کسان کا ملکی معیشت میں کردار اور اسکا استحصال

میں بذات خود ایک کسان کا بیٹا ہوں اور میں خود بھی کاشتکاری کی ہے جب میں کاشتکاری کرتا تھا تو اس وقت ہمارے ضلع میں کپاس کا عروج ہوتا تھا اور ہم جب کپاس کاشت کرتے تو اس کیلیے بہت محنت کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ جب گندم کی فصل کاٹ لی جاتی تو پھر زمیں کو. کپاس کی فصل کیلیے تیار کرنا شروع کردیتے اور اس کیلیے پہلے پانی لگاتے پھر ہل لگاتے زمین کو خوب تیار کرتے اور پھر پانی لگاتے اور پھر زمین تیار کرکے کھیلا یا ڈرل کر دیتے اور پھر روزانہ جاکر اگاوں چیک کرتے اور جب اگاوں اچھا ہوتا تو بہت خوش ہوتے کپاس کی دیکھ بھال چھوٹے بچوں کی طرح کی جاتی ہے ہر پندرہ دن یا ہفتے بعد پانی لگاتے کھاد دیتے اور جب فصل کچھ بڑی ہوجاتی تو جون جولای سے سپرے شروع کر دیتے ہم سارا حرچ ادھار پر اٹھاتے اور جب کپاس تیار ہوجاتی تو ڈیلر آتا اور سب کچھ وہ لے جاتا اور ہم پھر اگلی فصل کی تیاری کو لگ جاتے اور آج بھی کسان کی وہی پوزیشن ہے اور کسان کی حالت ن. لیگ کے دور میں. بیت خراب ہوجاتی ہے اور اب ہمارے ضلع میں سات شوگر ملز ہیں اور وہ اپنی من مانی کرتی ہیں انکا بس نہیں چلتا اگر بس چلتا تو کسان کو کچھ بھی نہ دیتے ویسے بھی کچھ نہیں مل رہا اس سال عدالت نے تین ملوں کو سیل کردیا تو سارا بزلہ آر وای کے مل پر ٹوٹ پڑا اور رش کی وجہ سے انھوں نے من مانی شروع کردی اور آ خر میں جو کماد پک جانے اور وزن کم ہونے کی بنا پر کسان کو جو بیس تیس کا اضافی ریٹ ملتا وہ یہ کھا گے کسان معیشت میں ریڑھ کی ہدی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کا استحصال. ڈنکے کی چوٹ پر لیا جا رہا ہے اور کسان کو پھوگ اور مل کا ریٹ بھی نہیں دیتے اور شوگر مل واحد کاروبار ہے دنیا کا جس میں تین حصے بچت اور ایک حصہ خرچ ہے اور ریٹ اس لیے نہیں بڑھا ریے سب شوگر مل مافیا کے مالکان. پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اس لیے جو جس کے جتنا بس میں آتا ہے کسان کو لوٹ. رہا ہے اندیا میں گنے کا ریٹ ساڑھے چار سو روپے من ہے اور چینی ساٹھ روپے کلو جبکہ پاکستان مین ریٹ ایک سو اسی روپے اور چینی ستر روپے کلو غریب کسانوں کی آہ ایک دن سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کو لے ڈوبے گی اور کسان بیچارہ ہے اور اس کے جو نمایندے ہیں وہ بکاو مال ہیں حود مراعات لے جاتے ہیں مگر کسان یونہی سسکیاں بھرتا رہتا ہے اللہ پاک کسان کے مسایل حل کرے اور سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کو کسان کا احساس دے اور وہ اسے بھی انسان سمجھیں کیا کمال کی بات ہے کپاس پیدا کرنیوالا گندم پیدا کرنیوالا چاول پیدا کرنیوالا کماد پیدا کرنیوالے کے پاوں کے جوتے نہیں اور اس کی فصلوں سے چلنے والے کار خانوں کے مالک ارب پتی ہیں. جتنا استحصا ل کرنا ہے کرلوں مگر ایک بات سرمایہ داروں یاد رکھوں. سب کچھ یہی رہے جاے گا ہوسکتا ہے پیچھے تمھاری اولادیں تمھیں یاد بھی نہ کریں اور تمھارے نام کوی ختم قران بھی نہ کریں کہتے ہیں کھاوے گلہ آوے سر کلہ لہزا حکومت اورسرمایہ داروں کو سوچنا ہوگا ورنہ جب کسان کے بچے بھوک سے مرنا شروع ہوے تو وہ ان سرمایہ داروں سے سب کچھ چھین لے گا اللہ پاک کرم کرے ہمارے وطن عزیز پر اور کسانوں پر آمین

Muneer Ahmad Khan
About the Author: Muneer Ahmad Khan Read More Articles by Muneer Ahmad Khan: 303 Articles with 302761 views I am Muneer Ahmad Khan . I belong to disst Rahim Yar Khan. I proud that my beloved country name is Pakistan I love my country very much i hope ur a.. View More