اگر انسانی معاشرے کو ایک "جسم" مان لیں تو معاشی دولت اس
جسم کے اندر" خون "کا کردار ادا کرتی ہے، اگر یہ معاشی خون جسم میں برابر
گردش کرتا رہے گا تو اسے صحت مند رکھے گا،اگر یہ معاشی خون کسی حصہ میں کم
اور کسی حصہ میں زیادہ ہوجائے گا تو دونوں حصوں میں تباہی لائے گا۔یعنی جس
حصے میں معیشت کی گردش رک جائے گی وہ انسانی معاشرے کا حصہ غربت و افلاس کا
شکار ہو کر تباہ ہو جائے گا، یہ حقیقت ہے کہ جہاں غربت ڈیرے ڈال دیتی ہے،
جہاں محرومیاں گھر بسا لیتی ہیں وہاں نہ تو اخلاقیات بچتے ہیں اور نہ ہی
فطری ارتقاء، بنیادی صحت،تعلیم،مناسب خوراک، رہائش سے محروم بستیاں تہذیبی
وتمدنی اعتبار سے کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔
اور اسی طرح جب معاشی دولت کی یہ گردش صرف ایک طبقے تک محدود ہو جائے تو
وہاں تعیش اور اسراف ڈیرے ڈال دیتا ہے،سرمائے کے حصول کے لئے رگ مزدور سے
خون نچوڑا جاتا ہے،غریبوں کے خون پسینے پہ محلات کی چکا چوند کو برقرار
رکھا جاتا ہے،سرمایہ پرستی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ جونک
کی طرح معاشرے کے کمزور طبقات کا خون پینا شروع کر دیتا ہے۔معاشی طبقات کے
نتیجے میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ایک طرف انسان روٹی،
کپڑا،مکان، اور دیگر بنیادی ضروریات کو ترستے ہیں اور دوسری طرف دولت عیاشی
پہ بے دریغ لٹائی جاتی ہے۔سرمایہ پرست طبقہ رفتہ رفتہ ملک اور قوم کے تمام
ذرائع پیداوار اوروسائل دولت پہ قابض ہو جاتا ہے، تمام اداروں کو اس طرح
اپنے کنٹرول میں کر لیتا ہے کہ کمزور مزید کمزور اور بے بسی کی تصویر بن
جاتا ہے اور طاقتور مزید طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے،طبقاتی نظام میں خوشی
مسرت،عزت اسے نصیب ہوتی ہے جس کے پاس سرمایہ کی طاقت ہوتی ہے۔عزت اور بڑائی
کا معیار دولت ٹھہرتی ہے، اس طرح طبقاتی معاشی نظام کا کوڑا پوری قوم پہ
برستا ہے اور تباہی و زوال اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا وقار تب بلند ہوتا ہے جب وہ عدل و انصاف کے سائے
میں اپنی زندگی کی شروعات کرتی ہیں، بے انصافی اور محرومیوں کے سائے میں
پیدا ہونے والی اقوام کا انسانی تہذیبی و تمدنی ارتقاء میں کوئی حصہ نہیں
ہوتا۔خالق کائنات کی پیدا کردہ اس کرہ ارض پہ موجود ہر نعمت پہ تمام
انسانوں کا یکساں حق ہے، کوئی فرد ،گروہ یا قوم یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ
دوسرے انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھیں،یا ایسا نظام تشکیل دیں جس سے
انسانوں کی حق تلفی ہوتی ہو۔اگر کسی معاشرے میں ایسے نظام کا تسلط موجود ہو
تو اس وقت اس معاشرے میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے طبقاتی نظام
کو جو انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرتا ہو،کو تبدیل کئے بغیر وہ قوم
فلاح نہیں پا سکتی،اس وقت قوم کی بقاء اسی میں پوشیدہ ہوتی ہے کہ وہ اس
ناسور کو ختم کر دے،جس کی وجہ قوم کے اخلاق،تعلیم، صحت،سب فنا کے گھاٹ اتر
رہا ہو۔لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ظلم اور ظالم کا احساس ہو،جب
معاشرتی خرابیوں اور بربادیوں کے حقیقی سبب کی طرف دھیان جائے، جب تک خود
سے قوم کے اندر بیداری پیدا نہیں ہوتی،اس کے اندر کسی بھی تبدیلی کی توقع
نہیں کی جا سکتی۔نظام ظلم کا ایک اور بھی پہلو ہوتا ہے وہ یہ کہ معاشرہ
انتشار ذہنی میں مبتلا ہو جاتا ہے،نظریات کے اعتبار سے چوں چوں کا مربہ بنا
دیا جاتا ہے،یہ فکری انتشار باقاعدہ پیدا کیا جاتا ہے،اسے پھیلایا اور
مضبوط کیا جاتا ہے،کہیں مذہبی جھگڑے پیدا کئے جاتے ہیں تو کہیں قومیت اور
لسانیت کے تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے۔اس طرح معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے
عمل سے گذارنے کا فائدہ اس نظام ظلم کو ہوتا ہے،لوگ بھوک،پیاس،محرومی، بے
انصافی،حق تلفی،مہنگائی وغیرہ کے اسباب پہ دھیان دینے کی بجائے دیگر
تنازعات اور اختلافات میں الجھ جاتے ہیں یا الجھا دیئے جاتے ہیں۔کہیں دایاں
بازو اور کہیں بایاں بازو کا جھگڑا،کہیں مذہبی فرقہ واریت، تو کہیں صوبائیت
اور لسانیت،آئےدن نت نئے فرقے اور تنازعے کھڑے کئے جاتے ہیں، لوگ مرتے
ہیں،مصروف رہتے ہیں،اور یوں ہی طبقاتی معاشی نظام کا لقمہ اجل بنتے رہتے
ہیں۔ نظام ظلم کے معاشرے پہ بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،ہر فرد،شعبہ،
ادارہ اس کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔لہذا اس سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے کہ
اس کی چالوں کا شعور حاصل کیا جائے، اس ظالم طبقے کی سازشوں کو ناکام بنایا
جائے، جب کہیں فرقہ واریت کی بات ہو، جب کہیں کسی نظریاتی بحثوں میں
الجھانے کی بات ہو، جہاں کہیں انسانوں میں باہمی نفرت پیدا کرنے کی کوشش
ہو، جہاں کہیں کسی بھی نام اور فرقہ کی بنیاد پہ تعصبات کے لئےکام ہو تو
سمجھ لیجئےاس کے در پردہ کون ہے؟اپنے حقوق کو پہچاننے کی ضرورت ہے،اپنے ملک
اور اپنے قومی وسائل کو کرپشن کی نذر ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے۔اصل خرابی
کو دور کئے بغیر اجتماعی بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔جب قوم
میں اجتماعی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اجتماعی جدو جہد ہی سے تبدیلی
پیدا کی جا سکتی ہے۔ |