نام و نسب :اسم گرامی سیدہ رفیدہ انصاریہ اور انہیں رفیدہ
الاسلمیہ بھی کہتے تھے ۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر ان کا اسم گرامی جناب رسول
اﷲ ﷺ کی زبان مبارک پر آیا تھا ۔ یہ انصار کی عالم فاضل عورتوں میں سے تھیں
جن کے بارے میں جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا جیسا کہ جناب انس بن
مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حضرات
انصار میرا قبیلہ اور میرا خزانہ ہیں ،اور لوگ بڑھتے بھی رہتے ہیں ،گھٹتے
بھی رہتے ہیں اپنے پر احسان کرنے والوں سے قبول کرو اور ان کی کوتاہیوں سے
در گذرکرو۔ ‘‘
سیدہ رفیدہ رضی اللّٰہ عنہا کا قبول اسلام:سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا مسجد
نبوی شریف میں حضور اکرم ﷺ کے سامنے اسلام لائیں جب عورتیں جناب رسول اﷲ ﷺ
سے اﷲ تعالیٰ اور اسکی اطاعت پر بیعت کر رہی تھیں ۔چنانچہ فرمان باری تعالیٰ
ہے :ترجمہ :’’اے پیغمبر ﷺ جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے
کو آئیں کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی اور نہ چوری کریں گی ، نہ
بدکاری کریں گی،نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں
کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ نہ نیک کاموں میں تمہاری نا فرمانی کریں گی تو
ان سے بیعت لے لو۔ اور ان کیلئے اﷲ تعالیٰ سے بخشش مانگو بیشک اﷲ تعالیٰ
بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘(الممتحنہ 12)
جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان خواتین پر یہ شرط لگائی کہ ان سے ارشاد فرمایا کہ وہ
اپنے خاندانوں سے دھوکہ نہیں کریں گی۔ تو خواتین اس پر حضور اکرم ﷺ سے بیعت
کرکے واپس چلی گئیں ۔اس سلسلے میں امام ا حمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی
مسند میں جناب رسول اﷲ ﷺکی ایک خالہ محترمہ سلمیٰ بنت قیس رضی اﷲ عنہا سے
روایت کی ہے ۔حضو ر اکرم ﷺ کی ان خالہ نے جناب رسول اﷲ ﷺ کے ہمراہ دونوں
قبلوں کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں تھیں۔یہ نجار قبیلے کی خواتین میں سے
ایک تھیں فرماتی ہیں ۔میں جناب رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں انصار کی دوسری
خواتین سے مل کر حضور اکرم ﷺ سے بیعت کے لئے حاضر ہوئی۔ جب حضور اکرم ﷺ نے
ہم پر شرط لگائی کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک نہیں کریں گی نہ
چوری کریں گی نہ زنا کاری کی مرتکب ہوں گی اور نہ اپنی اولاد کو ہلاک کریں
گی اور نہ اپنی طرف سے کسی پر بہتان گھڑیں گی اور نیک کام میں آپ ﷺ کی
مخالفت نہیں کریں گی اور آخر میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا نہ تم اپنے
شوہروں سے دھوکہ کروگی ۔آپ ﷺ کی خالہ محترمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم
نے حضور اکرم ﷺ سے بیعت کی اور واپس چلی آئیں ۔پھر میں نے ان عورتوں میں سے
ایک عورت سے کہا کہ واپس جا کر میری طرف سے جناب رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ کر آؤ
کہ ہمارا اپنے شوہروں سے دھوکہ کرنا کیا ہے ؟فرماتی ہیں اس عورت نے حضور
اکرم ﷺ سے پوچھا تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا (اپنے شوہر سے دھوکہ یہ ہے
) کہ تم اس کا مال لے کر کسی دوسرے کو عطا کر دو۔
مجادوں کی تیمارداری کرنے والی مجاہدہ:جب سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا کی جناب
رسول اﷲ ﷺ سے بیعت مکمل ہو گئی اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فرما دیا
تو نیک اور اعلیٰ اعمال کو اختیار فرمایا اور اپنی ذات کو مسلمان زخمیوں کی
خدمت اور تیمارداری کیلئے وقف کر دیا ۔تو اس سے اعلیٰ و ارفع کام اور کیا
ہو سکتا تھا کہ بے بس زخمی مجاہدوں کی درد سے تڑپتے ہوئے اندوہ اور ستم
رسید وں کی چارہ جوئی کی جائے اور اﷲ تعالیٰ کا کلمہ بلند کرنے والوں کی
خبر گیری کی جائے جو زخمی درد و الم سے تڑپ رہا ہوتا اور وہ موت کے قریب
پہنچا ہوتا ہے ۔تو اس کے لئے محبت کا ایک کلمہ آبِ حیات کا کام دیتا ہے اور
اس کی حوصلہ افزائی کرنا اسے زندگی کے قریب کر دیتا ہے ۔
سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا محبت اور شفقت کے اس کردار میں اپنا نام پیدا کر
رہی تھیں اور ان لوگوں کیلئے جو زخموں کی وجہ سے بستر پر پڑے تڑپ رہے ہوتے
تھے ۔ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤکرتی تھیں۔
غزوہ خندق میں سیدہ رفیدہ کی شمولیت :غزوہ خندق کے موقعہ پر بھی سیدہ رفید
ہ رضی اﷲ عنہا نے اہم کردار ادا کیا ۔جب قریش نے قبائل عرب کو اکٹھا کر کے
ایک عظیم لشکر کی صورت میں مدینہ منورہ پر لاکھڑا کیا ۔وہ مسلمانوں کو سرے
سے ختم کردینا چاہتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ اور مومنوں سے
فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص لشکر کے ساتھ
مومنوں کی مدد فرمائی اور اﷲ کے لشکر کو وہ خود ہی جانتا ہے کہ کتنے ہیں
اور کہاں کہاں ہیں ۔غزوہ خندق کے منظر کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا
گیا ہے۔ترجمہ ’’اے ایمان والو !اﷲ تعالیٰ کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس
نے ) تم پر (اس وقت) کی جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں اور ہم نے ان
پر آندھی بھیجی اور ایسے لشکر نازل کیےٌ جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور
جو کام تم کرتے ہو اﷲ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے اور جب وہ تمہارے اوپر اور
نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت
کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم اﷲ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے
۔وہاں مومن آزمائے گئے اور سخت طور پر ہلائے گئے ۔‘‘(الاحزاب )
یہ آندھی اﷲ تعالیٰ کا ایک لشکر تھا ۔جسے اﷲ تعالیٰ نے قریش اور ان کے
مددگاروں کی تباہی کیلئے بھیجا تھا کہ یہ دن گذارنا ان کیلئے مشکل ہو گیا
ان کے دیگچے الٹ گئے ۔جلتے ہوئے چولھے ٹھنڈے پڑگئے اور ان کی بنیادیں ہل
گئیں اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور آندھی اور مصیبت نے انہیں ہر طرف
سے گھیر لیا اور انہیں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ کریں تو کیا کریں
۔کیونکہ وہ زمینی لشکر کا مقابلہ تو کر سکتے تھے یہ آسمانی لشکر کے سامنے
کیسے ٹھہرتے ۔
جلیل القدر صحابی حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ ہم سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔جسے
امام مالک نے روایت فرمایا ہے کہ کوفے کے ایک نوجوان نے حضرت حذیفہ رضی اﷲ
عنہ سے پوچھا ارے ابو عبد اﷲ کیا تم نے جناب رسول اﷲ ﷺ کو اپنی انکھوں سے
دیکھا ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے ہو تو انہوں نے فرمایا ہاں بھتیجے
۔تو اس نوجوان نے پوچھا ان دنوں تم کیسے عمل کیا کرتے تھے ۔فرمایا اﷲ کی
قسم ہم بہت مشقتیں اٹھایا کرتے تھے ۔تو وہ نوجوان کہنے لگا۔اﷲ تعالیٰ کی
قسم اگر ہم جناب رسول اﷲ ﷺ کو پالیتے تو ہم حضور اکرم ﷺ کو زمین پر نہ چلنے
دیتے بلکہ ہم حضور اکرم ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھاتے پھرتے ۔تو جنا ب حذیفہ
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ارے بھتیجے اﷲ کی قسم ہے ہم نے اپنے آپ کو جناب رسول
اﷲ ﷺ کے ہمراہ غزوہ خندق کے موقعہ پر دیکھا کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے رات کو
تھوڑی دیر نماز ادا فرمائی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا
۔کوئی شخص ہے جو اٹھ کر جائے اور دیکھے کہ وہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور حضور
اکرم ﷺ نے شرط لگائی کہ جب وہ واپس آجائے گا تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل
کرے گا۔ تو کوئی آدمی نہیں اٹھا ۔
پھر جناب رسول اﷲ ﷺ رات کا کچھ حصہ نماز ادا فرماتے رہے ۔پھر ہماری طرف
متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو ہمارے لئے جا کر دیکھے کہ وہ
لوگ کیا کر رہے ہیں؟ تو یہ وعدہ ہے جو شخص یہ خبر لے کر لوٹے گا تو میں اﷲ
تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میرا رفیق ہو تو لوگوں میں سے کوئی
آدمی نہیں اٹھا ۔کیونکہ خطرہ بھی زیادہ اور بھوک بھی زیادہ اور سردی بھی
زوروں پر تھی اور جب کوئی شخص نہیں اٹھا تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے مجھے بلایا
اب تو آپ ﷺ کے بلانے کے بعد اٹھے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا ارے حذیفہ رضی اﷲ عنہ جاؤ اور ان لوگوں میں گھس جاؤ اور دیکھو
وہ کیا کر رہے ہیں اور ہمارے پاس آنے تک کچھ مت کرنا۔
فرماتے ہیں میں چلا گیا اور ان لوگوں میں جا گھمسا اور آندھی اﷲ تعالیٰ کا
لشکر کر رہی تھی جو کر رہی تھی کہ ان کی ہنڈیاں چولھوں پر نہیں ٹھہر رہی
تھیں۔اور نہ ان کی آگ جل رہی تھی ۔نہ خیمے قائم رہ گئے تھے تو ابو سفیان بن
حرب اٹھ کر کہنے لگا ابے قریش کے لوگو اپنے ساتھی کو دیکھ لو کہ کون ہے
یعنی کوئی غیر آدمی تو گھسا ہوا نہیں ہے ۔تو حزیفہ فرماتے ہیں میں نے فورا
اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تم کون ہو ۔تواس نے بتایا
کہ میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں ۔پھر ابو سفیان نے کہا ارے قریش کے لوگو اب
ہمارے لیے یہاں ٹھہرنے کی کوئی کنجائش نہیں رہ گئی ہے ۔کھانے پینے کا سامان
برباد ہو گیا ۔بنو قریظہ ہمیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور ہم نہایت مصیبت میں
مبتلا ہو گئے ہیں ۔اس آندھی نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا ہے ۔جیسا کہ تم
دیکھ رہے ہو ہماری تو ہنڈیاں بھی چولھے پر نہیں ٹھہر رہی ہیں اور ہماری آگ
بھی جلنے سے رہ گئی ہے اور کوئی خیمہ ہمارا سلامت نہیں رہ گیا ہے ۔یہاں سے
نکل چلو یہ لو میں تو جا رہا ہوں۔پھر اپنے اونٹ کی طرف بڑھا جو پاس ہی
بندھا ہوا تھا ۔وہ اس پر بیٹھا اور اس کو ایڑ لگائی۔تو اونٹ تینوں قدموں پر
کودا اور اس کا گھٹنا نہیں کھلا اور وہ اونٹ کھڑے کا کھڑا رہا ۔حضرت حزیفہ
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر جناب رسول اﷲ ﷺ کی ہدایت نہ ہوتی کہ میرے پاس
آنے تک کچھ نہ کرنا تو اگر میں چاہتا تو تیر کے ساتھ اسے ہلاک کر سکتا تھا۔
حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں پھر میں جناب رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں
پہنچا تو آپ ﷺ کھڑے اپنی چادر میں نماز ادا فرما رہے تھے جو حضور اکرم ﷺ کی
کسی زوجہ محترمہ کی منقش تھی ۔جناب رسول اﷲ ﷺ نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے
کجاوہ مبارک میں لے گئے اور مجھ پر اپنی چادر مبارک کا پلو ڈال دیا پھر آپ
ﷺ نے رکوع فرمایا اور سجدہ کیا ۔اور وہ ابھی اسی چادر کے اندر ہی تھے جب آپ
ﷺ نے سلام پھیرا تو میں نے حضور اکرم ﷺ کو پوری خبر سنائی اور قبیلہ عطفان
نے جب سنا کہ قریش نے کیا کیا ہے تو وہ بھی اپنے شہروں کی طرف سدھار گئے
۔اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ترجمہ’’اور جو کافر تھے انہیں اﷲ
تعالیٰ نے واپس بھگا دیا اور وہ اپنے غصے میں(بھر ے ہوئے تھے ) کچھ بھلائی
حاصل نہ کر سکے اور اﷲ تعالیٰ مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہو گیا اور
اﷲ تعالیٰ طاقت ور اور زبردست ہے اور اہل کتاب میں جنہوں نے ان کی مدد کی
تھی انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی تو
کتنوں کو تم قتل کر دیتے تھے اور کتنوں کو قید کر لیتے تھے اور ان کی زمین
اور ان کے گھروں اور ان کے مال و دولت کا اور ان کی زمین کا جس میں تم نے
کبھی پاؤں بھی نہیں رکھا تھا ۔اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس کا وارث بنا دیا اور
اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘(الاحزاب)
سیدہ رفیدہ نے خندق کے قریب ایک خیمہ لگا رکھا تھا ۔جس وقت خندق کے دن حضرت
سعد رضی اﷲ عنہ کو قریش کے ابن العرقہ نامی شخص کا تیررگ میں آلگا تھا ۔ تو
جناب رسول اﷲ ﷺ نے قریب سے ان کو دیکھ بھال کرنے کیلئے خیمہ لگوادیا تھا
۔جناب رسول اﷲ ﷺ جب خندق سے واپس لوٹ کر ہتھیار اتار کر غسل فرمایا تو
جبریل علیہ السلام آ پ ﷺ کے پاس اپنے سر سے غبار جھاڑتے ہوئے آئے اور پوچھا
آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دئیے ہیں واﷲ ہم نے تو نہیں اتارے ہیں ۔ان کی طرف چلیے
جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا تو اب کہا کو جاتا ہے ۔تو جبریل علیہ
السلام نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ فرمایا ۔ تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان سے
اعلانِ جنگ فرمایا اور وہ لوگ جناب رسول اﷲ ﷺ کے حکم پر قلعہ سے نیچے اتر
آئے تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان کا فیصلہ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے سپرد
فرمادیا۔ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں تو ان کے معاملے میں فیصلہ
کروں گا کہ جنگجو قتل کیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنا لیے جائیں اور
ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے جائیں تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا ۔﴿لقد حکمت فیھم بحکم اللّٰہ﴾’’تم نے ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کے
حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت سے اس کی پوری
تفصیل دی ہے ۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں غزوہ خندق کے روز
لوگوں کے پیچھے پیچھے چل پڑی فرماتی ہیں میں نے اپنے پیچھے کچھ آہٹ سنی تو
میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ سعد ابن معاذ اور ان کے بھتیجے حارث بن اوس تھے
جو ایک ڈھال اٹھائے ہوئے تھے ۔فرماتی ہیں میں زمین پر بیٹھ گئی ۔ تو حضرت
سعد گزرے اور انہوں نے لوہے کی ایک زرہ پہنی ہوئی تھی اور زرہ کے اطراف میں
ادھر ادھر سے کڑیاں نکلی ہوئی تھیں تو مجھے اندیشہ ہوا کہ سعد کو ان کڑیوں
کی کمزوری کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے ۔فرماتی ہیں حضرت سعد بڑے ڈیل
ڈول کے دراز قد انسان شخص تھے اور وہ جنگ کا رجز پڑھتے ہوئے جا رہے تھے
۔ترجمہ ’’کاش اونٹ پر جنگ کرنے کا کچھ موقع مل جائے یہ موت کو گلے لگانے کا
کتنا اچھا موقعہ ہے ۔‘‘
فرماتی ہیں میں اٹھ کر ایک باغ میں چلی گئی ۔وہاں کچھ مسلمان موجود تھے میں
نے ۔دیکھا کہ ان میں عمر بن خطاب بھی موجود ہیں اور ان میں ایک شخص خود
پہنے ہوئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے مجھ سے فرمایا تم ادھر کیوں آئی ہو
۔ لگتا ہے واﷲ تم بڑی دلیر ہو ۔ تمہیں کسی خطرے کی کوئی فکر نہیں اگر کچھ
ہو جائے ۔تو فرماتی ہیں وہ مجھے برابر ملامت کرتے رہے ۔یہاں تک کہ میری
خواہش ہوئی کہ اس وقت زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جاؤں ۔تو اس شخص نے
اپنے چہرے سے اچانک خود ہٹایا تو وہ طلحہ بن عبید اﷲ تھے وہ کہنے لگے ارے
عمر رضی اﷲ عنہ تم پر افسوس ہے تم آج تک ایسی ہی باتیں کرتے رہتے ہو ۔اﷲ
تعالیٰ کے سوا بھاگ کر اور بچ کر کوئی کہاں جا سکتا ہے ۔
فرماتی ہیں جناب سعد پر ایک قریشی مشرک ابن عرقہ نے تیر پھینکا اور ان سے
کہنے لگا یہ لو میں ابن عرقہ ہوں تو وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں آکر لگا
اور اس نے رگ کو کاٹ دیا ۔تو اس وقت حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے اﷲ تعالیٰ سے
دعا فرمائی ،اے اﷲ کریم مجھے اس وقت تک مت مارنا جب تک کہ بنی قریظہ کی طرف
سے مجھے اطمینان حاصل نہ ہو جائے ۔فرماتی ہیں بنی قریظہ اور حضرت سعد کل کے
زمانہ جاہلیت میں دوست اور حلیف تھے ۔فرماتی ہیں ان کا زخم درست ہو گیا اور
اﷲ تعالیٰ نے غزوہ خندق کے موقعہ پر مشرکین پر شدید آندھی بھیج دی جس سے اﷲ
تعالیٰ نے مومنوں کو جنگ سے بچالیا اور اﷲ تعالیٰ طاقتور اور زبردست ہے جس
کے نتیجے میں ابو سفیان اور اس کے ہمراہی تو تہامہ کو چلے گئے اور عینیہ بن
بدر اور ان کے ہمراہی نجد کی طرف چلے گئے اور بنو قریظہ واپس لوٹ کر اپنے
قلعوں میں محصور ہو گئے اور جناب رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ منورہ واپس آکر ہتھیا
ر اتار دیئے اور حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کیلئے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ
بنانے کا حکم فرمایا اور سیدہ رفیدہ الاسلمیہ ان کی تیمار داری کیلئے کمر
بستہ ہو گئیں ۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں اس کے بعد حضرت جبریل
علیہ السلام تشریف لائے اور ان کے سامنے کے دو دانتوں پر غبار کی تہہ جمی
ہوئی تھی اور نبی کریم ﷺ سے کہا کہ کیا آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دئیے ہیں اﷲ
تعالیٰ کی قسم ہے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔
بنی قریظہ کی طرف چلیے اور ان سے جنگ کیجئے ۔فرماتی ہیں تو جناب رسول اﷲ ﷺ
نے اپنا جنگی لباس زیب تن فرما لیا اور لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا کہ وہ
نکلیں پھر اپنے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے جو فرماں بردار سن رہا
ہے وہ نماز عصر بنی قریظہ میں جا کر ادا کرے ۔
تو رسول اﷲ ﷺ نکل کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ کا گذر بنی غنم پر سے ہوا اور لوگ مسجد
کے پڑوس میں ہی آس پاس رہتے تھے ۔آپ ﷺ نے ان سے پوچھا تمہارے پاس کوئی شخص
گذرا ہے ؟انہوں نے عرض کیا ہمارے پاس سے دحیۃ الکلبی گذرے ہیں اور دحیۃ
الکلبی کی داڑھی دانت اور چہرہ جبریل امین سے ملتا تھا ۔ فرماتی ہیں کہ
جناب رسول اﷲ ﷺ نے بنی قریظہ کے ہاں پہنچ کر پندرہ دن تک ان کا محاصرہ کیے
رکھا ۔جب ان پر محاصرہ شدید ہو گیا اور جب انہیں مشکل پیش آئی تو ان سے کہا
گیا جناب رسول اﷲ ﷺ کے حکم پر نیچے اتر آؤ تو انہوں نے ابو لبابہ بن عبد
المنذ ر رضی اﷲ عنہ سے مشورہ لیا تو انہوں نے اشارہ سے بتایا کہ تم سب ذبح
کر دیئے جاؤگے تو انہوں نے کہا ہم سعد بن معاذ کے فیصلے کے مطابق اتریں گے
،
تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا اتر آؤ تمہارا فیصلہ سعد بن معاذ رضی اﷲ
عنہ کریں گے تو وہ قلعہ سے نیچے اتر آئے تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان کی قوم کے
کچھ لوگوں کو سیدہ رفیدہ الاسلمیہ کے خیمہ سے انہیں لینے بھیجا ۔تو وہ ایک
گدھے پر سوار لائے گئے جس پر کھجور کے گدے والا پالان پڑا ہوا تھا ۔ اور
قوم نے اس کو گھیر رکھا تھا ۔تو ان (بنو قریظہ) لوگوں نے کہا اے ابو عمرو
ہم ترے حلیف ترے دوست اور کمزور لوگ ہیں اور جو کچھ بھی ہیں تم جانتے ہو
۔فرماتی ہیں کہ انہوں نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جب وہ ان کے گھروں کے
قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میرے لیے وہ وقت آگیا ہے
کہ میں انکے بارے میں فیصلہ کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی
پرواہ نہ کروں ۔فرماتی ہیں جب وہ جناب رسول اﷲ ﷺ کے سامنے پہنچے تو حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اُٹھ کر اپنے سردار کو سواری سے اتارو تو جناب عمر
الفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہمارا سردار تو اﷲ تعالیٰ ہے ۔ حضور اکرم ﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ انہیں سواری سے اتارو تو انہوں نے انہیں اتارا ۔تو جناب
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ کرو حضرت سعد
نے کہا میں ان کے بارے میں فیصلہ دیتا ہوں کہ ان کے جنگجو قتل کیے جائیں
اور ان کی اولاد اور اہل و عیال قیدی بنا لیے جائیں اور ان کے مال مسلمانوں
میں تقسیم کر دیئے جائیں تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے ان کے
بارے میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور ایک روایت
میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا ارے سعد اس ذات گرامی کی قسم
ہے جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ تم نے ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کے
اس حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے
۔فرماتی ہیں پھر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے دعا فرمائی، اے اﷲ کریم اگر تو نے
اپنے نبی ﷺ کے ذمے قریش سے لڑنا کچھ باقی رکھا ہے تو اس کیلئے مجھے زندہ
رکھ اور اگر تم نے حضور اکرم ﷺ اور ان کے درمیان لڑائی کا خاتمہ کر دیا ہے
تو مجھے اپنے پاس بلا لے ۔فرماتی ہیں اس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ کا زخم بہنے
لگا جو درست ہو چکا تھا اور وہ معمولی سا بالی کے ایک چھلے کی طرح دکھائی
دیتا تھا اور حضرت سعد رضی اﷲ عنہ اپنے اس خیمے کی طرف واپس پہنچ گئے جو
جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان کیلئے لگوایا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں پھر جناب رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابو بکر
رضی اﷲ عنہ بھی حضرت سعدرضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچ گئے ۔فرماتی ہیں اس ذات کی
قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے رونے کی
آواز کو حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے رونے کی آواز سے الگ پہچان رہی تھی اور
وہ لوگ آپس میں ایسے تھے جیسے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ۔’’وہ آپس
میں رحمدل ہیں (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اﷲ تعالیٰ کے آگے)
جھکے ہوئے سر بسجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ان کے
یہی اوصاف تورات میں (مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔‘‘(الفتح)
حضرت علقمہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اماں جان جناب رسول اﷲ ﷺ(ایسے غم کے
موقعوں پر ) کیسے فرمایا کرتے تھے ۔انہوں نے فرمایا حضور اکرم ﷺ کی آنکھ
کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھی ۔لیکن آپ غمناک ہوتے تو آپ ﷺ داڑھی کو ہاتھ میں
لے لیتے۔
حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کو رفیدہ کے خیمہ میں رکھ دو جو مسجد میں بنایا گیا ہے
تاکہ میں نزدیک سے ان کی عیادت کرتا رہوں اور سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا حضرت
سعد رضی اﷲ عنہ کی تیمار داری پر کمر بستہ رہیں اور ہر طرح سے جہاں تک ان
سے ہو سکا ان کا خیال رکھتی رہیں اور ان کے دکھ درد کو کم کرنے کی کوشش
کرتی رہیں اور وہ اس با ت پر قابل رشک ہیں کہ وہ صبح و شام جناب رسول اﷲ ﷺ
کی زیارت سے شاد کام ہوتیں کیونکہ جناب رسول اﷲ ﷺ روزانہ صبح و شام خیمہ
میں حضرت سعد کا حال پوچھنے تشریف لایا کرتے تھے اور ان سے ارشاد فرماتے
:’’سعد صبح کیسی ہوئی اور شام کے وقت حضور اکرم ﷺ ان سے فرماتے سعد شام
کیسی ہوئی اور جناب سعد رضی اﷲ عنہ جواب میں کہتے الحمد ﷲ بخیرا یا رسول اﷲ
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے ۔ یا رسول اﷲ ﷺ میں خیریت سے ہوں۔‘‘
تو اس طرح سے اپنے اس عظیم عمل کے صدقے میں سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا دن میں
دو مرتبہ جناب رسول اﷲ ﷺ کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی فرماتیں اور سیدہ
رفیدہ رضی اﷲ عنہا اپنے اس نیک عمل پر کسی تعریف اور مدح سرائیں کی خواہاں
نہیں تھیں۔نہ کسی کی شکر گذاری چاہتی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اﷲ
تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کے عمل ضائع نہیں فرماتا ہے اور اس نیک عمل کے
بدلے میں زخمیوں اور مریضوں کے ہونٹو ں پر مسکراہٹ دیکھنا ہی کافی ہو جاتا
تھا ۔ اور ان کی صحت مسکراہٹ کو دیکھ کر ہی ان کی یہ خدمت ٹھکانے لگ گئی
اور دنیا میں ہی ان کی اس خدمت کا صلہ مل گیا ۔
بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے ۔فرماتی ہیں غزوہ خندق
کے رو ز حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے بازوں کی رگ میں آکر تیر لگا جس سے ان کی
رگ کٹ گئی ۔تو جناب نبی اکرم ﷺ نے ان کیلئے مسجد میں خیمہ لگوا دیا۔ تاکہ
وہ قریب سے ان کی مزاج پرسی فرماتے رہیں اور انہیں کسی بات کا خطرہ ہی نہیں
تھا اور مسجد میں یہ خیمہ بنی غفار نے لگایا تھا تو ایک دن دیکھا کہ خیمے
سے خون بہہ کر باہر آرہا ہے ۔لوگوں نے پوچھا ارے خیمہ والو یہ تمہاری طرف
سے یہ خون بہہ کر کیسا آرہا ہے ۔تو انہوں نے بتایا کہ سعد رضی اﷲ عنہ کا
زخم کھل گیا ہے اور پھر زیادہ خون بہنے کی وجہ سے حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کی
موت واقع ہو گئی ۔اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور جنت الفردوس میں انہیں
ٹھکانا عطا فرمائے ۔
اور اس موقعہ پر سیدہ رفیدہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے انسانی فریضۂ خدمت کو
نہایت اعلیٰ طریقے سے سر انجام دیا اور وہ اخیر تک ان کی خدمت میں لگی رہیں
اور آخر کو ایک دن وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
و ارضھا۔آمین۔ |