کہتے ہیں کسی زمانے میں کسی ملک
میں ایک بادشاہ گزرا جو جادوگروں کے بہت خلاف تھا اس کے نظام عدل کا بڑا
چرچا تھا اور وہ بڑے سے بڑے مجرم کو بخش دیتا مگر جادوگر کے لیے کوئی معافی
نہ تھی – اسکے دربار میں ایک حکیم، چند بہادر وزیر ، مخصوص غلام اور اسکا
بیٹا جو ولی عہد تھا کے علاوہ تھوڑے بہت دانشور لوگ تھے. ملک میں جادو پہ
پابندی تھی اور اسکی ریاست بڑی کامیابی سے پڑوسی ریاستوں کے مقابل مشہور
تصور کی جاتی تھی. بادشاہ کے دشمن اور دوست بادشاہ کے مزاج سے واقف تھے اور
کوئی بھی اس ملک میں جادو کی طاقت سے کبھی کوئی غلط کام سر انجام نہ دے
پایا. اس ملک کے تمام جادوگر اس ملک سے فرار ہو گئے یا پھر انہوں نے یہ
پیشہ ترک کر دیا.
تمام شیطانی طاقتیں اس کی ریاست پہ حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرتی رہتیں
مگر اس کا شاہی حکیم جو خود کسی زمانے میں ایک منجھا ہوا جادوگر تھا ہمیشہ
بادشاہ کی ریاست اور ریاستی امن کے لیے ان شیطانی طاقتوں کے خلاف نبرد آزما
رہتا. جب ملک میں جادو پہ پابندی لگی تو حکیم نے کافی ساری شیطانی طاقتوں
کو قبضے میں کر لیا اور ایک غار میں انہیں بند کر دیا. کسی کو اس غار کی
طرف جانے کی اجازت نہ تھی اور جب کبھی ضرورت محسوس ہوتی تو بادشاہ کے حکم
سے حکیم اور اس کا بیٹا اس غار میں جاتے اور ان شیطانی طاقتوں سے اس شرط پہ
مختلف کام لیتے کہ بدلے میں ان کی سزا میں آسانی کی جائے گی. حکیم کا بیٹا
بھی حکیم کی طرح جادو کی طاقت سے آشنا تھا اور اسے یہ ورثہ میں ملی تھی.
ایک روز حکیم کا بیٹا اپنے اس علم کو پرکھنے کے لیے کسی جنگل میں اکیلا کچھ
کرتب دیکھا رہا تھا اس کا علم محدود تھا جبکہ غار میں بند طاقتور شیطانی
مخلوقات اپنی اسیری کے باوجود اس کے ذھن پر اثر انداز ہو گئی اور اسے اپنی
جانب راغب کر لیا. وہ غار کے دروازے پر پہنچا اور اس نے غار میں قید ایک
بہت بڑے جن کی غلطی سے آزاد کر دیا. کافی دن گزرے ایک روز اس نے حکیم کے
سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی جن آزاد ہو
چکا تھا اور اس نے اتنے عرصے میں اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ وہ اب مکمل
طور پہ بادشاہ کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی اہلیت رکھتا تھا. اس کا
پہلا ہدف شاہی محل اور بادشاہ تھے. جن نے شاہی محل میں ایک کہرام مچا دیا
ہر کوئی بےسکونی میں تھا. شاہی دربان، شہزادہ اور بادشاہ کی ہائی کمان میں
سب پریشان تھے. شاہی خزانے سے سارا سونا غائب ہو گیا، شاہی باورچی خانہ ہر
روز ایک جوہڑ کا منظر پیش کرتا، بادشاہ کے ذاتی سامان کا کوئی پتہ نہ چلتا
کہ کون غائب کر دیتا ہے. سلطنت کا کاروبار رک گیا. بادشاہ مضبوط اعصاب کا
مالک تھا مگر اسقدر بے اعتدالی اس کے لیے عذاب جان بن گئی اس نے شاہی اجلاس
بلوایا اور تمام وزیروں سے مشورہ کیا. شاہی حکیم نے اس بات کا عندیہ دیا کہ
یہ ایک شیطانی طاقت ہے اور اسکو قابو میں کرنا ضروری ہے.
بادشاہ نے شاہی حکیم کو اس کام کی ذمے داری سونپی اور محل میں ہونے والی ہر
واردات کی عوام میں ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا. جب یہ سب ہو رہا تھا تو وہ جن
بھی اس کاروائی کو سن رہا تھا. جن نے سوچا کہ حکیم کا زندہ رہنا اسکی
سالمیت کے لیے خطرہ ہے لہٰذا اس نے حکیم کو اپنے قابو میں لانے کے لیے اسکے
جسم میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا. ایک روز وہ یہ کرنے میں کامیاب ہو گیا.
حکیم کے بیٹے نے اپنے نیک دل باپ کو ایک روز بڑے عجیب حال میں دیکھا. وہ جو
سب کے امراض کو اپنی ذہانت اور علم سے ٹھیک کرتا تھا خود ایک شراب خانے میں
مدہوش پڑا تھا. اسکے لیے یہ بات پریشانی کا سبب بنی. اس نے اپنی باپ کا
پیچھا کرنا شروع کیا تو اسے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ اسکا باپ ایک شیطانی
طاقت کے سائے میں ہے. وہ بھی جادو کی طاقت سے واقف تھا لہٰذا اس نے کچھ عمل
کر کے باپ کے جسم کو آزاد کرانے کی کوشش کی. وہ جب بھی اپنے باپ کے جسم کو
آزاد کرانے کی کوشش کرتا اسکے باپ کا جسم زخمی ہوتا کیونکہ اسکے ہر عمل کا
ظاہری نقصان حکیم کے جسم پر ہوتا.
اسکے باپ کے جسم میں داخل جن نے اسے بتایا کہ وہ یہ کوشش چھوڑ دے کیونکہ اس
کا ہر علم بیشک ایک طاقتور علم ہے مگر جب تک وہ حکیم کے جسم میں ہے کوئی
اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا. اور جب تک کوئی حکیم کو جان سے نہیں مارے گا وہ
نہیں مرے گا. کہتے ہیں کہ کافی عرصہ اس جن نے اس سلطنت کا استحصال کیا اور
کچھ سالوں کے بعد کسی جنگل میں اس لڑکے کو ایک عامل ملا جو حکیم کو جانتا
تھا جب اسکو سلطنت کے نقصانات اور حکیم کی حالت زار کا پتہ چلا تو اس نے اس
لڑکے کی مدد کی اور اسکے باپ کو اس جن کی بندش سے نکالنے میں کامیاب بھی
ہوا اور سلطنت میں سکون کا ایک نیا دور شروع ہوا.
بادشاہ نے سلطنت کے کاروبار کو سنبھالا اور ایک ڈوبتی ہوئی ریاست کو دوبارہ
کھڑا کر لیا. یہ کہانی یہی ختم نہیں ہوتی اب اس کہانی کہ ایک اور رخ پیش
خدمت ہے. 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں ایک عجیب سی الجھن تھی بہت
سی شیطانی طاقتیں اس پہ حملہ آور تھیں اور ان شیطانی طاقتوں کو قابو میں
کرنے کے لیے ایک حکیم کی ضرورت تھی . 1857 سے 1947 تک اس حکیم کو مختف
شکلوں میں دیکھا جا سکتا ہے مگر 1947 جو حکیم پردے پہ آتا ہے وہ ان شیطانی
طاقتوں کی آنکھ کا بال بن گیا. اس حکیم کا نام محمد علی جناح تھا جس کی
خداداد طاقت اور باکمال سوچ اور فقیرانہ طبعیت نے ملک پاکستان کے قیام کو
ممکن بنایا. انصاف پسند، عوام دوست، سب کی نبض پہ ہاتھ رکھ کے ان کے دکھوں
کو سمجھنے والے اس حکمران نے بہت سے شیطانوں کی سوچ کو اس وقت غار میں بند
کر دیا جب دو قومی نظریہ پیش کیا گیا. امن اور سچ پہ قائم ایک سلطنت کی
مانگ تندی باد مخالف کی طرح ایسے زور پکڑ گئی کے " لے کے رہیں گے پاکستان –
بن کے رہے گا پاکستان " ایک وظیفہ بن گیا اور یاران حریت نے اقبال کے خواب
کی تعبیر اور قائد اعظم کی تکبیر پر لبیک کہا اور بہت سے جنات کو ایک غار
میں بند کر کے اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہوے یہ مقصد حاصل کر لیا. یہ دنیا
فانی ہے لہٰذا اس سلطنت کے قیام کے بعد یہ حکیم اور اس کی ساری ٹیم آہستہ
آہستہ اس دنیا سے چلی گئی مگر اپنے پیچھے ایک ملک ایک سلطنت ایک مان چھوڑا
جس نے دنیا میں آزاد قوموں کی صف میں اپنا مقام حاصل کیا.
بہت سے شیطان جو اس غار میں بند تھے تب سے اس لمحے کی تلاش میں تھے کہ کیسے
ہم آزاد ہوں اور اس سلطنت میں بےسکونی پھیلائیں. شر کی طاقت جہاں بھیانک
ہوتی ہے وہیں اسمیں بہت سرور ہوتا ہے. اور آخر ایک روز کسی نابلد اور کمزور
شخص نے اس غار کا دروازہ ڈھونڈ لیا اور صرف اپنی تسکین کے لیے ان جنات اور
شیطانی طاقتوں کو آزاد کر دیا جو سلطنت اور عوام سے بدلہ لینے اس ریاست میں
داخل ہو گئی. پہلے پہل ان کا نشانہ محدود رہا اور مقصد اس ریاست کو کمزور
کرنا تھا. تب تک اس ریاست میں کچھ خدا ترس اور شیطانیت سے نفرت کرنے والے
حکیم اور بادشاہ حکمران تھے – انکی کوشش یہی ہوتی کہ کسی نہ کسی طرح سے ان
شیطانی طاقتوں کو ریاست سے باہر یا غار نما جیلوں میں بند رکھا جائے مگر جب
ان شیطانی طاقتوں نے محسوس کیا کہ ان کی بقا اور سلطنت کی مکمل تباہی اسی
میں ہے کہ ہم الگ الگ سلطنت پہ حملہ کریں اور ناکام کیوں نہ مل کے ایک
مشترکہ منصوبہ تیار کیا جائے . دنیا کے تمام حصوں سے سلطنت پاکستان کا رخ
کیا گیا اور سب سے پہلے ان غاروں سے اپنے دوستوں کو نکالا پھر آہستہ آہستہ
ان حکیموں اور حکمرانوں کو مروایا جو انکے لیے خطرہ تھے اور ریاست کی
سالمیت کے امین تھے اور پھر وجود ریاست میں داخل ہو گئے. میری کہانی کے جن
کی طرح شاہی خزانہ لوٹا، عوام کا قتل کیا، ریاست کا قتل کیا اور آہستہ
آہستہ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا.
ایک آزاد قوم کو مایوسی کی زندگی جینے پر مجبور کیا اور جب محسوس کیا کہ
کوئی حکیم یا سچا پاکستانی عوام کے جم غفیر سے انکو ختم کرنے کی کوشش میں
اٹھا ہے تو میری کہانی کے جن کی طرح اس مجبور عاشق پاکستان کو یہ کہہ کر
خاموش کر دیا کہ ہم اس ملک کے وجود میں اس طرح سے گھس چکے ہیں کہ ہمیں
مارنے کے لیے تمہیں اس ملک کا وجود ختم کرنا ہوگا. ان جنات کے کافی سارے
چہرے اور بڑے خطرناک عزائم تھے انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے دنیا کے مختلف
حصوں میں محل خریدے. کوئی برطانیہ میں اپنی آماجگاہ میں آ بیٹھا ہے تو کوئی
امریکہ اور دوبئی کی عالی شان عمارتوں کا مالک بنا. پچھلے دس سال میں ان
جنات کا وجود اتنا مضبوط ہو گیا کہ اب یہ مکمل طور پر آزاد ہیں اور چہرے
بدل بدل کے اس ریاست کو تباہ کر رہے ہیں جس کے قیام کے وقت انھیں ان غاروں
میں بند کیا گیا تھا. ان کے چہروں کی طرح ان کے نام بھی بدلتے رہتے ہیں. ان
کی سفاکی ان کی اولادوں میں بھی نظر آتی ہے .
اب جب ظلم حد سے بڑھ رہا ہے تو حکیم کے لاکھوں درد مند بیٹے کسی نہ کسی
جنگل میں روز اس عامل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں جو ان جنات کو قابو کرنے
اور سچ کے نظام کو زندہ رکھنے کا علم رکھتا ہو.
زرداری، لغاری، شریف ، بٹ، نواب ، امیر ، میر ، چوہدری، گیلانی، پیر ،
وڈیرہ اور ملک جیسے خاندانی نام استعمال کرنے والے اس سلطنت کے وجود میں
ایسے گھسے کہ میری کہانی کے بادشاہ کی ریاست کی طرح انہوں نے پاکستان کو
ایک مفلوج ریاست بنا دیا ہے. اب کیا میری اوپر کی کہانی میں کہیں پاکستان
ہے یا اوپر کی کہانی کا نیچے کی کہانی سے کوئی ربط ہے اس کا فیصلہ پڑھنے
والوں پر ہے.
امید کی کرن صرف دو عاملوں کی صورت نظر آتی ہے - ایک کو ہم عدلیہ کے نام سے
جانتے ہیں اور دوسرا میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے. ان عاملوں کو کوئی ایسا
عمل کرنا ہوگا کہ یہ جنات پاکستان کے وجود سے بھی نکل جائیں اور پاکستان
زخمی بھی نہ ہو. اس میں ایک احتیاط لازم ہے کہ اگر اس بار کسی جن کو ریاست
سے بھاگنے کا موقع مل گیا تو ماضی کی طرح یہ بار بار واپس آئیں گے اور
سلطنت پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے اسکے وجود میں گھس بیٹھیں گے. اس بار ان
کو بوتل، غار یہ پھر جیل میں بند کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کرنا لازم ہے
کہ ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے والے ادارے بھی ان کی جادوگری سے پاک ہوں
ورنہ کوئی نابلد جادوگر کسی روز اپنے علم کی طاقت کو آزمانے ان غاروں کے
پاس جائیں گے اور یہ چونکہ طاقتور ساحر ہیں اس لیے ممکن ہے یہ دوبارہ آزاد
ہو جائیں.
ان سب کا ہدف عوام اور کمزوری شاہی خزانہ ہے. ان کا مذہب شر کے سوا کچھ
نہیں اور انکی قید سے پہلے یہ پتہ کرنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے وہ خزانہ
کہاں چھپایا ہے. ایک ایک جادوگر کی طاقت اور اسکی کمزوری کا علم سب کو ہے
مگر پاکستان کے وجود کو بچانے کے لیے خاموشی بھی ظلم ہے – اگر کوئی اور
عامل بھی اس کا توڑ جانتا ہے تو ضرور سامنے آئے کیونکہ اس میں ہی سب کا
بھلا ہے اور سلطنت کی بقا ہے. ورنہ سب ہی شریک جرم ٹھریں گے اور ان جنات کی
اولادیں آنے والے وقتوں میں سلطنت پاکستان کو مزید کمزور کریں گی اور ظلم
کی دیواروں کو مضبوط کرنے کی تربیت حاصل کر کے پاکستان پہ حملہ آور ہونے کو
تیار ہیں. جو لوگ پاکستان سے پیار کرتے ہیں وہ ہر روز اس خبر کے انتظار میں
رہتے ہیں کہ کب اس جادو کا توڑ ہوگا اور کمزور ریاست کو راحت ملے گی. منیر
نیازی کا ایک شعر ذہن پہ ضربیں لگا رہا ہے منیر کہتے ہیں
میری ساری عمر کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
(انوار ایوب راجہ- برمنگھم – برطانیہ ) |