عالمی جنگ کے خطرات

اس ترقی یافتہ دور میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ انسان ہوش اُڑا دینے والی ترقی اور جدید سائنسی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد اپنی ہی موت کا سبب بن جائے گا۔ ایک چھوٹی رائفل، پسٹل سے لے کر کلاشنکوف اور پھر میزائل ٹیکنالوجی تک سب کچھ انسان نے اپنے دماغ سے تخلیق کئے مگر کیا کبھی انسان نے سوچا کہ یہ سب کچھ کس کو ختم کرنے کے لئے استعمال ہو گا اور آج کے دور میں گولہ بارود اور یہ جنگی اسلحہ سب کچھ انسان اپنے ہی خاتمے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک بار پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دُنیا عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہر طرف خوف کا عالم ہے۔ دُنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بُری خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان کے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات بھی اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا بھی ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ شام کے مسئلے نے ساری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شام میں بے گناہ انسانوں کے خون کے ساتھ خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں اور عورتوں کو مارا جا رہا ہے۔ شامی انسانوں کو کبھی امریکہ مارتا ہے تو کبھی روس۔ دُنیا پھر دو بڑی طاقتوں کے نرغے میں ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کو امن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ دونوں اپنا اپنا اسلحے کا بڑا ذخیرہ نکالنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف راتوں رات امریکہ شام پر حملہ کرتا ہے تو دُوسری طرف روس اُس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کو روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ بشار الاسد کو للکارنے والوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے مگر دونوں اطراف نقصان صرف اور صرف شامی انسانوں کا ہو رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور بے یارو مددگار ہو جانے والے شامی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے عراق اور لیبیا کا کیا حشر ہوا، مصر میں کیا کچھ ہوا، ایک طرف چین کے صدر شی جن پنگ امریکہ کے دورے پر ہیں دُوسری طرف اگر امریکہ شمالی کوریا کی طرف بڑھتا ہے تو چین کو بڑا اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ شمالی کوریا نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر اُس کی حدود کو کراس کرنے کی کوشش کی گئی تو صورت حال خطرناک ہو سکتی ہے جبکہ امریکہ کا کارل ونزن سٹرائک گروپ نامی بحری بیڑا مغربی بحر الکاہل کی طرف رواں دواں ہے جبکہ امریکہ کے ساڑھے 28 ہزار فوجی پہلے ہی جنوبی کوریا کو تحفظ دینے کے لئے وہاں موجود ہیں۔ حالات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ انسانیت کے لئے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی شمالی کوریا مضبوط ہے یا پھر صرف صدام حسین کی طرف کاغذی شیر ہی ثابت ہوتا ہے۔ دُنیا کی موجودہ صورت حال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کا کردار بڑا اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اُن کو سپر طاقتوں کو یہ باور کرانا چاہئے کہ وہ اپنی ہی تباہی کا سبب کیوں بن رہے ہیں۔ جب کوئی بھی طاقتور کسی کمزور پر چڑھائی کرے گا تو بالآخر کمزور بھی اپنی بقاء کی خاطر کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پاؤں ضرور مارے گا۔ سپر طاقتوں کو شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دُوسروں کے گھروں میں کنکر مارنے کا کوئی حق نہیں۔ اس وقت ساری دُنیا بے پناہ انسانی تباہی کا جدید اسلحہ، بارود اور جنگی سامان خرید رہی ہے اور یہ سب کچھ بیچنے والی طاقتیں خود کو دُنیا کی بڑی طاقتیں تصور کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک گولی چل جانے سے ایک قیمتی انسان ضائع ہو جاتا ہے۔ گولی پھر بن جاتی ہے مگر جو انسان دُنیا سے چلا جاتا ہے وہ پھر واپس نہیں آتا۔ اور اگر دُنیا کی کئی طاقتوں کو شامل کر کے جنگ لڑی جائے اور ایک ایسی جنگ لڑی جائے جس میں دو بڑی سپر طاقتیں شامل ہوں تو پھر اس کے دُنیا بھر پر کیا اثرات ظاہر ہوں گے۔ صرف گذشتہ ہفتے شام کے علاقے خان شیخون میں مبینہ کیمیائی حملے میں 89 افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ ایکس ٹیلرسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں شامی حکومت کو کیمیائی حملہ کرنے سے باز رکھنے میں روس بُری طرح ناکام رہا ہے۔ اس حملے کے بعد امریکہ نے شام پر حملہ کیا اور اُن کا ائیر فورس کا اڈہ تباہ کر دیا۔ ان دو حملوں کی وجہ سے دُنیا کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس جنگ میں دیگر اور ممالک بھی کود پڑیں تو پھر اس کے اثرات کتنے بھیانک ہوں گے۔ شمالی کوریا کی طرف بڑھنے والے قدم اگر وہ روکنا چاہیں تو پھر اس کے کیا اثرات نکلیں گے؟ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنوبی کوریا ترقی کے آسمان کو چھو رہا ہے اور شمالی کوریا میں غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو شمالی کوریا، جنوبی کوریا کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دُنیا میں کسی بھی جگہ کسی پڑوسی ملک کا آپس میں جھگڑا چل رہا ہو تو ایک کو امریکہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ دُوسرے کو روس کی۔ دونوں بڑی طاقتوں کو اُصولاً صلح کی طرف جانا چاہئے مگر یہ صلح کی کوشش کم کرتے ہیں او راپنی سپر طاقت کو آزمانے کی آڑ میں رہتے ہیں۔ اس وقت دُنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ دُنیا بہت خوبصورت ہے۔ اس کو ایک خوبصورت پھول کی طرح ہونا چاہئے۔ اگر اس پھول کو مسل دیں گے تو یہ پھول کبھی خوشبو نہیں بکھیر سکے گا۔ کاش! دُنیا بھر کے عالمی رہنما اس بات کو سمجھ سکتے کہ اصل طاقت امن میں ہے، محبت میں ہے، مسکراہٹیں بکھیرنے میں ہے، لوگوں کی مدد کرنے میں ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
 

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.