صبح سویرے، یعنی تقریباً گیارہ بجے دفتر جانے کے لئے گھر
سے نکلا تو پہلے ہی چوک پر ٹریفک کو رُکا ہوا پایا، گاڑیاں رکی ہوئی تھیں،
سڑک بلاک تھی۔ میں ابھی گاڑی واپس موڑنے اور کسی متبادل رستے پر جانے کے
بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے مزید گاڑیاں وغیرہ آ گئیں، خالی جگہ
موٹرسائکلوں اور رکشوں وغیرہ نے پر کردی۔ خداخدا کرکے ٹریفک میں حرکت سی
پیدا ہوئی مگر حالات مایوس کن ہی تھے، البتہ اتنی گنجائش بن گئی کہ میں ایک
دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگیا، یہ کام میں نے اپنی صحافتی
حِس کی تسکین کے لئے کیا تھا، تاکہ اس بے ترتیبی کی وجہ معلوم کی جاسکے۔
ٹریفک کے ہجوم میں سے آگے نکلنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ بہت سے لوگ سڑک
پر جمع ہیں، انہوں نے بینر اٹھا رکھے ہیں، کچھ کے ہاتھوں میں کتبے ہیں،
’’سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ نامنظور‘‘ ’’عوام پر لوڈشیڈنگ کی صورت میں ہونے والا
ظلم بند کیا جائے‘‘ ’’بجلی بحال نہ کرنے پر حکومت استعفیٰ دے‘‘ وغیرہ وغیرہ
۔ تحریری کاوشوں کے علاوہ کچھ زبانی معاملات بھی تھے، جن میں ہائے وائے اور
اوئے اوئے وغیرہ جیسے سلسلے جاری تھے۔ گرمی نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا
تھا، تاہم مظاہرین جذباتی دکھائی دیتے تھے۔ کوئی پون گھنٹہ وہاں انتظار
کرنا پڑا،ان ’مظلوموں‘ کی داد رسی کرنے کوئی نہ آیا، احتجاج ختم کرنے کا
نہیں کہا، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کوئی وعدہ نہیں کیا، تاہم کچھ میڈیا والے
کیمرے اٹھائے اپنے فرائض منصبی میں مشغول تھے، اور کچھ انفرادی طور پر
لوگوں کے جذبات پر مبنی پیکیج وغیرہ بنانے میں مصروف تھے تاکہ چینل کا پیٹ
بھرا جاسکے۔
اگلے چوک پر بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، یہاں رش کافی کم
تھا اور ٹریفک بلاک نہیں تھی، دھیرے دھیرے، رک رک کر چل رہی تھی۔ یہاں کیا
مسئلہ تھا؟ یہ جاننے کے لئے گاڑی سے اترنا نہیں پڑا، کیونکہ ٹریفک کی سست
روی نے مسئلہ حل کر دیا تھا۔ یہ لوگ کسی گاؤں سے آئے تھے، قریب ہی آرپی او
کا دفتر تھا، وہاں تک شاید پولیس نے جانے نہیں دیا، یہ لوگ پولیس کے کسی
رویے کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے جمع تھے، یہ مدعی پارٹی تھی، انہیں مظلوم
پار ٹی بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ پولیس ملزم کا ساتھ دینے پر مصّر تھی
کیونکہ وہ پارٹی طاقتور تھی، اور یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ
اپنا قانون، قانون نافذ کرنے والے ادارے (حتیٰ کہ انصاف بھی) ہمیشہ طاقتور
کے ساتھ ہوتا ہے۔ چلتی ٹریفک میں گاڑی چلتی رہی۔ تیسرے اہم چوک پر بھی یہی
مناظر دیکھنے کو ملے۔ سرکاری ملازمین اپنے افسروں کے رویوں سے نالاں تھے،
جنہیں وہ توہین آمیز قرار دے رہے تھے۔ بہت سے کارکنوں کو ملازمت سے فارغ کر
دیا گیا تھا، ان کی بحالی کا مطالبہ بھی ساتھ ہی شامل تھا۔
کمرشل علاقوں سے ہوتے ہوئے اب میرا رخ آبادی کی طرف تھا اور وہیں پر میری
منزل تھی، راستے میں ایک حکومتی سیاستدان کا گھر پڑتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں
کہ وہاں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، کچھ لوگ آرہے ہیں، کچھ لوگ
ٹولیوں کی صورت باہر کھڑے خوش گپیوں میں مصروف ہیں، ڈرائیور حضرات بھی باہر
موجود ہیں۔ میں وہاں بالکل نہ رکتا، مگر گیٹ کے قریب ہی تین چار افراد پر
نگاہ پڑی، ان کا تعلق بھی اپنی برادری سے تھا، وہ بھی یہاں لوگوں کے تاثرات
حاصل کرکے اپنے چینلوں اور اخباروں کے پیٹ کی آگ بجھانے آئے ہوئے تھے۔ گیٹ
کے اندر جشن کا سماں تھا، مٹھائیاں تقسیم ہو رہی تھیں، مقامی لیڈر اور
کارکن ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے تھے، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ، ان کے بچوں
کی تصاویرکے بڑے بڑے فلیکس آویزاں تھے، جن کے نیچے چھوٹی چھوٹی تصاویر
مقامی لیڈروں اور مقامی وزراء وغیرہ کی بھی لگی ہوئی تھیں۔ مبارک بادی کا
یہ ماحول پاناما لیکس کے سلسلے میں کیس کا فیصلہ آنے پر بنایا گیا تھا۔ شام
کو گھر لوٹا تو اہلِ خانہ کے اختلافات آخری حدوں کو چھُو رہے تھے، اختلاف
یہ تھا کہ آج کیا پکایا جائے؟ تین بچے اور اُن کی ماں (خاتونِ اول) کسی
فیصلے پر نہیں پہنچ پارہے تھے کہ پانچواں اور آخری فریق بھی پہنچ گیا۔بہت
بحث ہوئی، نتیجہ نہ نکلا، کوئی بھی دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہ ہوا،
تاہم ہر کسی نے اپنا اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا، رات کو ایک نے اچار کے ساتھ،
دوسرے نے انڈے کے ساتھ ، تیسرے نے بالائی کے ساتھ، چوتھے نے کل کے بچے ہوئے
سالن کے ساتھ اور خاتونِ اول نے اپنی مرضی کے تازہ سالن کے ساتھ کھانا
کھایا، اور سب اپنے اپنے فیصلے پر مطمئن ہو کر سوگئے۔ |