کراچی میں بجلی کا انتظام چلانے والے نجی کمپنی’
کے۔الیکٹرک ‘کی عوام دشمنی، ظلم و زیادتی،لوٹ کھسوٹ ، من مانی، بے جا بلنگ
، ظلم و ذیادتی کے خلاف عوامی احتجاج سامنے آیا۔ احتجاج کی کال کراچی سے
سابقہ ادوار میں ایوانوں میں منتخب ہونے والی اور بلدیاتی نظام کی باگ دوڑ
چلانے والی سیاسی جماعت ’جماعت اسلامی ‘ دی تھی۔ سخت گرمی اور خراب موسم کے
باوجود عوام کی بڑی تعداد نے کے۔الیکٹرک کے خلاف اپنا جائز احتجاج ریکارڈ
کرایا۔جماعت اسلامی کی یہی ایک خوبی ہے کہ یہ ایک منظم سیاسی جماعت ہے،اس
کے کارکن جفاکش اور اپنی قیادت کے فیصلے پر تن من دھن لٹانے میں دیر نہیں
کرتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس قدر منظم ہونے، وفادار و محنتی کارکنوں کے با
وجود انتخابات میں اسے وہ کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اس
پر پھر کبھی قلم چلاؤں گا۔ سر دست ذکر کے۔الیکٹرک کی زیادتیوں اور اہل
کراچی پر ظلم و بر بریت کا جس کے خلاف عوامی احتجاج سامنے آیا ، افسو س کی
بات یہ کہ کسی اور سیاسی جماعت نے جائز اور عوام کے حق کی آواز کے لیے اپنی
آوازشامل نہیں کی۔ احتجاج میں شریک ہونا تو دور کی بات یہ بھی نہ کہا کہ
واقعی کے۔الیکٹرک کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہا ہے، یہ ایک
متمرد (ظالم) ادارہ ہوچکا ہے۔در اصل ہماری سیاست کی روش یہ ہوچکی ہے کہ یہ
نہ دیکھو کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ یہ دیکھو کون کہہ رہا ہے۔ اس میں سب
شریک ہیں وہ بھی جو اس وقت اقتدار میں ہیں ، وہ بھی جو سابقہ ادوار میں
اقتدار کے مزے لے چکے ہیں اور وہ نام نہاد حزب اختلاف یعنی جو اب حکومت کے
خلاف ہیں ۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں اُس ملک کا قانون لوگوں کو جائز
طریقے سے احتجاج کا حق دیتا ہے۔احتجاج کرنے والے ایسا احتجاج نہ کریں جو
غیر جمہوری، غیر اخلاقی، تشدد آمیز لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کرنے والا
ہو ۔ کے۔ الیکٹرک کے خلاف احتجاج کن وجوہات کے باعث کیا جارہا تھا، وہ
کونسے مظالم اور زیادتیاں تھیں کہ جن کے خلاف حکومت وقت کی توجہ کے۔
الیکٹرک کے اقدامات کی جانب دلائی جارہی تھی ان کا تجزیہ کریں تو معلوم
ہوتا ہے کہ یہ احتجاج کے۔الیکٹرک کی حسب ذیل نہ انصافیوں کے خلاف کیا گیا۔
۱۔ کے۔الیکٹرک کی جانب سے 1تا300یونٹس میں ظالمانہ اضافہ غریب مڈل کلاس پر
قاتلانہ حملے کے مترتادف ہے۔ کیا یہ بات حقیت پر مبنی نہیں کہ کے۔الیکٹرک
نے اپنے طور پر، خاموشی کے ساتھ ایک یونٹ سے تین سو یونٹ بجلی کااستعمال
کرنے والوں کے نرخ میں من مانا اضافہ کر کے کراچی کے غریب ، متوسط طبقے سے
تعلق رکھنے والوں پر ظلم نہیں کیا، کے۔الیکٹرک متمرد نہیں تو اور پھر کیا
ہے۔
۲۔ کے۔الیکٹرک نے کراچی کے عوام سے جعلسازی کے ذریعے 200 ارب روپے وصول کر
لیے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کے۔الیکٹرک کا اقدام درست ہے؟ یقیناًدرست نہیں اسے
غریب کا چولہا بند کرنے کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کو فائدہ
ہو رہا ہویا نہ ہورہا ہو البتہ کے۔الیکٹرک کے مالکان اس ناجائز اقدام سے
مستفیض ضرور ہورہے ہوں گے۔
۳۔ اور بلنگ ، فیول ایڈجسٹمنٹ ، میٹر رینٹ کے نام پر کے۔الیکٹرک عوام سے ہر
ماہ لاکھوں روپے وصول نہیں کرتی۔ اس مطلق العنانیت کو کیا کہا جائے گا؟
۴۔ گھر خرید و فروخت ہونے کی صورت میں نیا مالک مکان چاہے کہ بجلی کا بل اس
کے نام آنا شروع ہوجائے تو کے۔الیکٹرک اس نئے مالک مکان سے صرف 120گز کے
مکان مالک سے 10ہزار روپے سے زیادہ وصول کرتا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ جائز
طریقے سے صرف نام کی تبدیلی کے لیے اتنی بھاری رقم ، کے۔الیکٹرک کے کارندوں
کے چکر الگ لگانے پڑتے ہیں۔ یہ کے۔الیکٹرک کا ظلم نہیں؟
۵۔ کے۔الیکٹرک کس کی ملکیت ہے اس کا کسی کو معلوم نہیں، یہ چند لوگ ہیں،
ایک شخص ہے، پاکستانی ہے یا اس کا مالک کسی غیر ملک کا باشندہ ہے کراچی کے
عوام اگر یہ جاننا چاہتے ہیں تو کوئی غلط بات نہیں ، انہیں معلوم ہونا
چاہیے کہ ان پر ظلم و زیادتی کرنے والا یا کرنے والے کون لوگ ہیں۔اس مطالبے
میں کوئی بری بات نظر نہیں آتی۔
۶۔ کے۔الیکٹرک نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو اونے پونے خریدا۔اس
وقت کراچی مین تانبے کی کھلی ہوئی تاروں کے ذریعہ بجلی کی فراہمی کا نظام
رائج تھا یہ اب بھی ہے ، کے۔الیکٹرک نے اس نظام کو ABC وائر میں بدلنے کا
منصوبہ بنایا، ABCوائر کا نظام بے شک بہت اچھا اور بجلی چوری کو روکنے میں
معاون ثابت ہوتا ہے ، کراچی کے اکثر علاقوں سے تانبے کے تار ہٹا کر ABCنظام
میں بدلا جارہا ہے ۔ یہ تانبے کا تار جو بہت مہنگا ہوتا ہے کہاگیا؟ اس کا
کوئی ریکارڈ اور اتا پتہ نہیں۔ مالِ غنیمت کے طور پر اسے بیچ کر مالکان کی
جیب کو بھر دیا گیا یا پھر ادھر ادھر ہوگیا۔ عوام کا یہ حق ہے کہ انہیں
معلوم ہو کہ یہ تار کس نے بیچا، کتنے کا بیچا ، رقم کس کی جیب میں گئی؟
۷۔ کراچی کے علاوہ پورے پاکستان میں واپڈا بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار ہے ،
وہاں جب بھی بجلی کے بل میں اضافہ کیا جاتا ہے تو متعلقہ حکومتی ادارے اس
کی باقاعدہ اجاذت دیتے ہیں تو فی یونٹ اضافہ کیا جاتا ہے لیکن کے۔الیکٹرک
ایسا منہ زور ، خود سر، خود رائے، من موجی، آزاد، سرکش، ہٹی اور تمرد قسم
کا ادارہ ہے کہ یہ جب چاہتا ہے جتنا چاہتا ہے فی یونٹ نرخ اضافہ کردیتا ہے،
حکومت خواہ صوبائی ہو یا مرکز کی یہ جرت نہیں کرسکتی کہ وہ اس سے پوچھے کہ
تم نے اپنے نرخ کس خوشی میں بڑھائے، کس تناسب سے بڑھائے۔ عوام کا احتجاج
کے۔الیکٹرک کے ٹیرف یا نرخ میں اضافے پر تھا جو بالکل جائز بھی تھا۔
۸۔ حکومت ، نیپرا اور کے۔الیکٹرک تینوں نے اپنے اپنے طور پر فیصلہ کیا ہوا
ہے کہ کراچی کے عوام اور کراچی لاوارث ہے ، بے یار و مددگار ہے بے سہارا
ہے، بے سر پرستا ہے، بے وارثا ہے ، غیر مملوک اور غیر موروث ہے۔ اسے کوئی
سیاسی جماعت اون نہیں کرتی، یہ اس شہر کی بد قسمتی ہے، کہ اس نے متعدد
مرتبہ ایسی ایسی جماعتوں کے نمائندوں کو ایوانوں میں پہنچایا جن کا کراچی
کے علاوہ ملک کے کسی کونے سے ایک نمائندہ بھی منتخب نہیں ہوالیکن افسو س اس
بات کا ہے کہ کراچی سے فیض اٹھانے والے ،کراچی پر حکمرانی کرنے والے، کراچی
کے توسط سے زمین سے آسمان پر پہنچنے والے، کراچی کے لیے اٹھنے والی آواز
میں شامل ہونا پسند نہیں کرتے۔ کے۔الیکٹرک کی آمدنی کیا ہے کبھی حکومت نے
یہ معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اس ادارے نے اپنی تمام تر صلاحیتیں عوام سے بل
وصول کرنے میں لگا رکھی ہیں، بجلی پیدا کرکے عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات
دلانے کے کتنے منصوبے بنائے گئے۔ کے۔الیکٹرک چاہے تو اس قدر بجلی پیدا
کرسکتی ہے کہ کراچی کے عوام لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل کر لیں۔ لیکن ترجیحات
عوام کو سہولتیں، آرام فراہم کرنا نہیں بلکہ جتنا ہوسکے کماؤ اور جیبیں
بھرنا ہے۔
کراچی کے عوام کے اس احتجاج پر سندھ حکومت کا موقف نثار کھوڑو صاحب جو
حکومت کے ایک سینئر وزیر اور ذمہ دار سیاست داں ہیں نے یہ بتا یا کہ حکومت
اس احتجاج کو روکنا یا اس پر تشدد ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی ، کیونکہ
احتجاج کرنے والوں نے شاہراہ فیصل کا انتخاب کیا اس وجہ سے حکومت کو تشدد
کرنا پڑا ، احتجاج کرنے والے اگر جگہ بدل لیتے تو حکومت کو کوئی اعتراض
نہیں تھا، بات وزیر موصوف کی درست ہے اس لیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے
اپنے قیام سے آج تک کبھی شاہراہ فیصل پر کوئی احتجاج نہیں کیا، ریلی نہیں
نکالی ، شاہرہ بلاک نہیں کی، انہیں اس اہم شاہراہ سے گزرنے والوں کی تکلیف
کا بہت احساس اور درد رہا ہے۔ جب کوئی دوسرا ایسا کرتا ہے تو ا س کا شدید
دکھ ہوتا ہے، ان کی طبیعتیں خراب ہونے لگتی ہیں۔ دوسری بات وزیر موصوف نے
یہ فرمائی کہ’ کے۔الیکٹرک والے تو وزیر اعلیٰ کا فون نہیں اٹھاتے‘، گویا
کے۔ الیکٹرک اس قدر طاقت ور اور اثر و رسوخ رکھتا ہے کہ اسے وزیر اعلیٰ کی
بھی پروا نہیں ، اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ کے۔الیکٹرک کی
انتظامیہ یا اس کے مالکان کا اثر رسوخ ، دوستانہ، وزیر اعلیٰ سے بھی بڑی
کسی سیاسی شخصیت سے بہت قریبی ہے ، اسی لیے تو انہیں وزیر اعلیٰ کے فون کال
کی پروا نہیں۔ وزیرتو ہیں ہی کس گنتی میں۔ رہا سوال مرکزی حکومت کا تو
انہیں کراچی سے کیا لینا دینا، انہیں معلوم ہے کہ کراچی والے نون لیگ کے
کبھی تھے نہ کبھی ہوں گے، چاہے ان کا حشر نشر کچھ بھی ہوجائے، شہر کچرا
کونڈی بن جائے، کھنڈر کی صورت اختیار کر لے۔ نون لیگ ہی کیا کئی جماعتوں کی
یہی سوچ ہے۔ وہ کراچی کو ظاہری طور پر تو پچکارتی ہیں لیکن ان کا اندرون
یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی اس قابل کہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی
ہوتی رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کراچی میں
ان کی کیا اسٹینڈنگ رہی ہے، کتنے سیٹیں انہی ملتی رہی ہیں اور کراچی میں
آئندہ کیا کچھ ان کا مقدر ہوگا۔ انہیں اس کی پروا بھی نہیں اس لیے کہ سندھ
میں وہ کراچی کے بغیر حکومت بناتے رہے ہیں اور مستقبل کا نقشہ بھی کچھ اسی
قسم کا دکھائی دے رہا ہے۔ کپتان کی سیاست الگ ہی ہے، وہ کراچی کی سیاسی
جماعتوں پر تنقید کے نشتر تو برساتے ہیں لیکن عملاً کراچی کے لیے کچھ کرتے
دکھائی نہیں دیئے۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ کئی ماہ سے کراچی جس طرح لاوارث
ہوا، یہ اچھا موقع تھا تحریک انصاف کے لیے کہ وہ تیسری بڑی سیاسی قوت ہونے
کے ناطے کراچی کے عوام پر دست شفقت رکھ سکتے تھے، ان کی داد رسی کرسکتے تھے
لیکن شاید وہ بھی اسی گمان میں ہیں کہ کراچی کسی کا نہیں تھا اور نہ ہی کسی
کا ہوگا، اس کا تو اپنا ایک الگ ہی مزاج ہے، ذوالفقار علی بھٹو کا جادو
پورے ملک میں سر چڑھ کر بول رہا تھا لیکن یہ اپنا کراچی نو ستاروں کے گن
گارہا تھا۔اس سے پہلے ایوب خان اور ان کا گلاب کا پھول ہر سو مہک رہا تھا
لیکن کراچی کے عوام کے ہاتھوں میں لالٹین تھی اور مادر ملت محترمہ فاطمہ
جناح کو انہوں نے اپنے کاندھوں پر بیٹھا یا ہوا تھا۔ وقت تو کسی بھی طرح
گزر ہی جاتا ہے۔ کراچی میں کچرے کے ڈھیر آئندہ انتخابات کا اہم موضوع ہوگا،
آصف علی زرداری صاحب نے پنجاب پر تنقید کی تو جواب میں شہباز شریف نے کیا
کہا ؟ ’زرداری صاحب ہماری فکر چھوڑیں کراچی کا کچرا پہلے صاف کریں‘۔ شہباز
شریف کا یہ بیان اہمیت طلب ہے اور 2018کے انتخابات کی سیاسی زبان کی نشان
دہی کررہا ہے۔پنجاب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن سینئر سیاسی رہنماؤں کو یاد
رکھنا چاہیے کہ کراچی ملک کی سیاست کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا
ہے۔ پی پی کے لیڈروں نے پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، پنجاب کو دوبارہ سے
فتح کرنے کی کوششیں جاری ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ پی پی کے رہنما کراچی
کے مسائل اور ابتر صورت حال کا بھی ادراک کریں اور اس کے لیے بھی کچھ کریں۔
زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔ (5اپریل2017) |