مسئلہ کشمیر اور ہماری بے حسی

مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیری عرصہ دراز سے شدید ترین بھارتی بربریت ظلم و ستم اور یاستی جبر برداشت کرنے کے باوجود بھارت سے آزادی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس جدوجہد میں ہزاروں ماؤں بہنوں نے اپنی عصمتیں بہنوں نے اپنے جوان بھائی ماؤں نے اپنے لخت جگر باپوں نے اپنے بڑھاپے کے سہارے کشمیر کی آزادی کے لیے قربان کر دئیے ہیں۔کشمیر کی بستیاں ویران اور قربستان آباد ہوتے جا رہے ہیں۔ کشمیری کی تیسری نسل آزادی کے نام پر قربان ہو رہی ہے ۔ کشمیریوں کی قربانیاں تو سلام کے قابل مگر تحریک آزادی کشمیر میں بحیثیت قوم ہمارا کردار سوالیہ نشان ہے ۔ ہماری ساری جدوجہد صرف زبانی جمع خرچ اور ذاتی مفادات کے حصول تک محدود ہے ۔ ہماری سفارت کا ری ناکام ہو چکی ہے ۔ ہم مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی بات اگر کرتے بھی ہیں تو بھارت آزادکشمیر کی بات کرتا ہے ۔ ہم خود مختاری الحاق ، پُرامن جدوجہد اور جہاد یا جنگ سے کشمیر آزادکرانے کے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ جبکہ آزادی کے موقف پر ہمارا اتنا زور نہیں جتنا ہونا چاہیے ۔ آج تک ہم بھارت سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ بھی تسلیم نہیں کروا سکے دراصل مسئلہ کشمیر کو پاکستانی اور آزادکشمیر کے تمام حکمرانوں نے آج تک محض اپنے اقتدار کے حصول یا اقتدار کو دوام بخشنے یا کشمیریوں کے نام پر مالی فوائد کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا ہے ۔ تحریک آزادی سے ہماری وابستگی صرف الفاظ کی حد تک ہے ۔ حکومت پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کا اعلان تو کر دیا ہے ۔ لیکن صرف احتجاج کا فی نہیں مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے لیے ہمیں اپنی سفارت کاری کو موثر بنا کر عالمی رائے عامہ کو کشمیر کے بارے میں باخیر کر کے بھارتی ظلم و ستم سے عالمی دنیا کو آگاہ کرنا پڑے گا ۔ مسئلہ کشمیر پاکستانیوں، کشمیریوں اور بھارتیوں میں سے کسی ایک فریق کی مرضی سے حل نہیں ہو گا۔ اسکے حل کے لیے کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنا پڑے گا ۔ اسی صورت میں مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔ ورنہ کشمیریوں کا خون نہ جانے کب تک بہتا رہے گا۔ اور بے حِس پاکستان اور کشمیری حکمران کب تک یہ تماشا دیکھتے رہیں گے ۔

 

Armaan
About the Author: Armaan Read More Articles by Armaan: 9 Articles with 5261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.