خلیج کی بڑھتی ہوئی خلیج ……آخرکب تک؟ (پہلی قسط)

اس وقت دنیامیں سب سے زیادہ مصائب میں مبتلامسلمان ممالک ہیں ۔جہاں اغیارکی طرف سے بھرپورمظالم ڈھائے جارہے ہیں وہاں خوداپنے مفادات اورخطے میں برتری حاصل کرنے کیلئے آپس کی خانہ جنگیوں میں اپنے وسائل کوآگ میں جھونکاجارہا ہے۔اس کی واضح مثال خلیج میں ایران اورسعودی عرب کی دن بدن بڑھتی ہوئی مخاصمت ہے جواب بھی کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

گزشتہ جنوری میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اوران کے صاحبزادے نائب ولی عہداوروزیردفاع محمد بن سلمان نے کنگ فیصل ایئر اکیڈمی کی پچاسویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر سعودی عرب نے اپنے فضائی بیڑے میں چندنئے F-15SAsلڑاکا طیاروں کا اضافہ کیا۔ یہ نئے لڑاکا طیارے بوئنگ کے تیار کردہ ایف١٥ طیاروں کا نیا ورژن ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۰۱۱ء میں ساڑھےچارارب ڈالر کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اسے۸۴ نئے F-15SAsطیارے اور۶۸/اپ گریڈ کیے ہوئے F-15S طیارے ملیں گے۔یہ بڑا سودا تھا مگر سعودیوں کے لیے یہ کافی نہ تھا۔۲۰۱۴ء سے سعودی عرب نے٣٠/ ارب ڈالرسے زائد مالیت کے امریکی ہتھیاروں کے آرڈر بھی دے رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ مارچ ٢٠١٥ء میں یمن میں سعودی مداخلت شروع ہونے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے فرانس اور برطانیہ سے بھی٢٢/ ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے ہیں۔ ان تمام خریداریوں کے نتیجے میں سعودی عرب ہتھیاروں کا دوسرا بڑا خریدار بن گیا ہے۔

حال ہی میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک وسیع البنیاد بحث کا اہتمام کیا گیا، جو امریکا سعودی عرب تعلقات کی افادیت کے حوالے سے تھی۔ اس بحث کے دوران دونوں طرف سے دو دو ماہرین نے دلائل دیے۔ بحث کے اختتام پر ایوان میں رائے شماری کرائی گئی تو٥٦فیصد ارکان نے سعودی عرب کواہم اسٹریٹجک پارٹنرقراردیااوریہ کہ اس کی یہ حیثیت برقرار رکھی جانی چاہیے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ سعودی قیادت امریکاسے اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدتی ہے کہ اسے نظر انداز کرناممکن نہیں اوریہ بات بھی یادرکھی جانی چاہیے کہ سعودی عرب جوہتھیارخریدتاہے،اس سے امریکامیں ہتھیاربنانے والے ادارےہزاروں افرادکوروزگارفراہم کرنے کے قابل رہ پاتے ہیں۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب معیاری اور باصلاحیت پارٹنر ہے؟

چند برس قبل ریاض میں اعلیٰ حکام نے محسوس کرنا شروع کیا کہ امریکا کو سعودی عرب کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے سے کچھ زیادہ غرض نہیں۔ اس تصور کے ابھرتے ہی سعودی قیادت نے دفاع کے حوالے سے اپنے نظریے پر نظرثانی شروع کی۔ سعودی عرب کوایران سے امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر غیر معمولی تشویش لاحق تھی۔ بش کے دور میں جب امریکا نے ایران سے بیک ڈور مذاکرات شروع کیے، تب سعودی عرب نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے امریکا خلیج فارس کے خطے میں سعودی عرب کے بجائے ایران کو اپنے مرکزی اتحادی کے روپ میں دیکھنے کا متمنی ہے کیونکہ بارک اوباما کی پالیسی بھی سعودی عرب کو ناراض کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس سے ریاض میں یہ تصور مزید پروان چڑھا کہ امریکا اب ایران کی طرف جھک رہا ہے اور خطے میں اسے زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا چاہتا ہے۔
دی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن(ایرانی جوہری معاہدہ)کوسعودی عرب اورخلیج میں اس کے حلیفوں کوایران کی طرف امریکی جھکاؤپرانہیں یقین ہوگیا کہ اب امریکا سعودی عرب اورخلیج کے دیگرممالک کوپہلی سی اہمیت دینے کے لیے تیارنہیں۔ سعودی قیادت اس نتیجے پرپہنچی کہ اگرامریکی قیادت ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کوکنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی توپھر اسے بھی اپنی مرضی کی راہ پرگامزن ہونے کاحق ہے۔

سعودی قیادت کے رویے میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی خاصی ڈرامائی تھی۔ فرینکلن روزویلٹ کے دور سے سعودی عرب امریکاکواپناقابل اعتماد دوست اور اپنی سلامتی یقینی بنانے کیلئے ہمیشہ امریکا کی طرف دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ تیل کی دولت پرمنحصرتھا۔سعودی عرب سمیت پورے خطے میں تیل کے وسیع ذخائرتھے۔امریکااوریورپ کو تیل کی ضرورت تھی۔ وہ تیل کی سپلائی پرکسی اورخطے کی اجارہ داری یااثرات برداشت کرنے کیلئے تیارنہ تھے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی امریکا سے بڑے پیمانے پرہتھیارخریدکراس شراکت داری کوغیرمعمولی تقویت بخشی۔ سعودی عرب نے امریکاسے بڑے پیمانے پر ہتھیارضرورخریدے مگروہ اپنے حریفوں کودوررکھنے کیلئے طاقت کےاستعمال سے زیادہ سفارت کاری پرزوردیتارہا۔ تیل سے ہونے والی آمدن کوسعودی قیادت نے خطے میں اپنے مفادات مستحکم کرنے کیلئےسیاسی اورسفارتی طورپرخوب استعمال کیا۔

وہ سیاسی اورسفارتی سطح پرجوکچھ کرتارہا،اس کے نتیجے میں ہمیشہ مثبت اثرات رونمانہیں ہوئے۔امریکاسے تعلقات کابہتررہناسعودی عرب کیلئے بہت اہم تھا۔ سعودی عرب اس بات کوسمجھتا تھاکہ امریکاواحدسپرپاورہے،اس لیے اس کی طاقت غیرمعمولی ہے۔ مگرساتھ ہی ساتھ وہ خطے میں اپنے مفادات زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کیلئے وہ سب کچھ کرتارہا،جو لازم تھا۔اس کی واضح مثال ١٩٨٠ء کے عشرے کی ایران عراق جنگ ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے عراق کوکھل کراسلحہ اورمالی امدادفراہم کی مگرجب ١٩٩٠ء میں صدام نے کویت پرحملہ کیاتوسعودی حکمرانوں کواپنے لیے خطرات محسوس ہوئے اور اس نے امریکاکی مددسے صدام کوکنٹرول کرنے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی مگراس کے بعد سعودیوں نے اپنے دفاع کیلئے امریکایاکسی اور ملک پرمکمل انحصارکرناچھوڑدیااورعلاقائی سیاست میں مرکزی کرداراداکرنے پرتوجہ دی۔ خلیجی ممالک سے تعلقات بہتربنائے اوریوں نیادفاعی نظریہ اپنانے کی کوشش کی۔ ادہرجب ایران نے بحرین میں اپناکردارغیرضروری طورپروسیع ترکرکے وہاں کے حکمراں خاندان کومشکلات میں مبتلاکرکے شدید بحران پیداکردیاتو ایسے میں سعودی قیادت کیلئے ناگزیرہوگیاتھا کہ ایران کے اثرات کادائرہ محدود رکھنے پرخاطر خواہ توجہ دے جس کے تدارک کیلئے سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے مل کر٢٠١١ء کے موسم بہار میں بحرین کے سیاسی بحران کو کنٹرول کرنے میں اہم کردارادا کرتے ہوئے وہاں١٥٠٠سعودی سپاہی تعینات کر دیئے۔ بحرین میں سعودی عرب کا کردارکامیاب رہا۔ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسی الخلیفہ کی حکومت سلامت رہی اور بحرین ایرانی اثرات سے محفوظ ہوگیا۔ یہ آخری موقع تھا کہ جب سعودی عرب نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا ایک اہم ہدف حاصل کیا۔ ایران اور سعودی عرب لبنان میں کئی برس تک ایک دوسرے کے مقابل رہے تھے۔ لبنان میں ایران اپنے اتحادی (حزب اللہ ملیشیا)کی وساطت سے سعودی عرب کے اتحادیوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ طاقتوررہا۔ شام کے بحران میں ایرانی غیرمعمولی حدتک ملوث تھے۔ یہ سب کچھ سعودی عرب کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ ایسے میں سعودی عرب نے لبنان میں بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی تاکہ وہاں ایران کے اثرات کادائرہ محدودکیاجاسکے۔(جاری ہے)

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390428 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.