بھارت کو جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں

1948ء میں بھارت نے وادی جموں وکشمیر میں جاری مقامی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے باقاعدہ جارحیت کا ارتکاب کیا۔ وادی جموں وکشمیر کے عوام تب سے بھارتی غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے چلے آرہے ہیں۔ 1948ء سے 1988ء تک وہ پرامن جدوجہد کے ذریعے بھارتی غاصب افواج اور حکام سے اپنا حقِ خودارادیت مانگتے رہے اور وادی پرامن جدوجہد کو بھارتی غاصب افواج نے بزور شمشیر کچلنے کی دیرینہ روش کو برقرار رکھا تو مقبوضہ وادی کے محکوم عوام کی دوسری نسل نے شاخِ زیتون پھین کر اپنے ہاتھوں میں بندوق تھام لی۔غیر جانبدار عالمی مبصرین اسے غیر ملکی جارح افواج کے خلاف مقامی تحریک مزاحمت کا عنوان دیتے رہے۔1988ء کے بعد بھارت نے کشمیری نوجوانوں کی مسلح جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ کیا۔ مقبوضہ وادی کے عوام کی اکثریت ان دونوں قوانین کو کالے قوانین قرار دے کر مسترد کرتی رہی ۔ بھارت حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا اور الٹا پاکستان پر بے بنیاد الزام دھرتا رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی الزام کے برعکس زمینی حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مقبوضہ وادی کے عوام مسلح جدوجہد کے راستے کے مسافر بامر مجبوری بنے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی غاصب افواج اور پیرا ملٹری فورسز نے مظلوم عوام کے خلاف بدترین بہیمانہ مظالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ 28برسوں سے بلاتوقف کرفیو کا نفاذ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں مقامی آبادی بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے اور اسے وسیع اختیارات دینے والے قانون افسپا اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کے پرچم کو اپنے لہو سے گلنار بنا رہے ہیں۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ وادی میں بنیادی انسانی حقوق کے کام کرنے والے کسی بھی عالمی تنظیم کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پر بنیادی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے عالمی ادارے اور آزاد اور غیرجانبدار دانشور بھارتی حکومت سے متعدد بار احتجاج بھی کرچکے ہیں۔اور تو اور برطانوی وزیراعظم وڈیوڈ کیمرون نے 3جنوری 2014ء کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے لئے وسیع اختیارات کے حامل قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ افسپا اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے قانون کے اب دور جدید میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ افسپا کو ہٹانے کے لئے قدم اٹھائے‘ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی انتہائی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ آزادی کی آواز اٹھانے پر ریاستی جبر کے ذریعے لوگوں کو دبانے کی کوشش اوچھے ہتھکنڈے ہیں۔ بھارت عالمی قوانین کی بری طرح دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر میں اپنی سفاکیت اور بہمیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حقوق غصب کرنے اور حق خودارادیت سے انکار کرنے والے بھارت کو جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں۔

اب تو جواہر لعل یونیورسٹی میں کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے واضح کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا مؤقف انتہائی کمزور اور بودا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھارت کی بیسیوں یونیورسٹیوں اور سینکڑوں کالجوں میں زیر تعلیم طلباء کی شکل میں بھارت کا ضمیر بھی بلبلا اٹھا ہے۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ٹیچنگ نہیں بلکہ ریسرچ یونیورسٹی ہے۔ یہاں صرف پی ایچ ڈی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول ک یلئے طلباء داخلہ لیتے ہیں۔اس یونیورسٹی کے طلباء کو بھارت کا دماغ قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت کو اب یہ امر سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کو ہر معاملے کا الزام دے کر وہ حالات کو درست نہیں کرسکتا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جس طرح سے افضل گورو کی برسی کے موقع پر بائیں بازو کی جماعتوں اور دوسرے آزاد خیال طلباء نے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کا ذکر کیا اور افضل گورو کی پھانسی کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا اوہ بھارتی حکمرانوں کے ضمیر پر تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

تقریباً 70سالہ طویل جنگی جنون کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک حریت کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور ہے۔ بجٹ میں اضافے سے بھارت نے صرف ایک ہی ہدف حاصل کیا ہے وہ ہے خطہ کشمیر کو اپنے کنٹرول میں رکھنا۔ اب زیادہ سے زیادہ بھارتی حکمران یہی کرسکتے ہیں کہ آزادی کے طلبگار ایک ایک کشمیری کے سر پر 10,10 بھارتی فوجی مسلط کردیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے اوچھے حربوں سے مقبوضہ وادی میں جاری ناقابل تسخیر تحریک حریت کو کچلا جاسکتا ہے۔ اگر ماضی میں ایسا نہیں ہوسکا تو مستقبل میں بھی بھارتی جنگی جنونی حکمرانوں کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ بھارت میں 1958ء سے نافذ افسپا کا قانون بھی ملک بھر میں جاری حریت پسند تحریکوں کو کچلنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔

یہ ایک ایسا کھلا راز ہے کہ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ بین الاقوامی دہشت گردی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر ہے ۔جب تک یہ مسئلہ آبرومندانہ انداز میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا‘ اس وقت تک پاکستان کشمیری بھائیوں کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے اپنے تقریباً69 برسوں پر محیط موقف پر ڈٹا رہے گا۔ جنوب مشرقی ایشیا کے بے لاگ دانشوروں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ کشمیریوں نے لاکھوں شہداء کی قربانی پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ آزادی سے کم کوئی حل قبول نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیر جس طرح مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کا بنیادی مسئلہ ہے اسی طرح پاکستان کا بھی کور ایشو ہے۔ ناممکن ہے کہ ظلم و ستم کی ارزانی بھی ہو اور امن قیام بھی زمینی حقیقت بن جائے ۔ بین الاقوامی برادری کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت دلائے امن کی آشا کی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کشمیریوں کو ان کا حق خوداختیاریت نہیں دیا جاتا۔ افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے کشمیر کا مسئلہ پہلے حل کیا جائے کیونکہ جنوبی ایشیا اور پورے خطے میں امن صرف کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے قائم ہوگا۔ جب تک مقبوضہ وادی جموں وکشمیر سے ساڑھے آٹھ لاکھ بھارتی غاصب فوجیوں میں سے آخری فوجی تک وہاں سے نکل نہیں جاتا‘ دہلی سرکار کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرنا محض ایک آئی واش ہے۔
Dr Murtaza Mughal
About the Author: Dr Murtaza Mughal Read More Articles by Dr Murtaza Mughal: 20 Articles with 14890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.