ابھی وہ شریف آدمی اپنی قیمتی گاڑی سے اترکرماحول کاجائزہ
لے رہا تھا کہ اچانک ایک تیزرفتار ٹرک سڑک کنارے پڑاکیچڑہوامیں اچھالتا
ہواوہاں سے گزرگیا ،وہ کیچڑ اُس شریف آدمی کے اُجلے لباس اورسرخ وسپیدچہرے
پر لگا ،یہ منظردیکھ کروہاں بس کے انتظار میں کھڑی ایک اجنبی خاتون نے اس
کیچڑزدہ شخص کے ساتھ اظہارافسوس کیااوراسے فوراً اپنالباس دھونے کامشورہ
دیااورکہا اگراس نے دیرکردی تویہ داغ زندگی بھر نہیں اتر ے گا ۔خاتون کے
مشورے پر اس شریف آدمی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کوئی بات نہیں میں نے
اپنا جوتا توچھینٹوں سے بچالیا ہے ناں۔ محاورہ ''جان جائے پرآن نہ جائے''
اب شاید بدل گیا ہے ،نیا محاورہ''آن نہیں ایان بچاؤ''پیش خدمت ہے۔جس کوایان
عزیز تھی اس نے ایان بچالی اورجس کوآن عزیزہووہ جان کی پرواہ نہیں کرتا ۔کچھ
لوگ دولت ،طاقت اورشہرت کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ''عزت '' سے کوسوں میل دورچلے
جاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے شیراورباب العلم حضرت علی ؑ نے فرمایا تھا،''
جوزمین پربیٹھتے ہیں انہیں گرنے کاڈر نہیں ہوتا'' ۔تخت کادھڑن تختہ ہوتے
ہوئے دیر نہیں لگتی۔تخت اور تابوت کے درمیان بہت مختصرفاصلہ ہے اسلئے ہمارا
ہرفیصلہ انصاف پرمبنی ہوناچاہئے ۔اسلامی ریاست میں اسلامی طرز پرفیصلے کیوں
نہیں ہوسکتے۔تخت اورتہمت کاآپس میں گہراتعلق ہے۔ہمارے ہاں حکمرانوں کی طرف
سے اپنا تخت بچانے کیلئے طاقت اوردولت جھونک دی جاتی ہے لیکن وہ تہمت کاداغ
مٹانے کی بجائے اپنے دامن کو مزید داغدارکرتے چلے جاتے ہیں لیکن اپنے ہاتھ
سے دولت کادامن نہیں چھوڑتے ۔عزت کے معاملے میں اﷲ تعالیٰ اوربندوں کے
معیار مختلف ہیں،ہمارا سچامعبود نیت دیکھتا ہے جبکہ ہم بندے نتیجہ دیکھتے
ہیں۔ہمارے ہاں سرمایہ دار سیاستدان جس نام نہادجمہوریت کوبچانے کی بات کرتے
ہیں اس جمہوریت نے دنیا بھر میں کرپشن کو''جنا''۔بدامنی ،بدعنوانی
اوربدانتظامی جمہوریت کے بچے ہیں۔جمہوریت نے'' سرمایہ دار'' دیے،ان سرمایہ
داروں کی تجوریوں میں ''مایا ''توبھری ہوئی ہے مگران کے'' سر''خالی ہیں
مگرپھر انہیں مخاطب کرتے وقت انگریزی میں سر کہاجاتا ہے۔ اس آدم خورجمہوریت
نے خودکوتواناکرنے کیلئے جمہورکواستعمال اورجمہورکااستحصال کیا۔کوئی مانے
یا نہ مانے مگر پاکستا ن میں فوجی حکمرانوں کے ادوارمیں ترقی جبکہ منتخب
آمروں کے دورحکومت میں کرپشن زیادہ ہوئی۔پرویز مشرف کوقاتل کہا گیا مگر آج
تک کسی نے بدعنوان نہیں کہا۔میاں نوازشریف تین باروزیراعظم منتخب ہوئے
اورہربار انہیں بدعنوان کہاگیا ۔انسان خودغرض،ہوس پرست اورضرورت مندہے،اس
کابنایا نظام انسان کوکچھ نہیں دے سکتا۔جہاں اﷲ تعالیٰ کانظام رائج ہے وہاں
کے باشندوں کیلئے ہمارے مقابلے میں زیادہ آسودگی اورآسانی ہے۔جہاں احتساب
کے آگے بندباندھ دیاجائے وہاں خونی انقلاب کابندٹوٹ جاتا ہے ۔جوفردیاادارہ
احتساب کی راہ میں رکاوٹ بنے گا،عوام اسے اپنی نفرت کے سیلاب سے نابودکردیں
گے۔پاکستانیوں نے جنرل (ر)راحیل شریف کواپنانجات دہندہ سمجھا مگر وہ بھی
منصب پرست نکلے ۔جنرل (ر)راحیل شریف کا این اوسی ا ورپاناما لیک کافیصلہ
ایک ساتھ آیا۔تاریخ کے اوراق میں سبھی'' کردار '' بے نقاب ہوجاتے
ہیں۔پاکستان میں بدعنوانوں کابے رحم احتساب اورستم زدہ عوام کی اشک شوئی
کون کرے گا ۔
عدالتی فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی مزید دوماہ تک میاں نوازشریف اوران کے
دونوں بیٹو ں حسین اورحسن کی مزید تلاشی لے گی لیکن پاناما لیک کی سماعت کے
دوران مریم صفدر کانام بار بار لیا گیا مگر انہیں جے ٹی آئی کے روبروپیش
ہونے کیلئے نہیں کہا گیا۔نا م دیکھیں اورکام دیکھیں۔حضرت حسن ؑ اورشہزادہ
کونین حضرت امام حسین ؑ نے ہمیں حق وصداقت اوریذیدیت کیخلاف مزاحمت کا درس
دیا،اپنے بچوں کے نام حسن وحسین رکھناکافی نہیں ان کا طرز زندگی بھی
اپناناہوگا ۔پاناما لیک کے ڈراپ سین کے بعدشایدڈان لیک میں بھی کسی خاتون
کا نہ آئے ۔میاں نوازشریف کی سیاسی وارث اورسیاسی مستقبل مریم صفدر ہیں
اوراپناسیاسی مستقبل بچا نے کیلئے میاں نوازشریف نے کیا قیمت اداکی یاکس
قسم کاسمجھوتہ کیااس کاجواب تاریخ پرچھوڑدیتے ہیں۔ پاکستان میں ڈیل اورڈھیل
کادوردورہ ہے ۔چاردہائیوں میں چندبڑے چوروں نے دن رات قوم کی کھال اتار ی
اور اب قانون کی گرفت سے بچاؤکیلئے ایک دوسرے کی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔پاکستان
میں محتسب بھی ارباب اقتدار اورفرینڈلی اپوزیشن لیڈرکی مرضی ومنشاء سے لگتا
ہے ،کیاکوئی محتسب اپنے کسی'' محسن ''کااحتساب کرسکتا ہے ۔
پاناما لیک والے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس
آصف سعیدکھوسہ اورجسٹس گلزاراحمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیراعظم میاں
نوازشریف کوصادق وامین تسلیم نہ کرتے ہوئے انہیں نااہل قراردے دیا جبکہ تین
ججوں جسٹس اعجازافضل خان ،جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس شیخ عظمت سعید نے
مزیدتسلی کیلئے جے آئی ٹی بنانے کااعلان کرتے ہوئے دوماہ کے اندر
اندرتحقیقات کرنے کاحکم صادرکردیا ہے تاہم فیصلے کی روسے پانچوں میں کسی
ایک جج نے بھی ملزمان کومعصوم یابیگناہ قرارنہیں دیاتاہم مریم صفدر کوجے
آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کیلئے نہ کہناایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔حالیہ عدالتی
فیصلے کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف سے اپوزیشن قائدین کی طرف سے مستعفی
ہونے کازورداراورباربارمطالبہ ''قطری''نہیں فطری ہے کیونکہ وہ جے آئی ٹی
پراثراندازہونے کی پوزیشن میں ہیں۔یہ واحد فیصلہ ہے جس سے مدعی اورملزم
دونوں فریق خوش ہیں اورفیصلے کے بعد مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے۔فیصلے کے
فوراً بعدونوں فریق اسے سمجھنے سے قاصر رہے۔ عدالت عظمیٰ میں حکمران خاندان
کی تلاشی لی گئی مگربرآمدگی نہیں ہوئی۔ جے آئی ٹی کے کاکام تلاشی کرنانہیں
بلکہ برآمدگی یقینی بناناہے اورظاہر ہے ''برآمدگی'' کے بغیر کسی ملزم
کوسزانہیں دی جاسکتی،اگرعدالت عظمیٰ وزیراعظم کونااہل ڈکلیئر کرتی تویقینا
کہا جاتا کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اوراس فیصلے میں قانونی سقم رہ جاتا
لیکن جے آئی ٹی کی ٹھوس بنیادوں پر تحقیقات ،ناقابل تردید شواہد تک رسائی
اور برآمدگی کے بعد ملزم فریق کو راہ فرارنہیں ملے گی۔دوماہ کی مدت'' عدت''
کی طرح گزرجائے گی ،جے آئی ٹی کوانڈراسٹیمیٹ نہ کیا جائے ۔ابابیل اورہاتھی
کاکوئی جوڑ نہیں لیکن ابابیل کی کنکریوں نے ہاتھیوں کاجوحشرکیا تھا اس کی
آج بھی مثال دی جاتی ہے۔وزیراعظم میاں نوازشریف کی پہلے دونوں ٹانگیں دلدل
میں تھیں اب ان کاپورادھڑ بھی دلدل میں ڈوب گیا ہے۔میاں نوازشریف کے اپنے
انہیں بچانے نہیں بلکہ ڈبونے کے درپے ہیں کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے ا ن
کاراستہ صاف نہیں ہوگا۔حکمران خاندان میں کئی افراد وزرات عظمیٰ کے امیدوار
ہیں۔تاریخ گواہ ہے اقتدار کی ہوس نے'' اتفاق'' کو ''نفاق''میں تبدیل کر دیا
۔
پاناما لیک کاہنگامہ دوماہ طویل اورکٹھن انتظارکے بعد نئے مرحلے میں داخل
ہوگیاہے۔عدالت عظمیٰ سے وزیراعظم میاں نوازشریف کو دوماہ مزید مہلت ملی
مگرکلین چٹ نہیں ملی،یہ مہلت سیاسی طورپرانتہائی مہلک ہوگی ۔حکمران جماعت
اوراس کی قیادت کامزید دوماہ تک میڈیا اور''تھڑا'' ٹرائل ہوگا۔پاناما لیک
کے نتیجہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کے دامن پرجوسیاہ داغ لگا ہے وہ آسانی
سے نہیں دھلے گا۔عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ
سمیت دو جسٹس صاحبان نے وزیراعظم میاں نوازشریف کی نااہلی کی سفارش کردی
مگرباقی تین ججوں نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کاحکم صادرکردیا۔جس
وزیراعظم میاں نوازشریف کوعدالت عظمیٰ نے طلب نہیں کیا جے ٹی آئی کیا اس''
مقبول'' وزیراعظم کواپنے روبر وبیان کیلئے طلب کرپائے گی۔ پاکستان میں اب
تک کئی ''مقبول ''وزیراعظم اقتدارمیں آئے مگرقائدملت لیاقت علی خان کی
شہادت کے بعدسے پاکستانیوں کوکسی'' معقول '' وزیراعظم کاانتظار ہے۔ جسٹس
آصف سعیدخان کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں دونوں قطری مکتوب کو بھی مسترد
کردیے ہیں،ان کاموقف حقیقت کاغماز ہے۔عدالتی فیصلے کے بعدمجموعی طورپر
حکمران جماعت کی اخلاقی پوزیشن بری طرح متاثرہوئی مگرتعجب ہے اس کے باوجود
حکمران جماعت کے حامی اس خفت اورشکست کا جشن منارہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی
قیادت نے اپناموقف تبدیل کرلیا ہے ،افسوس کپتان تول کرنہیں بولتا۔بار بار
بیان بدلنا''تبدیلی''نہیں۔عجلت میں غلطیاں زیادہ سرزدہوتی ہیں۔عمران خان
فیصلہ سننے کے بعد میڈیاکے نمائندوں سے بات کئے بغیر وہاں سے روانہ ہوگئے
تھے ،اگروہ اپنے قانونی وسیاسی مشیروں کے ساتھ مشاورت کے بعدبیان دیاکریں
توانہیں یوٹرن کاطعنہ نہیں سنناپڑے گا۔اس فیصلے کوحکمران جماعت کی جیت
اورتحریک انصاف کی شکست نہیں قراردیاجاسکتا۔نااہلی کی تلواربدستور وزیراعظم
میاں نوازشریف کے سرپرلٹک رہی ہے۔جوائنٹ تحقیقاتی ٹیم (جے ٹی آئی) کودوماہ
کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرنے کاپابندکردیاگیاہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف
علی زرداری ،جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق، مسلم لیگ (قائداعظم ؒ)کے مرکزی
صدروسابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اورعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ
رشیداحمدسمیت تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیوں اورشخصیات نے وزیراعظم میاں
نوازشریف سے اخلاقی طورپرمستعفی ہونے کامطالبہ کردیا ہے۔اس فیصلے سے حکومت
کیخلاف ایک موثراورمنظم سیاسی اتحادکی راہ ہموارہوئی ہے۔ نوابزادہ نصراﷲ
خان مرحوم کی طرح چودھری شجاعت حسین بھی سیاسی جوڑتوڑ کے ماہر اورسیاسی
قوتوں کے درمیان پل کاکرداراداکرسکتے ہیں۔ حکومت کیخلاف سیاسی پارٹیوں
کومتحد کرنے کی جوصلاحیت اورقابلیت اس وقت چودھری شجاعت حسین اورسراج الحق
میں ہے وہ کسی اورمیں نہیں ۔عمران خان بھی اناکی عینک اتاردیں ورزمینی
حقائق کی روشنی میں جذباتی نہیں بلکہ درست اوردوررس سیاسی فیصلے کریں۔اس
فیصلے سے حکمران جماعت کی اخلاقی پوزیشن مزید کمزورہوئی ،مسلم لیگ (ن) کے
جشن نے اسے عوام سے مزید دورکردیا ۔اس فیصلے پرحکمران خاندان کوئی
سلجھاہواسیاسی پیغام دینے میں ناکام رہا ۔عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کے
بعدلوگ یہ سمجھ رہے ہیں پاکستان میں کسی طاقتورکااحتساب نہیں ہوسکتا۔عدالتی
فیصلے کولے کر عوامی سطح پراطمینان اوراعتماد کااظہار نہیں کیا گیا۔اس
فیصلے سے نوازحکومت کیخلاف متحدہ اورموثراپوزیشن معرض وجود میں آئی توعوام
''تحریک نجات'' اس کے پیچھے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔پاکستانیوں کوکسی وزیراعظم
نہیں ایک نجات دہندہ کاانتظار ہے ۔میاں نوازشریف تین بارپاکستان کے
وزیراعظم بنے مگروہ ایک بار بھی پاکستانیوں کے نجات دہندہ نہیں بنے ۔
قبرمیں مال ساتھ نہیں جاتا اعمال ساتھ جاتے اورکام آتے ہیں۔ |