کرپشن سے انکارکرنا چاہیے مگر کیسے ؟
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
جب نیب کا ادارہ قائم ہوا تو اسکے شروع کے چیئرمین حاضرسروس جرنیل ہوتے تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز کو پکڑا مگر بعد میں ان کو پلی بارگین کے ذریعے رہا کیا اور L.N.G کے کاروبار کے کنگ کے ساتھ پارٹنرشپ کرلی۔ آج بھی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن بلدیات پولیس، ایف آئی اے اینٹی کرپشن کسٹم کنٹونمنٹ بورڈز کے محکموں میں کمیشن کک بیکس سپیڈ منی اور سروس چارجز کے نام پر اربوں روپوں کی سالانہ کرپشن ہے۔ مالی کرپشن کے علاوہ حکمرانوں نے اقرباپروری اور میرٹ کے برعکس اپنے منظورنظر افسران اور رشتہ داروں کو اعلیٰ مناصب‘ سفارتی عہدے‘ نیم سرکاری اداروں کی سربراہی اور سینکڑوں سرکاری کمپنیوں اور اتھارٹیوں کے اعلیٰ عہدے ایم پی آئی سکیل سے لے کر سپیشل سکیلز پر دو دو ملین تنخواہوں پر نااہل لوگوں کی بھرتیاں کیں۔ کیا کرپشن کے زمرے میں نہیں آتیں ؟؟ |
|
کرپشن سے انکارکرنا چاہیے مگر کیسے ؟ ؟ اس کا جواب ندارد
ہے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں بغیرکرپشن کے ایک کاروباری شخص
ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے کس طرح ایک سرکاری ملازم جو لامحدود سرکاری
اختیارات کا حامل ہوتا ہے جس کی معمولی نظرالتفات سے کسی کو اربوں کے فوائد
مل سکتے ہوں اور آپ کا یہ اچھوتا فقرہ کہ کرپشن کو NOکہیں۔ اسکے دل و دماغ
پر چھا جائیگا اور وہ ایسا نہیں کریگا۔ ایسی سادگی پہ کوئی مرکیوں نہ جائے۔
مولانا طارق جمیل جیسے مذہبی ناصح کی پھرکیا ضرورت ہے وعظ و تبلیغ سے تو
لوگ رشوت‘ اقربا پروری اور بے ایمانی سے باز نہیں آرہے ہیں۔ گیس پانی اور
بجلی کے بلوں اورسرکاری ٹھیکوں کے اشتہارات پر یہ بابرکت جملہ کرپشن کو
انکارکریں۔ کیا اس سے پاکستان کے معاشرے سے کرپشن کی بیخ کنی ہوجائیگی۔ نیب
کی ایک خاتون افسرکرپشن کیخلاف سماجی شعور بلند کرنے کیلئے مختلف تعلیمی
اداروں میں لیکچرز دیتی ہیں مگر ایک مستند اینکر پرسن نے انکشاف کیا ہے کہ
موصوفہ کی تعلیمی قابلیت مشکوک ہے اور انکی اکثر ڈگریاں جعلی ہیں مگر وہ
گریڈ 19 میں نیب کے محکمے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر براجمان ہیں اور
قوم کو کرپشن نہ کرنے کا درس دیتی چلے جارہی ہیں۔ دو دن بیشتر نیب نے اپنے
سابق ڈپٹی چیئرمین کیخلاف کرپشن کا مقدمہ درج کیا۔ یہ کہ موصوف نے مہنگے
موبائل فونز‘ صدقے کے بکرے اور اپنی بہن کے مکان کی مرمت نیب کے فنڈز سے
کروائی۔ جب نیب کا ادارہ قائم ہوا تو اسکے شروع کے چیئرمین حاضرسروس جرنیل
ہوتے تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز کو پکڑا مگر بعد میں ان کو پلی
بارگین کے ذریعے رہا کیا اور L.N.G کے کاروبار کے کنگ کے ساتھ پارٹنرشپ
کرلی۔ آج بھی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن بلدیات پولیس، ایف آئی اے اینٹی کرپشن
کسٹم کنٹونمنٹ بورڈز کے محکموں میں کمیشن کک بیکس سپیڈ منی اور سروس چارجز
کے نام پر اربوں روپوں کی سالانہ کرپشن ہے۔ مالی کرپشن کے علاوہ حکمرانوں
نے اقرباپروری اور میرٹ کے برعکس اپنے منظورنظر افسران اور رشتہ داروں کو
اعلیٰ مناصب‘ سفارتی عہدے‘ نیم سرکاری اداروں کی سربراہی اور سینکڑوں
سرکاری کمپنیوں اور اتھارٹیوں کے اعلیٰ عہدے ایم پی آئی سکیل سے لے کر
سپیشل سکیلز پر دو دو ملین تنخواہوں پر نااہل لوگوں کی بھرتیاں کیں۔ کیا
کرپشن کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ نیب کی سماجی مہم اپنی جگہ مگر مجھے کوئی
یہ بتائے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام آدمی جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ
ہوا ہو‘ خصوصاً بے اختیارپروفیسر، ٹیچریا کوئی لائبرین۔ سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا کہ اکاؤنٹس کے محکمے میں طے شدہ نذرانے دیئے بغیر اپنی پینشن حاصل
کرسکے۔ پولیس کے کم درجے کے اہلکاروں کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اعلیٰ
افسران کے ریڈرز کو رشوت دیئے بغیر کوئی پوسٹنگ یا چھٹی حاصل کرسکیں۔ کوئی
مائی کا لال واپڈا‘ سوئی گیس‘ ٹیلیفون یا بجلی کا بل بغیر رشوت دیئے وہ
درست نہیں کروا سکتا ہے۔
محکمہ ایکسائز یا کینٹ بورڈ سے جائز پراپرٹی ٹیکس کی تخصیص بغیر رشوت کے
ممکن کیسے ہے؟ اگر ایک عام آدمی جیسا کہ ایک پروفیسر اور اسکی بیوی نے
ریٹائرمنٹ کے بعد عہد کیا کہ وہ اکاؤنٹس کے محکمے کو رشوت دیئے بغیر اپنی
پینشن حاصل کرلیں گے مگر وہ کچھ سالوں بعد فاقوں سے اللہ کو پیارے ہوگئے
مگر وہ زندہ رہنے کیلئے اپنا حق حاصل نہ کرسکے۔ آج نیب عام آدمی کو یہ
سبق دے رہی ہے کہ وہ سرکاری محکموں میں اپنے جائزکاموں کیلئے رشوت نہ دیں
اور پھر بغیر بجلی‘ گیس‘ پنشن کے کراچی کے کالج کے سابق پرنسپل کی طرح فوت
ہو جائیں۔ پولیس والوں کو عیدی نہ دیں اور گاڑی بند کروالیں۔ بورڈ اور
یونیورسٹی کے کلرکوں کو پیسے نہ دیں تو امتحان سے ایک دن پہلے طالبعلموں کو
پتہ چلے کہ انکے فارمز درست نہیں ہیں لہٰذا انہیں رولنمبرسلپ نہیں ملے گی۔
سرکاری یونیورسٹیوں کے اعلیٰ پروفیسروں کو تحفے تحائف نہ دیں توکیسے وقت
مقررہ پر کوئی سمسٹر سسٹم میں اپنی ڈگری مکمل کر پائے گا۔ کیسے کوئی شریف
یا بدمعاش آدمی ایم این اے اور ایم پی اے کیلئے ٹکٹ سیاسی پارٹیوں سے
نذرانہ یا چندہ دیئے بغیر حاصل کرسکتا ہے۔ جب حکمران پانامہ اور سوئٹرزلینڈ
میں اربوں ڈالرکے اثاثہ جات میں کسی قسم کی سزا نہیں پاتے ہیں تو کیسے ممکن
ہے کہ وہ عوام کو ایسی انتظامیہ دے سکتے ہیں جو کرپشن نہ کرے۔
جب ہمارے وزیراعلیٰ سینکڑوں کمپنیوں اور اتھارٹیوں کی تشکیل دے کر اپنے
چہیتے بیوروکریٹس کو 20,20 لاکھ بغیرمیرٹ کے تنخواہیں اور مراعات دینگے
توکیسے ممکن ہے کہ انکے وہ کولیگ جوسرکاری سکیل کے تحت تنحواہیں اور مراعات
لے رہے ہیں` وہ جائز یا ناجائز طریقے سے لوٹ مار نہ کرے۔
اگرعام سرکاری افسرکسی حد تک ایماندار ہوگا توہ ہرکام کو قانون کے ضابطے کے
تحت کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے جس سے قانونی پیچیدگیاں اور Recl Tapism
سے لوگوں کے جائز کام بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ انتظارکرتے ہیں کہ کوئی
کرپٹ شخص سرکاری اداروں کا ہیڈ بنے تو وہ اپنے کام کروائیں۔ پاکستان میں
تحصیل میونسپل کارپوریشن پبلک ہیلتھ انجیئرنگ ایل ڈی اے‘ سی ڈی اے، آرڈی
اے اور کینٹ بورڈز ان تمام محکموں میں جتنے بھی تعمیراتی کام پایۂ تکمیل
کو پہنچتے ہیں‘ تمام ٹھیکیدار حضرات سرکاری ایم این اے سمیت ادارے کے اعلیٰ
افسران جنہوں نے انکے بل پاس کرنے ہوتے ہیں‘ انہیں کمیشن ادا کرتے ہیں اور
اسے ایک جائز عمل سمجھا جاتا ہے۔ بغیر اسی طرح جیسے ہمارے حکمران قطر‘ ترکی
اور چائنہ کے سرمایہ کاروں سے مل کر کمپنی بناتے ہیں اور اکثر ان میں آف
شعور کمپنیاں ہوتی ہیں تو پھر ان کمپنیوں کو پاکستان میں بڑے بڑے پراجیکٹس
کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں اور زیادہ کمیشن حاصل کرنے کیلئے مائع گیس‘ میٹروز‘
اورنج لائن‘ صاف پانی اور ویسٹ مینجمنٹ کے‘ حیران کن حد تک دوسرے ممالک کی
نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔
جب ہمارے حکمران بغیر میرٹ کے اپنے منظور نظر بیوروکریٹس کو ترقیاں دیتے
ہیں یا راولپنڈی کے ایک ہی خاندان میں خالہ‘ ماں‘ بیٹی‘ بیٹے کو سیاسی اور
انتظامی عہدے دے دیتے ہیں‘ اعلیٰ سفارتی عہدے غیراہم لوگوں کو دیئے جائیں
بلکہ قطر میں تو یہ عہدہ ایک بنکرکے پاس ہے تو پھرکیسے ممکن ہے کہ پاکستان
میں کرپشن کو محض NO کہنے سے کرپشن ختم ہوجائیگی۔
جب اعلیٰ عدلیہ اور احتساب کرنیوالوںکے نمائندوں کی اکثریت کا دامن داغدار
ہوگا تو کیسے سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن ختم کرنا ممکن ہے لہٰذا بہتر ہے
کہ ہر بااختیارکو کرپشن کرنے کا حق دے دیا جائے۔ حکمران طبقہ انہی شریف سول
سروس، زرداری سول سروس کے تحت پچاس فیصد اپنے بیوروکریٹس رکھ لے اور باقی
پچاس فیصد کو الگ کردیا جائے‘ خوف خدا‘ میرٹ‘ انصاف‘ عدل‘ جائز حق کے الفاظ
پاکستان میں استعمال کرنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ جب پیپلزپارٹی
برسراقتدار آئے تو وہ بھی زرداری سول سروس کے ذریعے اپنا کاروبار کرے‘ عام
محکموں کے بے ایمان لوگوں کو پلی بارگین کا حق تو حاصل ہے تو ہر افسرجائز
کام پر دس فیصد کمیشن اور ناجائز کام پر 50 فیصد کمشن لے لے توکوئی ہرج
نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ناجائز کمائی کو پاک صاف کرنے کیلئے صدقات اور
خیرات بھی توکرتا ہے‘ جج زکوٰۃ اور قربانی کا فریضہ بھی تو سرانجام دیتا
ہے۔ رمضان کے آخری عشرے کو مکہ مدینے میں گزارتا ہے‘ پاکستان میں سب سے
زیادہ خیرات بھی تو یہی لوگ دیتے ہیں تو پھر کیوں نیب یہ نعرہ ایجاد کررہا
ہے کہ کرپشن کو No کہیں۔ اگر ہمارے صنعتی حضرات اپنا معاوضہ لے کر سودی
نظام بنکاری کو اسلامی نظام بنکاری قرار دے سکتے ہیں تو وہ اجتہاد کے ذریعے
یہ فتویٰ بھی دے سکتے ہیں کہ رشوت لینے اور دینے والے جہنمی نہیں ہیں
کیونکہ دونوں پارٹیاں ایسا مجبوری میں کررہی ہیں‘ اگرکسی کو میری یہ باتیں
طنزوتشنیع لگ رہی ہیں تو مجھے کوئی ایک سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں تیسری
دنیا کا ملک بتادیں جہاں کرپشن شجرممنوعہ ہے لہٰذا جو چیز حقیقت ہے اور
ہمیشہ حقیقت رہے گی تو اسے قانونی حیثیت دیدی جائے تو لوٹ مار کے نظام میں
وحشی اور جنگجو آپس کی بندربانٹ میں لڑتے ہی رہیں گے - |
|