کے درمیان یہ قوم پس رہی ہے۔
پاکستانی قوم انتخابات میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں سے کسی ایک کا انتخاب
کرتی رہی ہے اور یہ جماعتیں ان کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہیں ۔عام طور پر
یہی تصور کیا جاتارہا ہے کہ پاکستانیوں کے پاس ان دو جماعتوں کے علاوہ کوئی
اور تیسرا آپشن موجود نہیں ہے ۔باقی ملک کے لوگوں کو کے پی کے کے عوام سے
سبق سیکھنا چاہیے وہ ہر انتخابات میں اپنے لیے ایک نئی قیادت سامنے لاتے
ہیں۔ جو کارکردگی نہیں دیکھا تا اسے مسترد کر دیتے ہیں۔کے پی کے کے لوگوں
نے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کو اقتدار میں لا کر پاکستانیوں کے لیے
آسانی پیدا کر دی ہے۔اس صوبے میں پولیس کا نظام بہتر ہوا ہے۔تعلیم اور صحت
کے شعبوں میں بہتری آئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صرف کے پی کے
جنگلات کے رقبے میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے جیسے عالمی سطح پر سراہا گیا
ہے۔عمران خان کی ذات اور طرزِ سیاست پر اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر اس بات سے
انکار ممکن نہیں کہ اس نے کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف بھر پور آواز بلند
کی ہے اور قوم کے اندر یہ شعور پیدا کیا ہے کہ وہ اس ناسور کے خلاف ضرور
اٹھیں۔پاکستانیوں کو اب خود تبدیل ہونا ہو گا۔اک نیا تجربہ کرنا ہوگا ۔ووٹ
کے ذریعے اپنی لیے مختلف قیادت کو چننا ہو گا۔باریاں لینے والوں کو ایک طرف
کرنا ہو گا ۔یہ ممکن ہے کہ نیا تجربہ اس ملک اور قوم کی تقدیر بدل دے۔دوسری
صورت میں چکی کے دو پاٹوں میں پسنے کے لیے پھر سے پاکستانی قوم اپنے آپ کو
تازہ دم کر لے۔
|