اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
کے زیر اہتمام دنیا بھر میں 7اپریل صحت کے عالمی دن (World Health Day ) کے
طور پر منایا جاتا ہے۔ہر سال اس دن کے لئے علیحدہ موضوع رکھا جاتا ہے ، اس
سال عالمی یوم صحت کا موضوع ڈپریشن ہے۔ اس دن لوگوں میں صحت و صفائی کے
حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف واک، تقاریب اور بیماریوں سے بچنے
اور ان کے بہتر علاج کے طریقوں سے آگاہی کے لیے لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔ بلاشبہ صحت مند زندگی انسان کے لیے انمول نعمت ہے، دنیا کی آسائشیں
اورآرام ایک طرف لیکن صحت نہ ہو تو زندگی خوشیوں سے خالی ہوجاتی ہے۔ انسان
جب تک صحت مند وتندرست رہتا ہے اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات سے محفوظ ہوتا
ہے، اگر خدانخواستہ وہ بیمار ہوجائے تو ساری خوشیاں اور زندگی کی آسانیاں
خاک میں مل جاتی ہیں کیونکہ بیماری کا اثر اس کی پوری زندگی پر پڑتا ہے،
روز مرہ کے معمولات متاثر ہوجاتے ہیں، کام کاج تسلی بخش طور پر سرانجام
نہیں پاتے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ صحت کی خرابی سے انسان
کی زندگی اس کی بیماری کی حدتک محدود ہوجاتی ہے، ایسے میں مریض خود کو
زمانے سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے ، ہمت پست ہوجاتی ہے، ولولہ باقی نہیں رہتا،
زندگی کا لطف، اس کی توانائی اور عزائم ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ اگر طالب علم
ہے تو حصول علم میں دشواری پیش آتی ہے، اگر نوجوان ہے تو ترقی کے میدان میں
قدم بڑھانا مشکل ہوجاتا ہے ، اگر بوڑھا ہے تو اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تندستی کی قدرکا پورا احساس صحت مند لوگوں کو نہیں
ہوتا، بلکہ جو بیمار ہوجاتے ہیں یا کسی حادثہ کا شکار بن کر بستر پر درواز
ہوجاتے ہیں وہی تندرستی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
عالمی یوم صحت 2017 ء کا موضوع ڈپریشن رکھا گیا ہے جو کہ ایک دماغی بیماری
ہے ، ذ ہنی صحت پر جسمانی صحت و تندرستی ، خوشی و راحت کی کیفیت کا
دارومدار ہوتا ہے ، اگر انسان کسی وجہ سے ذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس
کے اثرات پورے بدن پر مرتب ہوتے ہیں ،کیونکہ دماغ ہی انسان کے سارے جسمانی
نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب ہی بہت سی اعصابی،
نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ
دنیا بھر میں تقریباًپچاس کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں،
جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا
ہیں۔ انسانی صحت کا اس کی سوچ سے گہرا تعلق ہوتا ہے اگر انسانی سوچ وفکر
مثبت رہے گی یا وہ منفی رجحان سے اپنے آپ کو بچائے رکھے گا تو اس کا مزاج
بھی مستحکم رہے گا، اور وہ اخلاقی خرابیوں سے بچے گا ، غصہ ، اشتعال،
جذباتیت، بغض، لالچ اور غرور سے بھی دامن بچالے گا۔ تمام انسانوں کی صحت
میں سوچ وفکر کا گہرا تعلق ہے۔ بری سوچ اور عادتیں آدمی کی محفوظ توانائی
کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں نئی توانائی پیدا ہونے میں رکاوٹ بنتی
ہیں اور ان کا براہ راست اثر آدمی کے اعصابی نظام پر مرتب ہوتا ہے۔ تندرستی
کو برقرار رکھنے کے لئے جہاں ہمیں غذا وقت پر لینے کی عادت ڈالنا چاہئے،
وہیں متوازن غذا لینے کی اہمیت بھی سمجھنی چاہئے ۔ انسانی صحت کا چہل قدمی
سے بھی گہرا رشتہ ہے آج مصروف ترین زندگی میں سے تھوڑا وقت نکال کر ہر
انسان چہل قدمی کرکے اپنے جسم کو متناسب رکھ سکتا ہے، واکنگ یا چہل قدمی
ایک ورزش بھی ہے اور یہ آسان عمل ہے جسے ہر عمر کے فرد بآسانی انجام دے
سکتے ہیں۔ یوں تو ورزش کو انسانی زندگی کا ایک اہم جزو ہونا چاہئے، ایک
تندرست جسم کے لئے تھوڑی بہت ورزش لازم ہے لیکن خواتین اس میں زیادہ سستی
برتتی ہیں۔ ماہرین فٹنس چہل قدمی کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے تھکن
کم ہوجاتی ہے او ربیش بہاء فوائد حاصل ہوتے ہیں ، بوڑھے جوان سب کو ہی اپنے
جسموں کو صحت مند رکھنے کیلئے چہل قدمی ضرور کرنا چاہئے۔ یہ ذہنی دباؤ کو
کم کرکے اضافی چربی کو گھلانے میں مدد دیتی ہے، تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا
ہے کہ صحت مند انسان کا تیز چلنا اس کے دل اور پھیپھڑوں کے لئے نہایت مفید
اور امراض قلب کے لئے تریاق کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر انسان کے جسم
سے بیماریوں سے لڑنے کی ایک فطری طاقت ہوتی ہے جس کو قوت مدافعت کہتے ہیں
اس کے ذریعہ انسانی جسم مختلف امراض سے لڑتا ہے، یہ قوت بچوں اور بوڑھوں
میں کمزور ہوتی ہے لہٰذا ان کی صحت پر زیادہ توجہ دینا چاہئے۔ اچھی صحت کا
راز کیا ہے اور انسان تندرست رہے اس کا نسخہ کیمیا کیا ہے، ہمیں اس پر غور
کرنا چاہئے ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صحت بنانے کے لئے اشتہاری
دواؤں کے جال سے، لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ٹی وی اور اخبارات کے
ذریعہ مختلف کمپنیاں اپنی ادویہ کی تشہیر کرتی ہیں، لیکن ایسی دواؤں سے
فائدہ نہیں ہوتا، لہٰذا علاج کے لئے کسی قابل مستند معالج سے رجوع کرنا
چاہئے اور اشتہاری دواؤں احتیاط ضروری ہے، اور نہ اپنی مرضی سے از خود علاج
کرے، کیونکہ ایسے کسی بھی عمل سے فائدہ کے بجائے گہرا نقصان ہوسکتا ہے پھر
ہر انسان کا جسمانی مزاج الگ الگ ہوتا ہے اور سب کے لئے ایک دواکارگر نہیں
ہوسکتی۔ صحت وتندرستی اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور یہ انسان
کی بنیادی ضرورت بھی ہے، ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند انسان ہی معاشرہ کی
بھلائی کیلئے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک
بیمار اور کاہل انسان سے کسی تعمیری فکر یا سرگرمی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پہلے لوگ اپنی صحت کے بارے میں کافی حساس اور محتاط رہتے تھے جبکہ آج کا
انسان اپنی مصروفیات اور گوناگوں مشاغل کے باعث صحت جیسے اہم مسئلے سے
لاپرواہی برت رہے ہیں، پھر آلودہ فضا، ناقص خوراک اور ڈپیریشن نے بھی بہت
اثر ڈالا ہے، ان سب کے باوجود انسان چاہے تو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند
ہوکر اور حفظان صحت کا لحاظ رکھ کر ایک صحت مند گھرانے اور معاشرہ کی بنیاد
رکھ سکتا ہے، صحت ایک ایسی دولت ہے جو صرف توجہ اور احتیاط چاہتی ہے۔
٭……٭……٭ |