از افادات: حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی
نقشبندی(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
حضرت بایزید بسطامی کی سُنیے۔کہتے ہیں مجھے شوق آیا کہ مَیں حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کی عظمتوں کو دیکھوں؛ تو معرفت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ یہ
کون کہہ رہے ہیں؛ حضرت بایزید بسطامی۔ بایزید بسطامی کسی معمولی شخص کا نام
نہیں ہے۔ حضرت داتا علی ہجویری کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ تصوف کے دس
بڑے اماموں میں سے ایک امام کا نام بایزید بسطامی ہے۔ سکر و صحو کی بحث میں
مزید گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ یحیٰ بن معین نے حضرت بایزید
بسطامی کو خط لکھا ۔ اور جو لکھا وہ حالت خود اپنی تھی لیکن جو لکھا بصیغۂ
غیب۔ کہا کہ حضرت اُس شخص کی کیا شان ہے کہ جس نے معرفت کے سمندر سے ایک
گھونٹ پیا اور اتنا نشہ آیا کہ ابھی تک ہوش ہی نہیں آرہی ۔ تو حضرت بایزید
بسطامی نے جو جواب لکھا ؛ حالت اپنی تھی لیکن لکھا بصیغۂ غیب۔ کہا میاں !
تو اس کا حال پوچھتا ہے جس نے ایک گھونٹ پیا اور ابھی تک ہوش نہیں آیا ۔
تُو اس کا حال کیوں نہیں پوچھتا جو پورا سمندر پی گیا پھر بھی ہوش میں پھر
رہا ہے۔ یہ ہے حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ۔
ٍ بسطام سے سفر کرتے ہوئے بارہ سال میں مکۃ المکرمہ پہنچتے ہیں۔ اتنا لمبا
سفر نہیں ہے لیکن اتنی دیر اس لیے لگی کہ ہر قدم پر دو رکعت نماز پڑھتے
تھے۔ بارہ سال میں جب پہنچے اور پہلی نظر کعبۃ اﷲ پر پڑی تو حضرت بایزید
بسطامی نے نگاہیں جھکالیں۔ مریدین نے کہا کہ شوق و وارفتگی کے عالم میں
کہاں سے چلے اب اﷲ کاگھر سامنے ہے جی بھر کے دیکھتے کیوں نہیں؟ تو حضرت
بایزید کہنے لگے اتنی دور سے پتھر دیکھنے تو نہیں آیا ۔ اگر مَیں نے پتھر
ہی دیکھنے تھے تو بسطام میں تھوڑے تھے؟ تو حضرت بایزید بسطامی نے جب دوسری
نظر اُٹھائی کعبہ بھی دیکھا کعبے والا بھی دیکھا۔ لیکن حضرت بایزید بسطامی
نے پھر سر جھکا لیا ۔ مریدوں نے کہا: حضور اب کیا مسئلہ ہے؟ کہا جب وہ نظر
آتا ہے تو درمیان میں پتھر نظر کیوں آتے ہیں؟ اور جب تیسری نظر اٹھائی تو
جدھر دیکھا اسی کے جلوے نظر آئے۔ اس بایزید بسطامی کی کہانی سنا رہا ہوں۔
اقبال بھی خراج پیش کرتا ہے
کاملِ بسطام در تقلید فرد
اجتنا ب از خوردن خربوزہ کرد
ساری زندگی خربوزہ نہیں کھایا حضرت بایزید نے۔ کہ سنت سے خربوزہ تو ثابت ہے
کھانے کے طریقے کی وضاحت نہیں ملتی۔ حضور نے توڑ کے کھایا ہے یا کاٹ کے
کھایا ہے۔ توڑ کے کھانے لگتا خیال آتا کہ کہیں کاٹ کہ نہ کھایا ہو ، کاٹ کے
کھانے لگتے تو خیال آتا کہ کہیں توڑ کے نہ کھایا ہو۔ اس ڈر سے کہ کہیں
سُنتِ رسول کی مخالفت لازم نہ آجائے ساری زندگی خربوزہ ہی نہیں کھایا۔
لوگو! جانتے ہو! بایزید بسطامی کو یہ مرتبہ اور یہ شان و شوکت کیسے ملی کہ
وہ سلطان العارفین بنے؟ کہا
کاملِ بسطام در تقلید فرد
اجتنا ب از خوردن خربوزہ کرد
حضور کی اطاعت کا وہ جذبہ تھا جس نے بایزید کو کہاں سے اُٹھا کر کہاں تک
پہنچادیا۔ یہ ہے مرتبہ حضرت بایزید بسطامی کا۔ ان کے مناقب بہت سارے ہیں۔
حضرت بایزید بسطامی کی یہ روحانی پرواز ہے۔ کہتے ہیں کہ اک دن مجھے شوق ہوا
کہ مَیں حضور کی عظمت دیکھوں۔ تو معرفت کے سمندر میں غوطہ لگایا ۔ جہاں
میری حد ہورہی تھی، جہاں میری منتہاے پرواز تھی، جہاں مَیں ختم ہورہا
تھا،جہاں میری والناس تھی اور آقا کریم کی الم تھی، جہاں مَیں ختم ہورہا
تھا اور مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی شروع ہورہے تھے فاذا بینی و بینھا الف
حجاب من نور میرے نقطۂ انجام اور ادھر نقطۂ آغاز کے درمیان ایک ہزار نور کا
پردہ آگیا۔ اگر مَیں ایک قدم بھی آگے بڑھتا تو جل کر راکھ ہوجاتا ۔ جس نبی
کے قدم اتنے اونچے ہیں اس نبی کا سر کتنا اونچا ہوگا۔
ماخوذ از افاداتِ مصطفائی (زیر ترتیب)
|