اتنی غریب حکومت....؟

سپریم کورٹ میں جاری ملکی تاریخ کے اہم ترین اور موجودہ حکومت کے لئے کسی حد تک فیصلہ کن مقدمہ کا آخری راﺅنڈ شروع ہوچکا ہے۔ وفاق کے وکیل جن کی چھٹی کی وجہ سے آخری مرتبہ حکومت کو ”مزید“ مہلت دی گئی تھی ان کو اچانک اور چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی وزیر اعظم کا مشیر مقرر کردیا گیا اور اتوار والے دن خصوصی طور پر دفتر لگوا کر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تاکہ وکیل کے تقرر کے لئے کیس میں مزید مہلت حاصل کی جاسکے۔ پوری دنیا اور پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حکومت کے یہ ہتھکنڈے صرف اور صرف مزید وقت حاصل کرنے کے لئے تھے تو حکومت نے ایسا کیسے سوچ لیا یا مشیران باکمال نے کیوں خبردار نہ کیا کہ موجودہ عدلیہ کسی فوجی جرنیل کی باندی نہیں اور نہ ہی اب عدالت پر کسی ”عوامی جرنیل“ یا ”امیر المومنین“ اور اس کی فوج ظفر موج کی چڑھائی سے خوفزدہ ہے۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے حیلے بہانے کئے جارہے تھے اور دوسری طرف عدلیہ کو ”سندھ کارڈ “سے ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں بھی نقطہ عروج کو چھو رہی تھیں۔ ایک مرتبہ پھر ”چمک“ کے پیشگی الزامات لگائے جارہے ہیں، جس طرح موجودہ حکومت کے ”محسن اعظم “مشرف کو خدشہ محسوس ہوا تھا کہ وہ الیکشن کے لئے نا اہل ہوجائیں گے اس لئے انہوں نے اپنے دور آمریت میں دوسری اور آخری بار سپریم کورٹ پر امریکہ کی طرز کا ”پیشگی حملہ“ کردیا تاکہ کوئی طاقت ان کو چیلنج نہ کرسکے، وہ تو اللہ بھلا کرے کالے کوٹوں والوں کا جنہوں نے اپنی جدوجہد سے ایک نئی تاریخ رقم کی اور نہ صرف خود قربانیاں دیں بلکہ پوری قوم کو بھی صف آراء کردیا اور اللہ بھلا کرے کیمروں والوں کا کہ جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر اس تاریخی جدوجہد کو لمحہ بہ لمحہ قوم تک پہنچا کر ان میں حوصلے اور امید کی ایسی روشنی پیدا کردی جس سے ڈر کر اندھیروں کے سوداگر کو ملک چھوڑنا پڑا، بالکل اسی طر ز پر موجودہ حکومت نے پہلے وکلاء میں تفریق پیدا کرنے کے لئے بابر اعوان کو سرگرم کیا جو لاہور میں کسی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے اور ان کی بہترین پلاننگ، صوبائی حکومت یا کم از کم مقامی انتظامیہ، پولیس کے بھرپور تعاون اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی نااہلی کی بناء پر لاہور میں وکلاء پر بدترین تشدد کروایا جو مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت اور عدلیہ کے نام لگا اور مزے کی بات یہ کہ بابر اعوان اس کے خلاف بیانات داغتا رہا۔ یہ سارا ڈرامہ صرف اس لئے سٹیج کیا گیا تاکہ کل کلاں کو اگر چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی طرف سے کسی قسم کی ”سرکشی“ کی جائے اور اس بنیاد پر ان کے خلاف کوئی ”تادیبی“ کاروائی کرنا پڑے تو وکلاء جو عدلیہ بحالی تحریک کے پشتیبان تھے، ان میں اتنی تفریق پہلے ہی پیدا ہوچکی ہو کہ وہ دوبارہ کسی تحریک یا احتجاج کے لئے متحرک نہ ہوسکیں۔

بہرحال وفاق کی درخواست پر سپریم کورٹ کا مزید مہلت سے صاف انکار معاملات کو اسی جانب لے جارہا ہے جس کا اندیشہ و احتمال پہلے ہی حکومت کے ”اعلیٰ“ اذہان میں موجود تھا، چنانچہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا اور نئے وکیل کی تلاش شروع کی گئی، اس موقع پر امیر ترین ”غربا“ کی حکومت کی غربت کے دو پہلو سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ حکومت اتنی غریب ہوگئی کہ اسے لطیف کھوسہ کے علاوہ کوئی اور وکیل اس کی وکالت کے لئے میسر نہ آسکا، گزشتہ روز اچانک خبر سامنے آئی کہ لطیف کھوسہ نے وزیر اعظم کے مشیر برائے آئی ٹی کے عہدہ سے استعفیٰ دیدیا اور اب وہ آج سے شروع ہونے والی سماعت میں وفاق کے وکیل کی حیثیت سے حصہ لیں گے۔ لطیف کھوسہ کے تقرر سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ وہ واقعتاً صدر زرداری کے ”برے وقتوں“ کے اچھے دوست ہیں، حضرت علی ؓ کے قول کے مطابق وہ شخص انتہائی غریب ہوتا ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو، چنانچہ اتنے بڑے بڑے وکلاء کی موجودگی کے باوجود لطیف کھوسہ کے بطور وفاقی وکیل تقرر نے یہ بات ثابت کردی کہ صدر زرداری واقعی ”غریب“ آدمی ہیں، اور تو اور بابر اعوان بھی صدر کے لئے اپنی وزارت ”قربان“ نہ کرسکے۔ دوسری خبر آج کی ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مہلت نہ دینے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست گزشتہ روز (منگل کو) اس لئے دائر نہ ہوسکی کہ اس کی فیس دس ہزار روپے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے پاس نہیں تھی اور جتنی دیر میں فیس کا انتظام ہوا، عدالتی وقت ختم ہوچکا تھا۔ یا اللہ خیر! کیا عجیب اور حیران کن حقیقت ہے کہ کروڑوں ڈالر کے کیس کی پیروی کے لئے ”غربا“ فیس کا انتظام ہی نہ کرسکے، ایسی بات پہلے علم میں ہوتی کہ حکومت کے پاس سیلاب زدگان کی مدد کے بعد دس ہزار روپے کی رقم بھی نہ ہوگی تو یار لوگ چندہ ہی جمع کرلیتے، ان حالات میں سپریم کورٹ کوآئین اور قانون کی بات کرنی ہی نہیں چاہئے بلکہ یہ حکم دینا چاہئے کہ نہ صرف صدر زرداری کو سوئس اکاﺅنٹ کی رقم منافع سمیت دے دی جائے، ان کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات ”غربت“ کی وجہ سے ختم کردئے جائیں، ان کے لئے سیلاب زدگان سے بڑھ کر ملکی و بین الاقوامی سطح پر چندہ اکٹھا کیا جائے اور ان کو کم از کم پندرہ بیس سال کے لئے پاکستان کا صدر رہنے دیا جائے تاکہ وہ اپنی غربت کا ”علاج“ بابر اعوان اور لطیف کھوسہ جیسے عظیم المرتبت ”حکما“ سے کراسکیں....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.