فاتح شام و روم امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ !

حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہُ کا اپنا نام معایہؓ تھا اور کنیت ابو اعبدالرحمن ہے ۔ آپ ؓ کا شجرہ نصب پانچویں پشت میں جاکر انحضرت ﷺ مل جاتا ہیں۔ آپ ؓ کے والد ابوسفیان ؓ بھی صحابی تھے ،والدہ کا نام ہندہ ؓ ہے ۔ حضرت امیر معایہ رضی اﷲ عنہُ کا خاندان بنوامیہ زمانہ جاہلیت سے قریش میں معزز چلا آتا تھا ، آپ ؓ کے والد ابو سفیان ؓ قریش کے قومی نظام میں عقاب یعنی علمبرداری کے عہدے پر ممتاز تھے ۔ آپ ؓ کے والد آغاز بعثت سے فتح مکہ تک اسلام کے سخت مخالف رہے تھے ۔ اسلام کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلی ان سب میں ابو سفیان ؓ اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پھر شامل رہیں تھے ، فتح مکہ کے دن حضرت ابوسفیان ؓ اور امیر معاویہ ؓ نے اسلام قبول کیا تھا،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ نے صلح حدیبیہ کے زمانے میں ہی دولت اسلام سے بہرور ہوچکے تھے ، لیکن والد کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ یہاں ایک بات ضروری سمجھتا ہوں کہ ابوسفیان ؓ کی اسلام سے دشمنی کے باوجودامیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کو مسلمانوں سے کوئی خاص عنادنہ تھا ، چنانچہ فتح مکہ سے پہلے بدر اور اُحد وغیرہ کے بڑے بڑے معرکے ہوئے ، مگر کسی بھی معرکے میں امیر معایہ رضی اﷲ عنہُ مشرکین کے ساتھ شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ آپ ؓ کسی جھنگ میں اسلام مخالف لڑھے ہو ، یہ بھی ایک دلیل ہے کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ نے فتح مکہ سے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا ۔ایک حدیث شریف یہاں یاد آئی حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیر رضی اﷲ عنہُ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے امیر معاو یہ رضی اﷲ عنہُ کے حق میں یوں دعا فرمائی :ائے اﷲ ! اس کو راہ راست دکھانے والا اور راہ راست پایا ہوا بنا دیں اور اس کی ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما، (ترمذی شریف )

امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ بالکل اخر میں اسلامی لشکر میں شامل ہوئے تھے ،اس لئے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں کوئی نمایا ں کارنامہ دیکھانے کا موقع نہ مل سکا ، آپ ؓ کے کارنامو کااغاز دور صدیقی میں ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ کے دور خلافت میں شام میں فوج کشی ہوئی ، اس میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کے بھائی یزیدبن ابو سفیان ایک دستے کی قیاد ت کررہے تھے ،اردن کی فتح کے سلسلہ میں جب حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہُ سپہ سالار فوج نے عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہُ کو اردن کی ساحلی علاقہ پر مامور کیا ، ان کے مقابلے کے لئے رومیوں کا انبوہ کثیرجمع ہوا اور قسطنطنیہ سے امدادی فوجیں بھی آئیں ، تو عمرو بن العاص ؓ نے اپنے سپہ سالار ابوعبیدہ ؓ سے مزید امداد کی طلب کی ، اس وقت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہُ نے یزید بن ابوسفیان کو روانہ کیا ، اس امدادی دستہ کے مقدمۃ الحبیش کی کمان امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کے ہاتھ میں تھی ، اس مہم میں آپ ؓ نے کارہائے نمایاں دکھا ئے ، اس کے بعد اس سلسلہ کی تمام لڑایوں میں آپؓ برابر شریک ہوتے رہے ، دمشق کی تسخیر کے بعد جب یزید بن ابوسفیان ، عرقہ، جبیل اور بیروت کے ساحلی علاقوں کی جانب بڑھے تو امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ اس پیش قدمی میں مقدمۃ الحبیش کی رہبری کر رہے تھے ،عرقہ کی فتح میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کا اہم کردار ہیں ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہُ کے دور خلافت میں جب رومیوں نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ جمالیا تھا تو امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ ان رومیوں کو ایک مرتبہ پھر زیر کر کے قبضہ شدہ علاقوں کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کیا ،

یزید بن ابو سفیان نے مذکورہ بالا علاقوں کی تسخیر کے بعد باقی ماندہ علاقہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کو متعین کردیا ،اس کے بعد آپ ؓ نے نہایت آسانی کے ساتھ کفار کے تمام قلعے تسخیر کئے ، جس میں زیادکشت و خون کی نوبت بھی نہیں آئی ، قیساریہ کی مہم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہُ نے خاص کر امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کے سپرد کیا تھا ، آپ ؓ نے نہایت مہارت و کامیابی کے ساتھ یہ معرکہ سر کیا ،عرض یہ ہے کہ دور نبوت کے بعد تمام خلافہ اسلام کے دور میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ تقرباََ ہر معرکے میں شریک ہوئے تھے ، لیکن ان کی تفصیل بہت طویل ہے ، اس کے لئے کئی مضمون درکار ہے ۔ سنہ ۱۸ ھ میں جب یزید بن ابوسفیان کا انتقال ہوا تو امیر المومینین سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہُ نے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کو دمشق کا عامل مقرر کیا ، حضرت عمر ؓ امیر معاویہ ؓ کی اوصاف کی وجہ سے ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے ، امیر معاویہ ؓ کو تدبیر سیاست اورعلوئے کی وجہ سے ‘‘کسرائے عرب ’’ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے حضرت عمرؓ َ ۔امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ دور فاروقی میں چار سال تک دمشق کے حکمران رہے ۔
سنہ ۲۳ ھ میں جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ شہید کردیئے گئے تو خلافت کا تاج سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہُ کے سر سجاء تو حضر ت عثمان رضی اﷲ عنہُ نے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ کی تجربے کو مد دے نظر رکھتے ہوئے ان کوپورے شام کا والی بنا دیا ، شام کی ولایت کے زمانہ میں آپ ؓ نے رومیوں کو کئی معرکوں میں شکست دی ، دور فاروقی میں قصروکسریٰ کی حکومتیں گرچکی تھی تاہم اس وقت تک اسلامی لشکر نے کوئی بھی بحری حملوں میں شرکت نہیں کی تھی سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ نے بحری حملوں کا آغاز کیا ، ساتھ ہی ساتھ بحریہ کو اتنی قوات اور ترقی دی کہ اس دور میں اسلامی بحری بیڑے اس عہد کے بہترین بیڑوں میں شمار ہوا کر تے تھے ۔

امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ نے دور عمر فاروق ؓ میں ہی بحری حملے کی اجازت مانگی تھی ، آپ ؓ شام سے تھوڑی مسافت میں واقعہ ایک نہایت خوبصورت جزیرے پر اسلامی پرچم لہرانہ چاہتے تھے ، اور اس کے لیے آپ ؓ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہُ سے اجازت طلب کی جو نہ ملی ۔ حضرت عمر ؓ اسلامی لشکر کو مزید مسائل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ، لیکن امیر معاویہ ؓکے دل میں یہ خواہش تھی کی اجازت ملے اور میں بحری حملہ کروں ، چنانچہ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہُ کو خلافت ملی اس کے کچھ عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر امیر معاویہ ؓ نے خلیفہ وقت سے قبرص کے سرسبز و شاداب جزیرے پر حملے کی اجازت مانگی تو حضرت عثمانؓ نے بھی منع فرمادیا : امیر معاویہ ؓ کے بار بار اسرار پر امیر المومینین حضرت عثمان رضی اﷲ عنہُ نے اجازت دیدی اور یہ شرط بھی رکھی کہ اپنے ساتھ اپنی بیوی کو لیجانہ ہوگا اور کسی بھی مسلمان کو اس میں شرکت پھرمجبور نہ کرینگے ۔

امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ نے تمام شرطیں منظور کرلی اور سنہ ۲۸ ھ میں نہایت اہتمام کے ساتھ پہلی مرتبہ اسلامی بحری بیڑا اترا اور قبرص کو بغیر خون بہائے تسخیر کرلیا ۔ قبرص والے انتہائی نرم خو تھے اس لئے بغیر جھنگ کے انہوں نے ہتھیا ر ڈالے اور تسلیم ہوگئے ۔ حضر عثمان رضی اﷲ عنہُ کی شہادت کے بعد جب خلافت کا منصف حضرت علی رضی اﷲ عنہُ کے سپرد ہو تو امیر معاویہ ؓ اور علی المرضیٰ ؓمیں کئی معاملات پھر اختلافات سامنے آئے لیکن میں ان میں نہیں پڑتھا ، بس اتنا کہونگا کہ جس طرح ہماری دلوں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہُ محبت ہے ٹھیک اس ہی طرح ہر ہمارے دلوں میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہُ بھی محبت ہے ۔ امیر معاویہ ؓ نے اپنے دور خلافت میں کئی بڑے ریاستوں کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا ، سندھ اور ترکستان کو فتح کیا ، آپ ؓ کو فاتح شام و روم بھی کہا جاتا ہے ۔ امیر معاویہ ؓ کے عہد خلافت ۱۹ برس تین یا چار مہینوں پر محیط تھی ۔۲۲ رجب سنہ ۶۰ ھ میں آپ ؓ کا انتقال ہوا تھا ۔

؂آخر میں حضرت علی رضی اﷲ عنہُ کے اس قول سے اختتام کرونگا ، ائے لوگو معاویہ ؓ کی امارت کو نا پسند نہ کرو اگر وہ نہ رہیں تو تم دیکھوگے کہ بشمارسر اپنی گردنوں سے اندرائن کے پھل کی طرح گر رہے ہونگے ۔

اﷲ ہم سب کو صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چلنے کی اور ان سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا کریں ۔ (آمین)
 

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 94107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.