جب سے تعلیم کا معیار زمین بوس ہوا ہے، ڈگریاں بھی
ٹکے ٹوکری ہوگئی ہیں، چند دہائیاں قبل بہت سے حضرات اپنے نام کے ساتھ ’’بی
اے‘‘ لکھتے تھے۔ ’’ایم اے‘‘ لکھنے کا رواج زیادہ پرانا نہیں۔ مگر اب یہ
عالم ہے کہ تعلیمی ڈگری کی کچھ اہمیت جتانی مقصود ہو تو پی ایچ ڈی کہہ کر
کام چلا یا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ خالصتاً تعلیمی ڈگری ہے، اسے کسی بھی کام کی
مہارت کے نام پر سیاست میں بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے
نئے صوبائی صدر امیر مقام نے کہا ہے کہ’’․․․ عمران خان ’یوٹرن ‘ میں پی ایچ
ڈی ہیں ․․․․صوبہ میں تمام عہدے میرٹ پر دیئے جائیں گے ․․․عمران خان پر بات
کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ․․․‘‘۔ عوام کے دلوں میں بسنے کے لئے
سیاستدانوں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے، کامیاب سیاستدان بننے کے لئے جو
اقدام کرنے کی ضرورت ہے ، اُن کی فہرست کافی طویل ہے، ان میں سے ایک یہ ہے
کہ وہ اپنے قائدین کے لئے کس قدر اور کہاں تک آگے جا سکتا ہے، مخالفین کے
بیانات کے شافی جوابات دینا، یا انہیں بیانات کے چکر میں الجھانا بھی ایسا
ہی ایک نسخہ ہے، جس سے کوئی بھی فرد پارٹی لیڈر کی نگاہوں میں آجاتا ہے۔ یہ
ایک بڑا ہُنر ہے، موجودہ سیاسی نظام میں بہت سے سیاستدان اس کی مہارت رکھتے
ہیں۔ یوں جانئے کہ کئی سیاستدان تو مقبول ہی اپنی زباندانی کی بنا پر ہیں،
لوگ ان کی باتیں سننا پسند کرتے ہیں۔مخالف پر بیانی حملہ کرنا اور اس کے
بیانات کا جواب دینا بڑی ذہانت کا بھی کام ہے، اس کے لئے جہاں سوال کا جواب
ضروری ہوتا ہے، وہاں الزامات لگا کر دوسرے کو اپنی مصیبت ڈالنے کی پالیسی
بھی ضروری ہوتی ہے، ایسے میں محاورات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، کیچڑ بھی
اچھالا جاتا ہے، تہمتیں لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اب تو یار لوگ
نچلے درجے کی مغلظات سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
پی ایچ ڈی ہولڈر بہت سے سیاست دان ہیں، ان میں سے بہت سے پارٹیاں بدلنے میں
پی ایچ ڈی ہیں، جنہوں نے کوئی قابلِ ذکر پارٹی نہیں چھوڑی۔ بعض کرپشن میں
پی ایچ ڈی ہیں، جس چیز کو ہاتھ لگایا وہی کمیشن کے روپ میں ڈھل گئی۔ کچھ
باتیں کرنے میں پی ایچ ڈی ہیں، کہ دوسرے کی نہیں سننی، بس اپنی ہی کرتے
جانا ہے۔ امیر مقام نے مسلم لیگ ن میں آکر بھی خوب ترقی کی ہے، ق لیگ میں
بھی وہ مشرف کی ’’کچن کابینہ‘‘ میں شامل تھے، مگر جب مشرف کو اقتدار چھوڑنا
پڑا اور بعد ازاں مسلم لیگ ن اقتدار میں آگئی، تو امیر مقام نے یہاں بھی
اپنا مقام بنا لیا۔ وہ اسمِ بامسمّٰی ہیں، امیر بھی ہیں، اور مقام بنانا
بھی جانتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی صلاحیت ہے جو موجودہ زمانے کے سیاستدانوں کو
ترقی کی نئی نئی راہیں سجھاتی اور دکھاتی ہے۔ امیر مقام ہوں یا کوئی اور،
جو افراد بھی مسلم لیگ ق سے اڑان بھر کر ن لیگ کے دسترخوان پر اترے ہیں،
پہلے سے موجود لوگوں نے ان پر اعتراض ضرور کیا، مگر دبا دبا، کیونکہ اس کے
علاوہ وہ کر کچھ نہیں سکتے تھے، جہاں انہوں نے دیکھا کہ صاحب کا اردہ کسی
کو پارٹی میں لانے کا پختہ ہے تو دل ہی دل میں احتجاج کر کے خاموش ہو لئے۔
امیر مقام کے بارے میں یہ دلیل دی گئی (حالانکہ طاقتور کسی دلیل کا محتاج
نہیں ہوتا) کہ وہ ہمارے بھگوڑے نہیں تھے، سیاست میں نووارد تھے۔
امیر مقام کا یہ کہنا بھی خوب ہے کہ عمران خان سے متعلق بات کرنا، وقت ضائع
کرنے کے مترادف ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ پوری مسلم لیگ ن کو عمران خان کے
بیانات خوابوں میں بھی سنائی دیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ عمران خان کو اہمیت نہیں
دیتے تو وزیراعظم، خادم اعلیٰ اور بہت سے وزراء سمیت پوری ن لیگ مع کارکنان
عمران خان کے خلاف تبصروں وغیرہ میں مصروف ہیں، اپنے حکومتی امور نمٹانے کی
بجائے عمران کے جوابات دینا ضروری جانتے ہیں۔ جہاں تک پارٹی کے تنظیمی عہدے
میرٹ پر دینے کی بات ہے، تو جس طرح خود امیر مقام میرٹ پر صوبہ کے پارٹی
صدر بنے ہیں، (اس نامزدگی پر پارٹی میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں، کیونکہ اس
سے زیادہ کوئی پارٹی لیڈر یا کارکن اور کچھ کر نہیں سکتا)۔ پارٹی میں ٹی وی
ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرنے والے تین چار اسی قسم کے لیڈر بھی
کسی مہربانی کے حقدار ہیں، اس قدر خدمات کا انہیں بھی کچھ صلہ مل جائے،
امیر مقام کو چاہیے تھا کہ اپنے (مشرف دور) کے ساتھی دانیال عزیز کو بھی
ایسا کوئی گُر سکھا دیتے کہ انہیں بھی کوئی مقام مل سکتا۔ |