پاکستان نے نیپال سے تعاون کی تحریری درخواست کی
ہے۔کٹھمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے نے نیپالی وزارت خارجہ کے نام ایک مکتوب
لکھا۔ جس میں پاکستان کے ریٹائرڈ کرنل کی تلاش میں مدد کرنے کے لئے کہا گیا
ہے۔ نیپال حکومت نے اپنی وزارت داخلہ کو فوری ایکشن کی ہدایت دی۔ مگر 10دن
گزرنے کے باوجود کرنل(ر)محمد حبیب ظاہر کے بارے کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ کرنل
ظاہر کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ 2014کو فوج سے ریٹائرہوئے۔ پاکستان میں نجی
کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سی وی آن لائن پوسٹ کی تھی۔ جس
کے بعد مارک تھامسن نامی شخص نے ای میل اور ٹیلفون پر کرنل سے رابطہ کیا۔
انہیں ملازمت کی پیشکش کی۔ جس میں پر کشش تنخواہ اور مراعات شامل تھی۔
انہیں انٹرویو کے لئے نیپال طلب کیا گیا۔جس کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی
فراہم کیا گیا۔ وہ 6اپریل کو عمان ائر لائنز کے زریعے کٹھمنڈو پہنچے۔ جہاں
تریبھون ہوائی اڈے پر ان کا جاوید انصاری نامی شخص نے استقبال کیا۔ اسی دن
وہ کٹھمنڈو سے لمبینی کے لئے روانہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کو نیپال
پہنچنے کے بارے میں آگاہ کیا۔ تب سے ان کے ساتھ تما م رابطے منقطع ہو گئے
ہیں۔ گھر والوں کی پریشانی بڑھی تو انھوں نے بھاگ دوڑ شروع کی۔ پتہ چلا کہ
جس ٹیلیفون نمبر سے کرنل صاحب کے ساتھ رابطہ کیا گیا، وہ برطانیہ کا ہے۔ یہ
بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ٹیلیفون نمبر کمپیوٹر سے منسلک تھا۔ جب کہ جس ویب
سائیٹ’’ سٹارٹ سولوشنز‘‘ پر انھوں نے نوکری کی درخواست دی تھی، وہ ختم کر
دی گئی ہے ۔ویب سائٹ پر کرنل صاحب کو وائس پریذیڈنٹ اور زونل ڈائریکٹر (سیکورٹی)کے
عہدے آفر کئے گئے، جب کہ تنخواہ 3500تا8ہ زار ڈالرتجویز کی گئی ۔ تنگ آئے
اہل خانہ نے حکومت سے رابطہ کیا۔ وزارت خارجہ نے نیپال میں اپنے سفارتخانے
کو اس بارے میں آگاہ کیا اور تلاش کے لئے ہدایات دیں۔ سفارتخانے نے نیپالی
وزارت خارجہ سے رجوع کیا۔ تب سے نیپال سراغرسان پاکستانی ریٹائرڈ فوجی افسر
کو جگہ جگہ تلاش کر رہے ہیں لیکن اب تک انہیں کچھ معلومات حاصل نہیں ہو سکی
ہیں۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں حبیب ظاہر کے بارے
میں کہا کہ وہ مارچ2016میں کلبھوشن کو پکڑنے والی ٹیم میں شامل تھے۔اخبار
میں ممبئی سے رشمی راجپوت نامی نامہ نگار کی رپورٹاسی عنوان سے شائع کی گئی
کہ گمشدہ پاکستانی آپریٹو کلبھوشن کو گرفتار کرنے والی ٹیم میں شامل تھا۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ کرنل 2014کو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد آئی ایس آئی
میں خفیہ آپریشنز کے لئے شامل کیا گیا۔ رپورٹ میں بھارتی سیکورٹی
اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ بھارتی ایجنسیاں عرصہ دراز سے اس کے
پیچھے تھیں۔اخبار کی رپورٹ میں انکشافات کئے گئے ہیں کہ ظاہر کے ساتھ رابطے
میں رہنے کے لئے برطانوی ٹیلیفون نمبر کا استعمال کیا گیا۔ جب کہ پاکستانی
افسر کے ساتھ عمان میں کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔اخبار کے مطابق ظاہر2اپریل
کو عمان پہنچا اور3اپریل کو وہاں سے کٹھمنڈو وارد ہوا۔ وہاں سے اسے اٹھا
لیا گیا۔ بھارتی اخبار کی رپورٹ بھارتی جرم کا اعتراف ہے۔
کرنل (ر)حبیب ظاہرکو نوکری دینے کے لئے نیپال کے سرحدی علاقے میں طلب کیا
گیا۔ یہ لمبینی کا علاقہ ہے۔ جو بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی جائے پیدائش ہے۔
یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ بھارت کی سرحد کے قریب ہے۔ اس لئے
خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستانی سابق فوجی افسر کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں
نے اغوا کر لیا ہے۔ تا کہ انہیں کلبھوشن یادو کی رہائی کے لئے مہرے کے طور
پر استعمال کیا جائے۔ کلبھوشن یادو بھارت کا حاضر سروس فوجی افسر ہے۔ جسے
پاکستانی فوجی افسر کی گمشدگی سے چار دن پہلے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارتی جاسوس کی رہائی کے لئے پاکستان پر دباؤ
بڑھانے کے لئے یہ اغواکاری ہوئی۔ کیوں کہ لمبینی میں سب سے بڑی سرحدی چیک
پوسٹ ہے۔ سونالی پوائینڈ نیپال اور بھارت کے درمیان بڑی سرحدی ٹرانزٹ پوسٹ
ہے۔ جس کے سامنے گورکھپور علاقہ ہے۔ جو بھارتی ریاست یو پی کا سرحدی علاقہ
ہے۔ یو پی میں حال ہی میں بی جے پی نے ریاستی انتخابات میں کلین سویپ کیا
ہے۔ ایک کٹر ہندو شدت پسند اور شرپسند برہم چاری اور یوگی کو اس ریاست کا
وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔ جو مسلم اور پاکستان دشمنی میں اپنا کوئی ثانی
نہیں رکھتا۔ لمبینی کا قصبہ یوپی کے ہی سرحد پر ہے۔ کرنل ظاہر کو آخری بار
لمبینی ہوائی اڈے پر دیکھا گیا تھا۔ خدشہ ہے کہ انہیں نوکری کا جھانسا دے
کر جال میں پھنسایا گیا۔ تا کہ وہاں سے بھارت لے جایا جا سکے۔ کرنل حبیب
ظاہر کے فرزند سعد حبیب ہی بلکہ سبھی کو یقین ہے کہ بھارت نے ہی کرنل کے
اغواء کے لئے نوکری کا ڈرامہ رچایا۔ اس اغوا کے پیچھے رااور دیگر بھارتی
خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ خارج از امکان نہیں۔ کیوں کہ بھارت وزیر خارجہ تک نے
پارلیمنٹ میں اعلانیہ طور پر پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں۔ یہ دھمکیاں کرنل
کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنانے کے بعد دی گئیں۔ مبصرین حٰیران ہیں کہ ایک
سینئر افسر کیسے بھارتی سرحد کے قریب نیپالی علاقے میں نوکری کے لئے پہنچ
گیا۔ اگر چہ اس علاقے میں انٹرنیشنل ریسرچ سنٹر اور میوزم بھی ہے تا ہم یہ
گوتم بدھ کی جائے پیدائش والے مقام کے احاطے میں ہے۔ یہاں دنیا بھر سے بدھ
ازم کے پیروکار آتے ہیں۔ یہ مقام بدھ ازم سے متعلق سیاحت کے لئے معروف ہے۔
یونیسکو نے بھی لمبینی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہوا ہے۔ یہ معلوم
نہیں کرنل(ر)حبیب ظاہر بدھ ازم سے متعلق ریسرچ میں کس حد تک کوئی دلچسپی
رکھتے ہیں۔ لمبینی ہوائی اڈے پر کرنل صاحب کا استقبال جس شخص نے کیا۔ اس کی
سی سی ٹی وی فٹیج بھی نیپالی پولیس کے ہاتھ آگئی ہے۔ نیپالی پولیس تصدیق
کرتی ہے کہ’’ بھیراوا‘‘اہوائی اڈے پر کرنل صاحب کاجس شخص نے استقبال کیا اس
کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ تا ہم یہ شناخت زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کو نیپال حکومت اپنے میڈیا کے زریعے یا انٹرنیشنل میڈیا
پر جاری کرے تو نامعلوم شخص کی شناخت میں کوئی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن قرین
قیاس یہی ہے کہ بھارت کا ہی اس اغوا میں ہاتھ ہے۔ نیپال کی وزارت داخلہ کے
ترجمان کرشنا پانتھی کا کہنا ہے کہ نیپالی پولیس کا سپیشل بیورو تفتیش کر
رہا ہے۔ یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ کرنل لمبینی میں کیوں آئے۔ یہاں ان کے
نام پر کسی ہوٹل میں بھی بکنگ نہیں ہوئی ہے۔ سعد حبیب نے روات راولپنڈی
تھانہ میں ایف آئی آر درج کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ دشمن ملک کے خفیہ
ایجنسی ان کے والد کے اغوا میں ملوث ہو سکتی ہے۔ یہ نیپال کے لئے بھی چیلنج
ہے کہ اس کی سرزمین سے پاکستانی شہری کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے کیسے اغوا
کر لیا۔ نیپال میں غیر ملکی بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔ حکومت پاکستان
کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل در آمد کرے تا کہ دشمن ملک کو واضح پیغام جائے
کہ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کسی بھی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی۔ |