فیصلہ پاناما کیس ۔ کیا کھو یا کیا پایا؟

تھا جس کا انتظار وہ شہکار آخر کار آہی گیا۔ جس دھوم دھام سے آیاہم سب نے دیکھا، ملک میں عید کا سما لگ رہا تھا، ہر جانب جوش، شور، جذبہ، قہقہے، اجلاس پر اجلاس، کوئی اسلام آباد میں ااپنے ہمنواؤں کو لیے بیٹھا ہے تو کوئی لاہور میں اپنے متوالوں کے ہمراہ پاناما کے فیصلے پر سوچ بچار اور باہم مشوروں میں مشغول ہے، کوئی کراچی میں بیٹھا تو فٹ پاتھ پرکسی اور مقصد سے ہے لیکن وہاں بھی اسی گھڑی اور اسی وقت کا انتظار ہورہا ہے۔ مرکزی کردار عمران خان، شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے سراج الحق تھے گویا یہ تین حضرات پٹشنرز یعنی مدعی تھے، پٹیشن دائر کی گئی تھی وزیر اعظم پاکستان اور ان کے بچوں کے نام گویا نواز فیملی مدعا علیہان تھی۔یہ کیس عدالت عالیہ کے پانچ معزز جج صاحبان نے چار ماہ تین دن سنا، اس کی کل 36 سماعتیں ہوئیں۔پاناما میں وزیر اعظم کا نام آتے ہی پورے ملک میں کرپشن کی صدائیں گونجنے لگیں، عمران خان یہ معاملا سپریم کورٹ لے گئے ۔ انہو نے نواز فیملی اور اسحاق ڈار پر الزام لگایا تھا کہ انہیں آئین کی شق62 کے تحت کی خلاف ورزی کرنے پر اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا جائے۔گویااس کیس کے اہم کردار بڑے میاں صاحب تھے۔ اس لیے کہ پاناما کیس میں بے شمار لوگوں کے نام تھے لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک اہم اور ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں انہیں اپنی بے گناہی ہر صورت میں دینا چاہیے تھی۔ جو وضاحتیں وہ اسمبلی میں، ٹی وی پر قوم سے خطاب میں، پریس کانفرنسیز میں اور پھر عدالت میں دیتے رہے ان میں واضح طور پر تضاد دکھائی دے رہا تھا ۔ اس وجہ سے یہ کیس اور زیادہ اہمیت اختیار کرتا چلا گیا، رہی سہی کثر ’قطری شہزادے ‘ کے خط نے پوری کردی۔نہیں معلوم یہ مشورہ میاں صاحب کو کس عقل مند نے دیا تھا۔ کیس کو بہت تحمل، سنجیدگی اور اطمینان سے سنا گیا، جس کے بھی وکیل نے جس قدر وقت مانگا جج صاحبان نے فراغ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں دیا۔ ثبوتوں اور دلیلوں کے انبار لگادیے گئے۔ بیچ بیچ میں جو ریمارکس جج صاحبان دیتے رہے ان سے اندازہ ہورہا تھا کہ نواز شریف صاحب دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔

اللہ اللہ کر کے 20 اپریل کی سہہ پہر 2 بجے پاناما کیس اپنے اختتام کو پہنچا۔فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، عمران خان تو عدالت پہنچے لیکن میاں براداران بڑے لوگ ہیں ،وہ از خود عدالت کیسے جاسکتے تھے ۔ انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسلام آباد کے پرسکون ٹھنڈے ماحول میں اپنے خاص مداحین کے ساتھ فیصلہ سنیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا، جو لوگ تصاویر میں میاں صاحبان کے ساتھ دکھائی دیے ان میں ان کی صاحبزادی، کابینہ سے ڈان لیکس کی وجہ سے نکالے ہوئے پرویز رشید، صحافت اور ادب کے بابائے آدم میاں صاحب کے آجکل کے مشیر’ خاصم خاص ‘عرفان صدیقی (’آجکل کے‘ اس لیے کہا کہ ہر دور ہر زمانے میں میاں صاحب کے مشیرانِ خاص بدلتے رہے ہیں) وزیر داخلہ چودھری نثار اور دیگر موجود تھے۔ جوں ہی ٹی وی پر خوشی کی خبر آئی کہ میاں صاحب کی جان بخشی ہوگئی اور پاناما کیس سے بچ گئے نیز انہیں ان کے عہدے سے برخاست کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا ۔ میاں صاحبان اور پوری نون لیگ نے بس یہی کافی جانا ، چھوٹے میاں صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فرطِ جذبات میں مسکراتے چہرے، نم دار آنکھوں کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ بڑے بھائی کی جانب واہ کیے اور ٹھنڈک کو اپنے سینے سے لگا لیا ، شکر اد اکیا کہ ایک نہیں دو کرسیاں سلامت رہیں۔بیٹی بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور وہ بھی اپنے باپ اور چچا کے بیچ آگئی تاکے دونوں کے مابین جس ٹھنڈک کا تبادلہ ہورہا تھا اس سے کچھ فیض وہ بھی حاصل کر لے۔ برابر میں کھڑے دیگر مصا حبین بھی جن میں پرویز رشید ،عرفان صدیقی بھی شامل تھے للچائی نظروں سے بڑے میاں صاحب کے سینے سے لگنے کی خواہش کی تکمیل چاہتے تھے نہیں معلوم وہ پوری ہوئی یا نہیں۔ البتہ چودھری نثار مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ ، ہاتھوں میں ہاتھ دیے کھڑے رہے۔ یقیناًوہ بھی خوش ہوں گے۔عدالت سے باہر نون لیگی صفحہ اول کے لیڈروں کی گلا پھاڑتی، چیخ و پکارکرتی، عمران کو للکارتی اور پھنکاریں مارتی آوازیں ، بعض کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے کپڑے اتار کر مخالفین کی جانب پھینک دے تے۔ اصل میں خوشی ہی اتنی بڑی تھی۔ اس موقع پر کوئی اور سیاسی جماعت ہوتی ، جیسے پیپلز پارٹی تو اس کے جیالوں نے تو زمین و آسمان ایک کردینا تھا۔ زرداری صاحب کو اس قدر موقع ضرور مل گیا کہ انہوں نے بانگ دھل اپنی پریس کانفرنس میں ’نواز شریف چور ہے ‘ کامصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ نعرہ لگایا۔ جس وقت وہ یہ جملہ ادا کررہے تھے ان کی چہرے اور باڈی لینگویج کہے رہی تھی میاں صاحب اس حمام میں ہم ہی نہیں بلکہ آپ بھی ہو۔

بہتر ہوا کے سیاسی جماعتوں نے اپنے متوالوں ، جیالوں اور کارکنوں کو سپریم کورٹ پہنچنے سے منع کردیا تھا ۔ اگر اس عقلمندی کا ثبوت نہ دیا گیا ہوتا تو اس قدر خلقت سپریم کورٹ کا رخ کرتی دکھائی دیتی جتنی عید کے دن نماز پڑھنے لوگ نہیں جاتے۔البتہ اول صف کے سیاست داں صاف ستھرے ، چمکتے دمکتے ملبوس ملبوث اپنے خاص خاص جان نثاروں کے ساتھ کمرہ عدالت پہنچنا ان کی ترجیح نظر آرہا تھا۔ کسی نے کچھ کہا ، کوئی خاموشی اختیار کیے منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ جوں ہی گھڑی نے دو بجائے کمرہ عدالت جہاں مشکل سے سو سوا سو افراد کی گنجائش تھی دگنے اور تگنے لوگ ، گویا کھچا کھچ بھرا ہوا، ہر ایک کی خواہش کہ اسے آگے سے آگے جگہ ملے۔ بقول حامد میر جن لوگوں کو کرسیوں پر بٹھانے کا اہتمام تھا وہ کرسیوں پر تو بیٹھ گئے لیکن انہیں سامنے معزز جج صاحبان نظر نہیں آرہے تھے اس لیے کہ ان کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کے سامنے لوگ کھڑے ہوگئے تھے۔پاناما کے دنگل کو شروع ہوئے مہنیوں ہوگئے تھے۔ جہاں دیکھو اسی کا چرچہ اور اسی کی باز گست سنائی دے رہی تھی۔

فیصلہ آچکا، یہ عجیب فیصلہ ہے کہ دونوں فریق خوش ہیں، دونوں جانب میٹھائی کھائی اور کھلائی جارہی ہے۔ عدالت میں کسی بھی مقدمہ کے دو فریق ہوتے ہیں ، دونوں میں ایک مدعی اور دوسرا مدعا علیہ ہوتا ہے۔ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی درخواست دی ہوئی ہوتی ہے عدالت دونوں میں سے کسی ایک کو حق پر اوردوسرے کو ملزم قرار دیتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت ملزم کو بہ عزت بری کردیتی ہے یا سزا سنا دیتی ہے۔ البتہ طلاق اور بعض مقدمات ایسے ہوتے ہیں جس میں عدالت کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں فریق صلاح کر لیں اور نوبت یہاں تک نہ پہنچے کہ عدالت یہ فیصلہ کرے ۔ پاناما کیس کا فیصلہ کچھ کچھ طلاق اور خلع کا فیصلہ لگتا ہے جس میں عدالت نے دونوں فریقین کو خوب خوب سنا اور دونوں ، تینوں بلکہ تمام فریقین نے جی بھر کے سنا یا،تب ہی تو عدالت کو فیصلہ بھی540صفحات کا لکھنا پڑا۔ فیصلہ کیا ہے اب اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ٹی وی ٹاک شوز، سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس فیصلہ پر جو کچھ بھی آچکا اس کا لب لباب یہ نظر آتا ہے کہ عدالت نے شریف خاندان کو ایک موقع اور دیا اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ دیکھو دو ماہ بعد یہی فیصلہ جو ابھی صرف دو ججوں کا ہے یہ پانچوں کے فیصلے میں بدل بھی سکتا ہے۔’ خدا کرے کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طویل کشمکش ، اذیت ناک صورت حال کے بعد جو فیصلہ سنا یا گیا یا سامنے آیا اس سے فریقین نے کیا سبق سیکھا ؟اس سے بڑھ کر پوری قوم نے اس تکلیف دہ صورت حال سے کچھ سیکھا یا پھر یہ بھی گزرے ہوئے فیصلوں کی طرح ثابت ہوگا اور تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ فیصلہ متفقہ ہے لیکن دو ججوں نے اس سے اختلاف کیا ہے اور تین کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ایک تو یہ بات جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ عدالت اعظمیٰ اس قدر آزاد اور خود مختار ضرور تھی کہ اس کے معزز جج صاحبان نے اپنی دانش میں جو بہتر سمجھا اسے کھلے الفاظ میں بیان کردیا۔ یہ فیصلے یہ بھی سکھاتا ہے کہ انسان کو ہر صورت میں ، بلا ڈر و خوف،حق بات کہنے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ ایک بات جو سامنے آئی کہ اگر ہم چاہیں تو بڑی سے بڑی طاقت کو قانون کے دائرے میں لاسکتے ہیں خواہ وہ ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایک محترم صحافی جو نام کے بھی صحافی ہیں عمل کے بھی لکھا کہ ’ میں نے پانامہ کے ڈارامے پر اپنا یا قوم کا وقت ضائع نہیں کیا تھا۔ عدالت میں سماعت کے آغاز کے بعد کبھی اس موضوع پر ٹی وی پروگرام کیا نہ کبھی عدالت جا کر اپنا وقت ضائع کیا۔ اس بات پر افسوس ضرور ہوتا رہا کہ عمران خان سراج الحق اور شیخ رشید وغیرہ کس بے دردی کے ساتھ اپنا ، قوم کا اور عدالت کا وقت ضا ئع کر رہے ہیںیا پھر پاناما کی وجہ سے کس طرح پاکستان کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹ رہی ہے اور میڈیا میں صرف اسی ڈرامہ بازی کا غلغلہ رہا لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ جو اندازہ لگایا تھا ، وہ درست ثابت ہوا ۔ میں سوچتا رہا کہ اس پہاڑ کو جتنا کھوداجائے اس سے چوہا ہی نکلے گا اور ایسا ہی ہوا‘‘۔ اسی حوالے سے میاں صاحب کے ایک چاہنے والے کالم نگار اور بڑے ادارے کے سربراہ قبلہ عطا الحق قاسمی نے حسب سابق میاں صاحبان کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ایک پوسٹ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ، فرماتے ہیں کہ ایک بہت مزے کی پوسٹ نظر آئی جس میں کہا گیا کہ دلہن کو نو مہینے تک حاملہ قرار دیا گیا، الٹر ساؤنڈ ہوا تو پتہ چلا کہ وہ صرف گیس تھی‘۔ اچھا مزاق ہے۔ اب حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بڑے چینل کے سینئر صحافی کی یہ رائے ہے کہ عدالت اپنا وقت ضائع کررہی تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ معاملا اس قدر غیر اہم اور قوم اور ملک کے مفاد میں نہ ہوتا تو کیا عدالت کے معزز جج صاحبان کے پاس صحافی صاحب سے کم عقل و شعور ہے، کم آگہی ہے کہ انہوں نے اس پٹیشن کو سماعت کے قابل سمجھا اور اس پر اپنا عدالت کا اور قوم کا وقت صرف کیا، اگر کرپشن اورمنی لانڈرنگ کا مسئلہ اتنا ہی غیر اہم تھا تو آپ نے اپنے چینل اور اس میں موجود آپ سے بھی سینئر اینکر پرسنز جیسے حامد میرکومنع نہیں کیا ، چینل سے فارغ ہوجاتے ، کہی اور چلے جاتے، عدالت اعظمیٰ اسے ملک و قوم کے لیے کلیدی اہمیت دے رہی ہے اور آپ منہ پہاڑ کر اسے عدالت کا وقت اور قوم کا وقت ضائع کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ پاناما اتنا ہی غیر اہم ہوتا تو عدالت اعظمیٰ کے پانچ معزز جج صاحبان دل جمعی کے ساتھ، توجہ اور انہماک کے ساتھ ہر گز مدعی اور مدعا علیہان کو نہ سنتے اور اس کیس کا فیصلہ 540صفحات پر مشتمل نہ ہوتا چند صفحات لکھ کر فارغ کر دیا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ اب بھی یہ حتمی فیصلہ نہیں بلکہ یہ ابھی جاری رہے گا، جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی، اس کی رپورٹ یہی عدالت دیکھے گی اور پھر حتمی فیصلہ سامنے آئے گا۔اب یہ دوسرے بات ہے کہ حکومت وقت اپنے خلاف جے آئی ٹی کے معاملے کو اس قدر طول دے کے وقت شہادت قریب آن پہنچے اور حکومت از خود قبل از ’کچھ وقت‘ انتخابات کا اعلان کردے اور یہ فیصلہ اور جے آئی ٹی تاریخ کا حصہ بن جائیں۔ اس فیصلے سے فریقین نے کیا سبق سیکھا یہ بھی اہم ہے لمحہ موجود میں جو کچھ سامنے آیا اور آرہا ہے، ہر کوئی اپنے اپنے موقف پر قائم نہیں بلکہ ڈٹا ہوا ہے۔ دونوں فریقین اور ان کے چاہنے والے صحافی اور اینکر ز، تجزیہ نگار، کالم نگار ، اپنی اپنی رائے پر قائم ہیں۔ عمران خان کے اقدامات کی حمایت کرنے والے اسی طرح فیصلے کو ان کی فتح قرار دے رہے ہیں ، میاں صاحبان کے ہم نوا کالم نگار، تجزیہ نگار بھی اپنی اپنی جگہ وہی موقف لیے نظر آرہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصلہ جو سامنے آیا اس نے میاں صاحبان کو اقتدار کے حق سے محروم نہیں کیا، گویا کرسی سلامت رہی ۔ لیکن اس کے برعکس میاں صاحب اور ان کے عزیز ترین رشتوں کے لیے جے آئی ٹی بناکر انہیں کن کے صف میں لاکھڑا کیاگیا ۔کیا یہ بہت عزت و احترام کی بات ہے؟ زرا سوچئے، فکر کیجئے ۔ اب بھی وقت ہے۔ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے، لوگ ، حکمراں آنی جانی چیزیں ، یہ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے۔ جو وقت گزر رہا ہے اس کی اہمیت ہے ، پاناما ہو یا ڈان لیکس، سرے محل ہوں یا لندن کے فلیٹ یا کوئی اور معاملا تاریخ میں ریکارڈ ہورہا ہے۔ مستقبل میں یہی تاریخ ہوگی۔ تاریخ کو کوئی بدل نہیں سکتا ، مورخ بہت بے رحم ہوتا ہے، وقتی تور پر تو وہ اپنا ہاتھ حولا رکھ سکتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب وہ سچ اگل دیتا ہے اور وہی تاریخ ہوتی ہے۔پاناما کیس کا فیصلہ آگیا لیکن اس نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ، اس نے مستقبل کے حکمراں کو ہوشیار کردیا ہے ، اس نے چوروں، لٹیروں ، کرپشن کرنے والوں کو با آواز بلند یہ پیغام دیا ہے کہ خبر دار قانون کسی بھی وقت اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ اب تو کرپشن کے خلاف عملی اقدام کا آغاز ہوا ، ہمیشہ اچھی امید رکھنی چاہیے انشاء اللہ اس کیس کا انجام ملک و قوم کے حق میں بہتر ہی ہوگا۔(22اپریل2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273582 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More