بابری مسجد تنازعہ نصف صدی سے اوپر کا ہے لیکن ابھی تک اس
کا کوئی تصفیہ نہیں ہوپانا انتہائی حیرت و افسوس کا باعث ہے ۔کسی بھی مسئلے
یا معاملے میں فیصلے کی اس قدر تاخیر بذات خود مسئلے کو مزید الجھادیتی ہے،
آج یہی صورتحال ہمارے سامنے ہے ۔معاملہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے کیونکہ اسے
عقیدے اور آستھا سے جوڑدیا گیا ہے ۔۱۹۴۹سے اٹھے اس تنازعے کو ۶۸برس کا
طویل عرصہ گزرچکا ہے اس دوران مرکز اور اترپردیش میں متعدد سرکاریں بنیں
اور ختم ہوئیں ۔اس نازک اور حساس ترین مسئلے کے حل کیلئے آج تک نہ تو
حکومتیں سنجیدہ نظرآئیں نہ ہی عدالتوں کے ذریعے کوئی مثبت اور مضبوط عملی
اقدام اٹھایا جاسکا ، حالانکہ حکومتوں اور عدالتوں کا قیام ہی اس مقصد
کیلئے ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ان آئین وقوانین کا تحفظ کیا جائے تاکہ اس
کے زور پر ملک کی سالمیت اور امن و انصاف کے استحکام کو مکمل طور پر یقینی
بنایا جاسکے ۔
ملک کی موجودہ صورتحال اور اس نازک ترین تنازعے کے تعلق سے لاپروائی اور
ٹال مٹول ہی اصلا ً اس معاملے کی سنگینی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ایسا نہیں ہے
کہ اب انصاف کا وقت ہی نکل چکا ہے ، انصاف کبھی بھی کیا جاسکتا ہے اور
ہردور میں اور ہر لمحہ اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔آج بھی حقائق کی بنیاد پر کیا
جانے والامنصفانہ عمل ہی لوگوں کو اس تنازعے سے نجات دلا سکتا ہے ۔ایسے میں
عدالت عالیہ کی جانب سے یہ مشورہ دیا جانا کہ دونوں فریقین عدالت کے باہر
باہمی مشورے کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں اچھی بات ضرور ہے لیکن یہ
کوئی نئی بات نہیںہے ، ماضی میں متعدد مرتبہ اس تعلق سے گفت و شنید ہوچکی
ہے لیکن کبھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی ، آپسی افہام و تفہیم کیلئے بھی
سنجیدگی ضروری ہے اور دائرہ ٔ قانون میں رہ کر ہی کسی منطقی انجام تک پہنچا
جاسکتا ہے ۔ا س تعلق سے تاریخی حقائق سب سے زیادہ راہنما ثابت ہوسکتے
ہیںاور اس کی روشنی میں آج بھی یہ مسئلہ بخوبی حل کیا جاسکتا ہے ۔انصاف ،
وقت اور حالات کی نرمی گرمی کا منتظر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے متاثر ہوتا
ہے ۔ اب بھی وقت ہے حکومت اور عدلیہ مل کے ایک پینل متعین کریںجوملک کے
ماہرمورخین پر مشتمل ہو اور یہی پینل حقائق کی بنیاد پر اور بالکل غیر
جانبدارانہ طریقے سے اس بات کا پتہ لگائے کہ اس متنازعہ جگہ پر مسجد کا
قیام کب سے تھا اور دوسرے فریق کے اس الزام کی بھی تحقیق کرے کہ کیا واقعتا
ً ایسا ہوا ہے کہ ماضی میں اس مسجد کی جگہ پر پہلے سے کوئی مندر موجود تھا
؟ ۔اس طرح سے وہ تاریخی پینل بے لاگ لپیٹ ایک رپورٹ تیار کرکے حکومت اور
عدلیہ کے حوالے کردے اور عدلیہ اسی کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنادے ۔
لیکن اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس قضیئے کا فریق ثانی اس بات پر
مصر ہے کہ کچھ نہیں صاحب یہ تو رام جنم بھومی ہی ہے اور یہ ہمارے عقیدے اور
آستھا کا معاملہ ہے یہاں ہم کسی بھی طرح سے مسجد برداشت نہیں کرسکتے اور
ہم تو اس جگہ پر ایک عالیشان مندر ہی بنائیں گے اور اگر کوئی روکاوٹ نظر
آتی ہے تو ہم جلد ہی اس تعلق سے قانون سازی کرکے مندرکی تعمیر کا جواز
حاصل کرلیں گے ۔ظاہر ہے اس طرح کی باتوں کا راست مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ
قانون ، دستور اور تاریخی حقائق سب ثانوی باتیں ہیں ، ہم تو وہی کریں گے جو
ہم چاہیں گے ، ایسے میں حکومت ، پارلیمانی نظام یا عدالتی نظام کی ضرورت ہی
باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس کیفیت میں عدلیہ کا یہ کہنا کہ فریقین عدالت کے
باہر سمجھوتہ کرلیں کتنی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے ۔حالانکہ مسلمانوں کی
جانب سے بار بار یہی کہا جاتا رہا ہے کہ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں
بہر صورت منظور ہوگا ، جبکہ سب جانتے ہیں کہ مقدمے کا دوسرا فریق تسلسل کے
ساتھ یہی کہتا آرہا ہے کہ مندر سے کم دوسرا کوئی فیصلہ ہمیں قطعی منظور
نہیں ۔اب ایسی صورت میں آپسی افہام و تفہیم کی بات ہی بے معنی ہوکر رہ
جاتی ہے ۔
آج ادتیہ ناتھ یوگی اترپردیش کے وزیراعلیٰ ہیں اور نریندر مودی ملک کے
وزیراعظم ہیں جن کے پشت پناہوں میں آر ایس ایس ہے ۔بی جے پی ہے ، وشوا
ہندوپریشد ہے ، بجرنگ دل اور دھرم سنسد ہے اور یہ سبھی رام مندر تحریک اور
اس کی عالیشان تعمیر کے نہ صرف حق میں ہیں بلکہ یہ سب کے سب تحریک کے قوت و
باز و بنے ہوئے ہیں ۔اب کوئی بتائے کہ کمزور و ناتواں مسلمان کیا اس پوزیشن
میں ہیں کہ وہ عدالت کے باہر اس تنازعے پر بات چیت کے ذریعے پیش قدمی
کرسکیں۔افہام و تفہیم کا عمل ہمیشہ برابر کے لوگوں میں ہوتا ہے ۔بے حد
کمزور اور انتہائی طاقت ورکے درمیان دباؤ اور سختی کی کارفرمائی ہوتی ہے
اور اس طرح جو فیصلہ ہوتا ہے اسے آپسی تال میل نہیں کہا جاسکتا بلکہ جس کی
لاٹھی اس کی بھینس والامعاملہ ہوتا ہے جہاں جبر ہوتا ہے ، ظلم ہوتا ہے اور
من مانی ہوتی ہے۔ اس طرح کے فیصلے کم ازکم آج کی مہذب دنیا میں کبھی قابل
تسلیم نہیں سمجھے جاتے ۔
اس صورتحال میں یہ اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ موجودہ بابری مسجد مسئلے کا
فیصلہ خود عدلیہ کرے اور جلد از جلد کرے تاکہ اس ملک میں ہمیشہ کیلئے ایک
ایسی نظیر قائم ہوسکے کہ عدلیہ کسی فریق کی طاقت ،من مانی یا کمزوری کو
نہیں دیکھتی بلکہ اسے حقائق ،ثبوت اور قانون کی بالا دستی عزیز ہوتی ہے اور
تما م تر فیصلے حق کی بنیاد پرکئے جاتے ہیں اور ماضی سے حال تک عدلیہ ایسی
ہی نظیرپیش کرتی آئی ہے ۔ورنہ بصورت دیگر ملک بھر میں بابری مسجد جیسے
ہزاروں قضیئے ہیں جن پر دوسرے فریق دعویدار ہیں اور انہیں وہ عقیدے اور
آستھا سے جوڑرہے ہیں سب پر بابری مسجد کا منصفانہ فیصلہ نظیر بن جائے گا ۔
|