کرپشں کے واویلے میں سیاسی دنگل کا آغاز

جوں جوں الیکشن کی بازگشت پانامہ لیکس کے فیصلے کے منتظر شکاری سیاستدانوں کو سنائی دے رہی ہے انہوں نے اپنے تیر کمان سیدھے کرنے شروع کردئیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی مروڑ اٹھنا شروع ہوگیاہے ۔ چار سالوں تک عوام جو کہ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری کا شکار رہی ، کا درد کسی کے پیٹ میں نہیں اٹھا لیکن اب سیاسی جماعتوں نے اہم ایشوز جن میں لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں گرمی شروع ہوتے ہی اضافہ ہے، قابل ذکر ہے کو لیکر احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کردیاہے۔ جماعت اسلامی کے ایک ایسے ہی اجتماع پر کے الیکٹرک کے غنڈوں، پولیس وغیرہ نے فائرنگ کردی جس کے باعث کراچی میں جماعت اسلامی اور واپڈا، پولیس، سندھ حکومت کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ وفاقی سطح پر تینو ں بڑی جماعتیں بھی پی ایم ایل (ن) ، پی ٹی آئی اور پی پی پی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوچکی ہیں۔ زرداری صاحب پنجاب میں نقب لگانے اور کچھ کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کررہے ہیں تو نواز شریف سندھ میں اکا دکا سیٹ حاصل کرنے کی کوشش میں حیدر آباد جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے اربوں روپوں کے ترقیاتی پیکج کا اعلان حسب معلوم کیا ۔ ممتاز بھٹو سے خواہش کے باوجود ملاقات نہ کرسکے۔ انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں فرمایا کہ مجھے یہاں آکر پتہ چلا کہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔ واہ کیا بات ہے کیا انداز حکمرانی ہے پورا ملک پانی کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ آپ کا لاہور جہاں پر اربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں میں بھی لوگ اس نعمت خداوندی کو بھاری رقم کے عوض خریدنے پر مجبور ہیں۔ آپ کیسے حکمران ہیں آپکو عوام کی اس تکلیف کا پتہ تک نہیں ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے عوام صرف پانی سے محروم نہیں بلکہ بجلی، گیس، عدالتوں میں انصاف، میرٹ، روزگار، رشوت کے بغیر کام، ملاوٹ کے بغیر اشیائے خوردو نوش ، تعلیم، صحت کے مسائل بھی عوام کی دسترس سے آئے دن دور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے 2018ء تک ختم کرنے کا دعوی حکمرانو ں نے کر رکھا ہے پایہ تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آتا۔ حکمرانو ں نے واپڈا کے بحران اور برائی کی اصل جڑ کرپشن، لائن لاسز کو ختم کرنے کیلئے خلوص کیساتھ کوشش کی ہی نہیں جس کے باعث واپڈا پر قرض 500ارب سے تجاوز کرگیاہے۔ یہ حال تو اس وقت ہے جب 24گھنٹوں میں سے صرف چند گھنٹے بجلی مہیا کی جاتی ہے اگر حکومتی دعوی مان لیا جائے کہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی تو پھر یہ قرضہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائیگا۔ آئندہ الیکشن میں حکمرانوں کو پانامہ لیکس اور واپڈا کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جو اژدھے کی مانند منہ پھاڑے کھڑے ہیں اور حکمرانوں کو نگلنے کیلئے تیار ہیں۔ حکومت کی ان ہی ناکامیوں اور کرپشن کے مقدمات کو دیکھتے ہوئے زرداری جیسے کرپٹ سیاستدان کی بھی اب جرات ہوگئی ہے کہ وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنی باری کا اعلان کررہاہے۔ اﷲ ہماری عوام پر رحم فرمائے جن کی بداعمالیوں نے ہم پر ایسے کرپٹ سیاستدانوں اور جماعت کو مسلط کررکھاہے جو گھٹنوں تک بے قاعدگیوں، اقرباء پروری، لوٹ مار، نسلی و قومی امتیاز، قتل و غارت، سیاسی بھرتیوں ، اسلام و قوم دشمن اقدامات، مذہنی منافرت ، اداروں کو تباہ کرنے جیسے اقدامات میں ڈوبے ہوئے ہیں جو صرف اعلانات کرتے ہیں عمل درآمد، نواز شریف نے ملک میں 5ائیرپورٹس کھولنے کا وعدہ کیا لیکن انہیں کھولنا تو درکنار، الٹا بڑے شہروں کے ائیرپورٹس کو گروی رکھ دیا گیا۔ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے سلسلے میں بار بار صوبہ کے پی کے اور بلوچستان کی عوام سے وعدے کئے لیکن تاحال سینٹ قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان میں ایک انچ زمین بھی نہیں خریدی گئی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر قائم کمیٹی کا آج تک کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوسکا۔ مغربی روٹ تاحال سرکاری کاغذات میں تو موجود ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اسکا وجود عملا موجود نہیں ہے ۔ ایسے جھوٹے وعدوں اور صرف اور صرف ایک صوبے کو ترجیح دینے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر کیسے ان دو صوبوں میں عوام سے ووٹ مانگیں گے۔ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری جتنی حکمرانوں اور سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اتنی ہی عوام پر بھی ہماری عوام اربوں روپوں کی چوری، کرپشن میں ملوث چوروں کو سونے کا تاج پہنارہی ہے اور ہماری عدالتیں ان کی ضمانتیں لے رہی ہیں جبکہ ہمارے احتسابی ادارے پلی بارگیننگ کرکے کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کررہی ہیں جب تک ملک میں آپریشن و رد کرپشن قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہم باری باری نااہل کرپٹ حکمرانوں کا سامنا کرتے رہیں گے جو برساتی مینڈکوں کی طرح اب الیکشن قریب آنے پر جھوٹے عوامی رابطوں میں مصروف نظر آنے لگے ہیں۔ یہ نمائندے جنہوں نے عرصہ چار سالوں تک عوامی رابطوں کو جرم سمجھا عوام کو مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور کرپٹ نظام کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا۔ اب عوام کی شادی، فوتگی، رسم، چہلم میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تمام تر سیاسی اصول پسندی، اصول و ضوابط، خودداری کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اتحادکی کوششوں کا آغاز ہوچکاہے۔ کم از کم صوبہ کے پی کے کے بارے میں اب یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ JUIF، PPP کا اتحاد بن جائے تاکہ PTIکا راستہ روکا جاسکے جبکہ ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے جبکہ PMLNنے جو کچھ اپنے دور اقتدار میں اس صوبے کے ساتھ مغربی روٹ اور واپڈا کی ظالمانہ لوڈشیڈنگ کے سلسلے میں کیا اسکا بوریا بستر گول نظر آتاہے۔ صرف چند نشستیں ہزارہ، پشاور، ایبٹ آباد، مانسہرہ وغیرہ کے علاقے میں ملتی نطر آرہی ہیں۔ پنجاب میں PMLNکی اور سندھ میں پی پی پی کی اکثریت ہوگی جبکہ بلوچستان میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں MPLN اور پی پی پی نے علاقائیت کی سیاست کو فروغ دیکر جماعتوں کو اپنے اپنے صوبوں تک محدود کرلیاہے۔ پہل پی پی پی نے کی اب (ن) بھی اسی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ PTIکو شاید اس مرتبہ پنجاب میں پہلے سے زیادہ نشستیں مل جائیں لیکن JUIFکے پی کے، بلوجستان اور MQMصرف کراچی، حیدرآبااتک محدود نظر آتی ہے۔ لیکن کونسی MQMاسکا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ جماعت اسلامی سیاسی سابقہ روایت تک محدود رہے گی۔ ممکن ہے PTIکے ساتھ اے این پی کااتحاد ہوجائے جبکہ جماعت اسلامی کیساتھ بھی ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ قریں قیاس نہیں ہے۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.