پاکستانی امریکا کو قطعاََ پسند
نہیں کرتے، امداد چاہتے ہیں .... جان کیری
امریکا نے ایک سال میں 7لاکھ سے زائد افراد کو اپنی شہریت دی جس میں
پاکستانیوں کو نظرانداز اور بھارتیوں کو نواز دیا گیا
یہ نقطہ شائد امریکیوں کی سمجھ میں آج آیا ہے کہ پاکستانی امریکا کو پسند
نہیں کرتے اور بس امداد چاہتے ہیں یہ بات مجھے یوں یاد آئی کہ ایسے ہی
خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں امریکی سینٹ کی تعلقات خارجہ کمیٹی کے چئیرمین
سینیٹر جان کیری نے واشنگٹن میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے
ہونے والی اپنی ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا اگرچہ اِس موقع پر
اُنہوں نے کہا کہ امریکا ہر حال میں پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل چاہتا ہے
جو پاکستان میں بڑے عرصے رہنے والی آمریت کے بعد نمودار ہوئی ہے اور امریکا
یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں نومولود جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچے اور
پاکستان میں اُگنے والا جمہوریت کا یہ ننھا سا پودا سیاستدانوں کی آپس کی
کھینچا تانی کی وجہ سے جڑ سے اکھڑ جائے اور پاکستان میں جمہوریت پنپنے نہ
پائے۔ مگر اِس کا بھی کیا.....؟کیا جائے جن پر جمہوریت کے اِس ننھے سے پودے
کو سینچنے کی ذمہ داری ہے وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں جمہوریت کا جھنجھنا
اٹھائے اِسے بجاتے ہوئے دھمال ڈال رہے ہیں اور ملک میں جمہوریت ....جمہوریت
کا گُنگاتے نہیں تھک رہے ہیں اِن لوگوں نے عوام کی جانب سے اپنی توجہ یکدم
سے ہٹا رکھی ہے اور بس اپنی اپنی عیاشیوں اور دیارِ غیر کے دوروں کی اِنہیں
پڑی ہے تو ایسے میں عوام کو جمہوریت سے کوئی غرض نہیں ہے.....عوام کو تو
اپنے حکمرانوں سے اپنے مسائل کے مداوے کی فکر لاحق ہے جس کے لئے ہمارے
حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اِنہیں یہ بات بھی تو سوچنی چاہئے کہ
یہ جمہوریت بچانے کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے بھی تو کچھ اچھا کریں تو بات
بنے اور عوام کو حکمران بھی اچھے لگیں اور جمہوریت بھی ....ورنہ پاکستانی
حکمرانوں اور امریکی آقاؤں یہ یاد رکھو کہ پاکستانی عوام کو جمہوریت کی
کوئی ضرورت نہیں اِسے تو ملک کے موجودہ حالات میں اَب اپنے مسائل حل کرنے
والا کوئی آمر حکمران بھی اچھا لگنے لگا ہے۔
بہرکیف جان کیری کا اپنی اِس ہی گفتگو میں یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں
سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لئے بھی امریکا ہی ہے جس نے
پاکستان کی اِس کے دوستوں سے بڑھ کر مدد کی ہے اور امریکا کا یہ عزم ہے کہ
یہ پاکستان کی اِس حوالے سے ہر موڑ پر مدد کرتا رہے گا مگر اِس کے ساتھ ہی
جان کیری نے کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تاہم پاکستانی سیاستدانوں
کو امریکا کے بارے میں غیر ہم آہنگ نہیں ہونا چاہئے اور اِن کا انتہائی ہتک
آمیز لہجے میں پاکستانیوں پر طنز کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی
امریکا سے امداد تو چاہتے ہیں اور دوسری طرف امریکا کو پسند بھی نہیں کرتے
...اِن کے اِس جملے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جیسے اَب امریکا سمیت ساری
دنیا پر یہ حقیقت اچھی طرح سے عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستانیوں کی ایک واضح
اکثریت نے امریکا کو کبھی بھی دل سے پسند نہیں کیا ہے اور نہ آج اِن حالات
میں بھی جب امریکا اپنے مفادات کے لئے وقتاََ فوقتاَ َپاکستان کی مدد بھی
کررہا ہے تو کوئی پاکستانی امریکا کو کوئی پسند کرتا ہے اور یہاں میں اپنے
پورے یقین اور ایمان سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ امریکا ہم پاکستانیوں کے لئے
کچھ بھی کر لے ... حتی ٰ کہ یہ سارے امریکی جلتے توّے پر بھی بیٹھ کر
پاکستانیوں کو اپنے اچھے ہونے کا یقین دلائیں بھی تو آئندہ کوئی پاکستانی
بچہ بھی اِن کے اِس عمل پر کبھی یقین نہیں کرے گا ....کہ امریکی پاکستانیوں
کے لئے کبھی اچھے ہوسکتے ہیں کیوں کہ آج ہر پاکستانی امریکی رویوں کی وجہ
سے امریکا کو قطعاَ َپسند نہیں کرتا.....اور نہ کبھی پسند کرے گا اور
امریکیوں کو ایسا پسند کرنا جیسا امریکی صدیوں سے یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں
کہ پاکستانی اِنہیں اِن کی توقعات کے مطابق پسند کریں۔ تو ایسا ہرگز نہیں
ہوسکتا ہے۔
اور دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک زمانے سے چلے آنے والے پاک
امریکا تعلقات اپنے اپنے مفادات کے حوالوں سے اِس مثال کے مصداق ہیں کہ
جیسے میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا، دونوں جانب
سے ایسی ہی کچھ کیفیت ابتدا سے قائم ہے کیوں کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے
کو چھوڑنا تو چاہتے ہیں مگر اپنے اپنے مفادات کے حصولوں کی تکمیل کے باعث
یہ ایک دوسرے کو نہیں چھوڑ سکتے اور یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہوئے کہ
دنیا کے یہ دونوں ممالک جن میں نہ تو مذہب، زبان، تہذہب و تمدن کی کوئی
مماثلت ہے اور تو نہ ہی دوسری جانب سے اِن میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے
کوئی جوڑ ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ ایک(امریکا)
کا شمار تو دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے تو دوسرا(پاکستان) دنیا کے
غریب ترین ممالک کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے جہاں کے لوگ خط
غربت سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں اور شائد یہی وہ عناصر ہیں
جن کی وجہ سے اِن دونوں ممالک میں عدم توازن کا رجحان پایا جاتا ہے اور اِس
ہی نکتہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو اِن دونوں ممالک کے بعض سیاستدان اور
اِن کے عوام کی اکثریت ایک دوسرے کو قطعاََ ناپسند کرتے ہیں۔
مگر دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اِس کے باوجود بھی نصف صدی سے بھی
زائد عرصے پر محیط اِن دونوں ممالک( پاک امریکا )کے تعلقات قائم ہیں اِس کی
ایک خاص وجہ صرف یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک کے حکمرانوں نے ہر دور میں اپنے
عوام کی توقعات کے برعکس کام کیا ہے اور اِن ممالک کے حکمرانوں نے اپنے
اپنے حکومتی امور کی انجام دہی کے لئے آپس میں بڑی اچھی گھٹ جوڑ قائم رکھی
اور اِس دوران یہ ایک دوسرے کا کاندھا تھپتپاتے رہے اور اپنے اپنے مفادات
کے حصول کے خاطر طرح طرح کے حربے استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آئے اور روز
کسی نہ کسی سیاسی، معاشی اور اقتصادی صُورتِ حال پر یہ ایک دوسرے کو بیوقوف
بناتے اور خوش کرتے رہے اور آج بھی اِن کا یہ عمل ظاہر و باطن طریقوں سے
جاری ہے۔
جیسے ایک خبر کے مطابق امریکا نے ایک سال کے دوران جب 7لاکھ سے زائد افراد
کو اپنی شہریت دی تو اِس نے اپنے دیرنیہ دوست پاکستان کو یکسر نظر انداز
کردیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا سب سے زیادہ شہریت اپنی دہشت
گردی کی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے اپنے بہادر اور نڈر
دوست پاکستان کے شہریوں کو اپنی شہریت دیتا مگر اِس نے دانستہ طور پر
پاکستان کو نظر انداز کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اِس کے پاکستان سے تعلقات
ایک خاص مقصد تک محدود ہیں یہ کسی بھی صُورت میں اِس سے یہ تجاوز نہیں
کرسکتا اور جہاں تک پاکستانیوں کو امریکی شہریت دینے کی بات ہے تو امریکی
پاکستانیوں کو کسی بھی صورت میں اپنی شہریت دینے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لاکھ قربانیوں کے باوجود آج میں
پاکستانی امریکا اور امریکیوں کی نظر میں انتہاپسند اور دہشت گرد ہیں تو
پھر امریکا پاکستانیوں کو کیوں اپنی شہریت دے گا۔
اگرچہ یہ حقیقت ہم پاکستانیوں کے لئے انتہائی افسوسناک اور حیرت انگیز ضرور
ہے کہ وہ پاکستان جو اپنے ہر معاملے میں مدد کے لئے امریکا کو پکارتا ہے جب
امریکیوں نے دنیا کے ممالک کے لوگوں کو اپنی شہریت دینی شروع کی تو اِن
امریکیوں نے ایک سال کے عرصے میں سات لاکھ سے زائد افراد کو امریکی شہریت
دی جس میں بھارت امریکی شہریت حاصل کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ثابت
ہوا اِس حوالے سے امریکیوں کا پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں پر یہ
کہا جارہا ہے کہ صرف 2009تک کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے مختلف
خظّوں سے تعلق رکھنے والے 7 لاکھ 43ہزار 715افراد کو ہنسی خوشی اپنی شہریت
دی جو امریکہ میں گرین کارڈ یا مکمل سکونت کی دیگر قانونی دستاویز کے ساتھ
رہائش پزیر تھے جبکہ اِس سلسلے میں امریکا نے اپنے دوست ملک پاکستان کے
ساتھ اپنی کُھلی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانیوں کے لئے تو سخت
ترین قانون بنائے رکھا جبکہ اِس نے کھلم کھلا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
میکسیکو کے بعد پاکستان کے پڑوسی اور اِس کے ازلی دشمن بھارت کے باشندوں کے
لئے اپنے قوانین میں نرمی برتتے ہوئے بھارتیوں کو سب سے زیادہ امریکا کی
شہریت دی جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکا نے گزشتہ سالوں میں
سب سے زیادہ شہریت بھارتیوں کو ہی دی ہے۔
یہاں اگر ہم امریکیوں کی جانب سے امریکی شہریت کے حوالے سے بھارتیوں کے
نوازے جانے کا ایک جائزہ لیں تو یہ بات اچھی طرح سے واضح ہوجائے گی کہ
امریکیوں نے ہر سال پاکستانیوں سے زیادہ بھارتیوں کو اپنی شہریت دی ہے
اگرچہ 2009سے2008کے مقابلے میں شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد تین لاکھ سے
کم تھی مگر اِس عرصے 2008میں10لاکھ 46ہزار539افراد نے امریکی شہریت حاصل کی
تھی سال2000سے 2009تک دس سال کے عرصے میں68لاکھ22ہزار117افراد کو امریکی
شہریت سے نوازا گیا اِس سارے عرصے کے دوران صرف 2009میں 12ہزار
528پاکستانیوں کو امریکی شہریت دی گئی اور 2008میںصرف 11ہزار 813پاکستانیوں
کو امریکا نے لاکھ جتن کرنے کے بعد اپنی شہریت دی یعنی کہ دو سالوں میں صرف
24ہزار341پاکستانیوں پر امریکا نے یہ احسان کیا کہ اِن افراد کو اپنی شہریت
دی جبکہ اِس کے مقابلے میں اِس دوران امریکا کی طرف سے پاکستانیوں کے ساتھ
ستم ظریفی کا مظاہرہ اِس طرح سے کیا گیا کہ 2008میں65ہزار971بھارتیوں کو
امریکی شہریت دی گئی اور 2009میں52ہزار889بھارتیوں کو امریکانے اپنی شہریت
دے کر اِنہیں گلے لگایا۔
یوں دس سال کے عرصے میں مختلف وقتوں میں امریکا نے صرف 95
ہزار482پاکستانیوں کو اپنے جگر پر پتھر رکھ کر اپنی شہریت دی حالانکہ
پاکستان اِس کا قریب دوست گردانا جاتا ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ
بھارت جو امریکا کو اپنے ٹھینگے پر رکھتا ہے امریکا نے گزشتہ دس سال کے
دوران 4لاکھ 26ہزار977بھارتیوں کو امریکی شہریت دی مگر پھر بھی بھارت
امریکا کے زیر اثر نہیں آیا اور نہ ہی بھارت نے اِن امریکی نوازشوں کے
باوجود امریکا کا کوئی احسان ماننے کو تیار ہے اور اُلٹا بھارت کی سینہ
زوری یہ کہ بھارت امریکاپر اپنا دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے کہ امریکا نے پچھلے
دس سالوں کے دوران اِس کی توقعات کے برعکس بہت کم تعداد میں بھارتیوں کو
اپنی شہریت دی ہے جو بھارت اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ کا سبب بھی بن
سکتا ہے۔
اِس ساری صُورت حال کے تناظر میں آج اگر ہم اِن اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاک امریکا تعلقات صرف امریکی مفادات تک محدود
ہیں اور امریکا پاکستان کو کسی بھی صُورت میں اپنے دامن میں چھپانے اور
پناہ دینے کے حق میں نہیں ہے جبکہ اِس کی ساری ہمدردیاں اُن بھارتی ہندؤ
بنیوں کے ساتھ ہیں جو اِسے بھی تیل لگا جاتے ہیں یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ
بھارتی حکمران اور سیاستدان امریکا کو لولی پاپ دے کر ہمیشہ اپنا الّو
سیدھا کر لیتے ہیں اِس طرح امریکا اُن کے ساتھ خوش ہے اور امریکا اُس
پاکستان کے ساتھ جو نائن الیون کے بعد اِس کی دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے
کے خلاف جاری جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا کردار ادا کر رہا ہے اِس سے
ناخوش ہی رہتا ہے اور اِسے چند ڈالرز امداد یا قرض کی مد میں دے کر یوں
اِسے اپنے دباؤ میں رکھتا ہے اور اِس سے اپنے ہر اُلٹے سیدھے کام نکالتا
رہتا ہے اور یوں اَب تک کے اعدادوشمار کے مطابق صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک
ہے جِسے امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد سب سے زیادہ جانی، مالی، سیاسی اور
اخلاقی طور پر اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں نقصانات کا سامنا کرنا
پڑا ہے اِس پر امریکا کا یہ رویہ جب اِسے اپنے یہاں دنیا کے مختلف خطوں کے
افراد کو اپنی شہریت دینے کا مرحلہ آیا تو اِس نے سب سے زیادہ بھارتیوں کو
اپنی شہریت دے کر پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کے منہ ایک ایسا
زوردار طمانچہ مارا ہے کہ اگر ہمارے حکمران، سیاستدان اور عوام پاگل نہیں
ہوئے ہیں تو اِنہیں فورََا امریکا کے اِس روئے پر بھر پوراحتجاج کرنا چاہئے
اور اُسے یہ بتا دینا چاہئے کہ جب مارنے اور مرنے کی باری آتی ہے تو امریکا
دوستی کا دم بھرتے ہوئے پاکستانیوں کو آگ میں جھونک دیتا ہے اور جب کسی
معاملے میں نوازنے کا کوئی کھیل کھیلتا ہے تو یہ بھارتیوں کے گلے میں ہار
ڈال دیتا ہے آخر امریکا ایسا کیوں کرتا ہے .....؟؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب
اَب ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو خود تلاش کرکے امریکا کے منہ
پر دے مارنا ہوگا اور اِس سے اپنے سارے تعلقات فی الفور ختم کرتے ہوئے اِس
کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے بھی علیحدگی اختیار کرنی ہوگی اور اِسے
ایساسبق چکھانا ہوگا کہ وہ پھر کبھی پاکستان کو اپنے کسی بھی مفاد کے لئے
استعمال نہ کرے ہمارے اِس عمل ہی سے ہم سب کی بھلائی ہے۔ ورنہ یہ یاد رکھو
امریکی ہمیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے رہیں گے اور ہمیں اپنے ڈرون
حملوں سے مارتے اور مرواتے رہیں گے۔ |