اصلاح فکر وعمل کے ایک عظیم داعی ، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت
شیر بنگال حضرت علامہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ
داعی اسلام و سنیت، عالم ربانی، حضرت علامہ غیاث الدین علیہ الرحمۃ
والرضوان جلیل القدر عالم، بے مثال صوفی اور دین وسنیت کے مخلص داعی ومبلغ
تھے، آپ کی ولادت ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۱ء کو ضلع اتر دیناج پور کے ایک گاؤں کو نہ میں
ہوئی ، جامعہ حمیدیہ بنار س اور دارلعلوم مظہر اسلام بریلی شریف سے تحصیل
علم کیا ۔۱۳۱۴ھ/۱۹۹۲ء کو آپ کا وصال ہوا۔
ان کی۹۱؍ سالہ زندگی مسلمانوں کے عقائد واعمال کی اصلاح، اسلام وسنیت کی
ترویج و اشاعت اور باطل وگمراہ فرقوں کی تردید وابطال میں گزری، انہوں نے
حصول علم سے فراغت کے بعدمیدان عمل میں قدم رکھا تو اپنے علاقہ اتر دیناج
پور بنگال کےمسلمانوں کی دینی ومذہبی صورت حال کو دیکھ کر بے چین ہو اٹھے
اور اہل سنت کے عقائد واعمال کے تحفظ کے لیے تن تنہاایک سر گرم تحریک چلائی،
جس کے بانی بھی وہی تھے اور معاون بھی وہی، قافلہ سالار بھی وہی تھے اور
روح رواں بھی وہی۔ آپ نے مکمل عزم وحوصلے کے ساتھ قوم کی اصلاح کا بیڑا
اٹھا یا،اور پورے اخلاص کے ساتھ جد وجہد شروع فر مائی ، نہایت ناساز گار
حالات میں بھی آپ جبل استقا مت بن کر دین کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر رہے،
یہ وہ زمانہ تھا جب اتر دیناج پور کے اس علاقے میں دیو بندیت اور وہا بیت
کے فروغ کے لیے نہایت خاموشی کے ساتھ زمین دوز تحریک چلائی جارہی تھی،سادہ
لوح مسلمانوں کو بڑی چالاکی کے ساتھ وہا بیت کے جال میں پھنسا یا جا رہا
تھا، مونگیر بہار کا منت اللہ رحمانی اس علاقے میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا ،اور
دیوبندیوں کے افکار ونظریات کی خاموش تبلیغ کے لیے جتن کر رہا تھا،
پیشوایان دیوبند کی طرح یہ بھی تقیہ کے ذریعہ اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہا
تھا،، ان دنوں اس علاقے میں دیوبندیت کا کوئی نام ونشان نہیں تھا ،سارے لوگ
سنی اور عقائد اہل سنت کے حامل تھے، معمولات اہل سنت پر عمل پیرا تھے ،میلاد،
سلام وقیام اوردرود فاتحہ وغیرہ سب کچھ ہو تا تھا،ان ہی حالات میں سنیت کا
لبادہ اوڑھ کر یہ بہروپیہ اس علاقے میں وارد ہوا، اس کا حال یہ تھا کہ جس
جس گاؤں میں جاتا، وہاں کے سادہ لوح مسلمانوں کو فریب دے کر گمراہیت کے دل
دل میں پھنسا دیتا۔ادارے قائم کرتا ، مساجد میں اپنے خیالات کے امام کو مقر
رکرتا ۔
میرے والد ماجد جناب محمد حسین رضوی دام ظلہ کا بیان ہے کہ کالارام ، شاہ
پور ، کمل پور جوآج بد بودار دیوبندیوں کا گڑھ ہے ، منت اللہ رحمانی کی آمد
سے قبل ان تمام قریات کے باشندگان اہل سنت کے معمولات بجا لاتے تھے ،لیکن
اس نابکار کی خباثت نے اس حلقے کے مسلمانوں کو گمراہیت کے قعر عمیق میں
ڈھکیل دیا ۔
شیر بنگال حضرت علامہ غیاث الدین علیہ الرحمۃ والرضوان نےدیو بندیوں کی
عیاری اور مکر وفریب سے مسلمانوں کو بچا نے کے لیے اپنی تقریروں کے ذریعہ
ان کے گمراہ کن افکار ونظریات کو طشت ازبام کرنا شروع کیا، اور ان کا مسلسل
ان کا تعاقب فر مایا ، منت اللہ کے فتنے کی سر کوبی کے لیےپیہم جد وجہد فر
مائی اورعلاقے کے با صلاحیت علما کو بھی دیابنہ کی تردید وابطال کے کام میں
لگایا۔
حضرت شیر بنگا ل علیہ الرحمۃ علم وعمل کے ساتھ اپنے دل میں دین کا بے پناہ
اخلاص بھی رکھتے تھے، ان کے اسی اخلاص نے انہیں اپنی کو ششوں میں کامیاب
اور عوام وخواص میں بے پناہ مقبول بنا دیا تھا۔ بے سرو سامانی کے عالم میں
انہوں نے تبلیغ دین کا جو عظیم کا ر نامہ انجام دیا وہ حیرت انگیز ہے۔
حضرت شیر بنگال اپنے زمانے میں عوام وخواص کے مرجع ومقتدیٰ اور علاقے کے
کاروانِ سنیت کے قافلہ سالار تھے، ان کی جراءت وبے باکی، عزم و استقلا ل
اور بے مثال مجاہدانہ کار ناموں کی بنا پر انھیں‘‘شیر بنگال ’’ کا لقب دیا
گیا، صحیح معنوں میں وہ اس کے مستحق بھی تھے۔آج ضلع اتر دیناج
پورخصوصابنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں جو سنیت کی بہاریں ہیں وہ انہی کی
مساعی جمیلہ کی مرہون منت ہیں۔انہیں اس علاقے میں فکر رضاکا اولین ناشر
ومبلغ ہو نے کا بھی شرف حاصل ہے، آج ہمارے علاقے میں مسلک اعلیٰ حضرت کے جو
نعرے لگ رہے ہیں اور ہر ہر فرد کی زبان پر اعلیٰ حضرت کے جوترانے ہیں، یہ
حضرت شیر بنگال ہی کا احسان ہے۔ وہ خانوادہ رضویہ کے خوشہ چیں تھے، اور ان
کی محبت کا دم بھرتے تھے، شہزادہ اعلیٰ حضرت، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفے
رضا خاں بریلوی قدس سرہ سے بیعت تھے، مرشد گرامی کا فیضان کرم ان پر جھوم
جھوم کر برستا تھا۔اور الحمد للہ حضرت شیر بنگال کے صدقے حضرت مفتی اعظم کا
فیضان آج بھی یہاں خوب برس رہا ہے۔
آپ نے اپنے زمانے میں اس علاقے کی دیوبندیوں کی ناک میں نکیل ڈال رکھا
تھا،آپ کے زمانے میں یہاں کئی مناظرے بھی ہوئے جن میں دیو بندیوں کو شکست
فاش ہوئی ، آپ اس وقت ہندوستان کے اکابر علماے اہل سنت سے رابطے میں تھے ،
آپ کی دعوت پر یہ علما اس علاقے میں تشریف لے جایا کرتے ، حضور مفتی اعظم
ہند ، علامہ مشاہد رضا پیلی بھیتی ، حضور مااہد ملت علامہ حبیب الرحمن صاحب
اڑیسہ ، پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی رحمہم اللہ اور اس زمانے کا
مشہور مناظر انتخاب قدیری اکثر علاقے کا دورہ فر مایا کرتے تھے۔
دارالعلوم فیض عام کا قیام :
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمۃ والرضوان کا ایک لازوال کا ر نامہ دارالعلوم
فیض عام کونہ ونوری نگر کمات کا قیام ہے، انہوں نے اعلیٰ فکر وبصیرت، حد
درجہ دور اندیشی اور مومنانہ فراست سے کا م لیتے ہو ئے فروغ علمِ دین کے
لیے تقریبا ۱۹۵۰ءمیں مدر سہ فیض عام قائم کیا۔ آپ کے قائم کر دہ اس ادارے
نے اس علا قے میں فروغ ِسنیت اور اشاعت علم وادب میں بڑا اہم کر دار ادا
کیا، مسلسل چھ دہا ئی سے یہ ادارہ اپنے بانی کے فیضان کرم سے علم وادب کی
اشاعت میں مصروف ہے، ہزاروں نو نہالان قوم اس ادارے سے فیض پاکر زیور علم
سے آراستہ ہو ئے ہیں۔ آج کونہ ونوری نگر کمات اور قرب و جوار کے قریات میں
جو اہل علم کی ایک مضبوط ٹیم موجود ہے اس میں حضرت شیر بنگال کی مخلصا نہ
جدوجہدکا بڑا حصہ ہے۔
حضرت شیر بنگا ل کی حیات مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہمارے لیے خاص طور سے توجہ
کا طالب ہے کہ آپ اپنے زمانے میں اس علاقے میں تن تنہا دیو بندیت اور وہا
بیت کے خلاف محاذ آرا تھے،لیکن سنیت کا بول بالا تھا،دیو بندی وہا بی ہر
محاذ پر خائب و خاسر تھے، ان کی تحریک سمٹتی جا رہی تھی، وہ اپنے ہدف کی
تکمیل میں ناکام تھے۔ جب کہ آج ہمارے قرب و جوار میں علماے اہل سنت کی ایک
بڑی ٹیم موجودہے، ہمارے سماج میں دینی وعصری تعلیم کا گراف بھی بڑھا ہے،
اہل سنت کے متعدد دینی ومذہبی ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ اسباب و وسائل بھی
پہلے سے زیادہ مہیاہیں، اس کے باوجود ہم دیو بندیت کے سیلاب میں باند ھ
باندھنے میں ناکام کیوں ہیں؟بھولے بھالے سنی مسلمان وہا بیت کے دلدل میں
کیوں پھنستے جا رہے ہیں۔ ہمارے علما ان سوالات پہ غور کر نے کی ضرورت کیوں
محسوس نہیں کرتے۔ہم اپنے بزرگوں کے نام پر نعرے تو خوب لگا تے ہیں، دھوم
دھام سے اعراس بھی خوب منعقد کرتے ہیں، لیکن ہمیں ان کے مشن کی تکمیل کے
لیے عملی اقدام اور اس کے مضمرات پر غورکر نے کا موقع نہیں مل پاتا۔ ہمیں
اس پہلو پر سنجید گی سے غور کر نے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم دعوت وتبلیغ کے
اپنے فریضہ منصبی سے سبک دوش ہو رہے ہیں؟تبلیغ کے نام پر ہمارے پاس کوئی
لائحہ عمل نہیں، اور نہ ہم تبلیغ کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمہ زندگی بھر دیوبندیوں کے خلاف محاذ آرا رہے
،انہوں نے دعوت وتبلیغ کے قرآنی اصول یعنی حکمت وموعظت کو اپنا وطیرہ بنایا
، وہ مسخرہ اور بھونڈے الفاظ کبھی استعمال نہیں کرتے تھے،ان کا خطاب با
وقار اورقرآن وحدیث کے دلائل سے مزین ہو تا تھا، وہ دیوبندیوں کے عقائد
ونظریات اور ان کے کا لے کرتوتوں کو موضوع سخن بناتے لیکن اس کا مقصد انہیں
حقائق سے آگاہ کر کے راہ راست پر لانا ہو تا تھا، نہ کہ جاہلانہ انداز میں
ان کا مسخرہ کر نا، انہیں خوب معلوم تھا کہ مدعو قوم کو اپنی بات منوانے کے
لیے انہیں پہلے اپنی بات سننے پر آمادہ کر نا ہو گا، اگر اول مرحلہ میں وہ
ہماری بات سن کر بدک گئے توہم ان تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو
ں سکیں گے، اور ہمارا مقصد اصلی فوت ہو جائے گا۔ لیکن آج ہم کیا کر رہے
ہیں، ہم نے رد وہا بیہ کے لیے جو طریقے اپنائے ہیں وہ کتنے مفید ہیں، ان پر
غور کر نے کی ضرورت ہے۔آج ہم اپنے غیر حکیمانہ طریقوں کی وجہ سے ناکام ہیں
اور ہمارے اسلاف دعوت وتبلیغ کے قرآنی اور حدیثی اسلوب کو اپنے لیے نمونہ
عمل بنا یا تو کام یاب رہے۔
شیر بنگال اورخدمت خلق:
شیر بنگال حضرت علامہ غیاث الدین علیہ الرحمہ تعویذات میں بہت مہارت رکھتے
تھے،لوگ دور دراز سے آپ کی خد مت میں تعویذات کے لیے حاضر ہو تے ،آپ انہیں
تعویذات بھی عطا فر ماتے اور نماز روزہ اور دیگر احکامات شرعیہ کی تلقین
بھی فر ماتے تھے ۔ آپ کی دعائیں بڑی پُر تاثیر ہوا کرتی تھیں ،مصیبت کے
مارے اور غموں سے نڈھال لوگ آپ کی خدمت میں پریشان حال حاضر ہوتے ااور آپ
کی دعاؤں سے ان کے مصائب وآلام دورہوجاتے ۔آپ یہ سارے کام خالص خدمت خلق کی
نیت سے کیا کرتے تھے ، یہ آپ کی روزی روٹی کاذریعہ نہیں تھا ، آپ اپنے
اخراجات اور گھریلو مصارف کے لیے کھیتی کیا کرتے تھے ۔
تبلیغ دین میں جاں فشانیا ں :
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے علاقے کے مختلف اطراف میں میلاد
پاک کی محفلوں میں تشریف لے جایا کرتے اور مدلل ومفصل خطاب فر مایا کرتے
تھے ، آپ کاخطاب اس قدر شگفتہ اور آسان لب ولہجے میں ہوتا کہ سب لوگ آسانی
سے سمجھ لیتے ۔ آپ تن تنہا سائیکل ہی سے دور دراز مقامات تک تشریف لے جاتے
، اور رات کی تاریکی میں بلا خوف وخطر گھر واپس ہو جاتے ، موسم کا مزاج
کبھی آ پ کی راہ کا ڑورہ نہیں بنتا ،سر دی ہو یا گر می ، بارش ہو یا دھوپ
ہر حال میں دینی کاموں میں مصروف رہتے ، علاقے کے دیو بندی آپ کو قتل کر نے
کے مواقع ڈھونڈھتے لیکن اپنے ناپاک مقصد میں کام یاب نہیں ہو تے ۔ ایک بار
بعض شرپسندو ں نے رات کی تاریکی میں آپ کو قتل کر نے کا منصوبہ بنایا اور
راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گئے ،بیان کر نے والوں کا بیان ہے کہ جب آپ
وہاں پہنچے تو دشمنوں نے دیکھا کہ شیربنگال ہی کی شکل کے درجنوں لوگ سائکلی
پر سوار ہیں ، ان کے دلوں میں ہیبت بیٹھ گئی اور وہ اپنے ارادے سے باز آگئے
۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حضرت شیر بنگال علیہ الرحمہ نے دعوت وتبلیغ کی جو
تحریک چلائی تھی ان کی مبارک تحریک سرد مہری کا شکار ہوگئی ہے، ایسا نہیں
کہ ان کے بعد علاقہ علما سے خالی ہو گیا ، بلکہ اس زمانے کے مقابلے میں آج
علما کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ، اسباب ووسائل بھی پہلے سے
زیادہ مہیا ہیں ، لیکن اب شیر بنگال جیسا کوئی درد مند دل والا موجود نہیں
ہے ،تقریریں پہلے سے زیادہ ہورہی ہیں ، لیکن ان تقریروں سے اخلاص وللہیت
رخصت ہوگئی ہے، رسم اذاں باقی ہے لیکن روح بلالی کا دور دور تک کوئی پتہ
نہیں ہے ، پہلے جو کام میلاد کی محفلوں سے ہو تا تھا وہ آج بڑی بڑی
کانفرنسوں سے نہیں ہو پارہا ہے ،آخر کیوں؟ ہمارے علما کو اس سلسلے میں
ٹھندے دماغ سے غور کرنا چاہیے۔
آج ہمارے علاقے میں منعقد ہو نے والے اجلاس جن سے دینی دعوت کا بڑا کام
ہوسکتا تھا، محض سیر وتفریح کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔میں معذرت کے ساتھ
مدارس کے اساتذہ اور ذمے داران سے گزارش کر تا ہوں کہ خدارا ان دینی
اسٹیجوں کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیجیے، ہمارے جلسوں کے اسٹیج اس وقت
قہقہوں کے اڈے بنتے جارہے ہیں، جاہل اور پیشہ ور خطبا کی بے راہ رویوں نے
اسٹیجوں کی جو درگت بنائی ہے وہ تشویشناک ہے،رات بھر جلسہ سننے کے
بعدسامعین کے لیے یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کسی دینی جلسے سے
آرہے ہیں یا قہقہے کی محفل اور مجلس طنز ومزاح سے۔غیر مہذب گویے قسم کے
شعرا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ للہ اہل سنت کے اسٹیجوں کو مزید بد نام
ہو نے سے بچا ئیے ورنہ وہ دن دور نہیں جب آپ کے جلسوں میں صرف ناخواندہ اور
گنوار قسم کے لوگ ہی جانا پسند کریں گے اور پڑھا لکھا سنجیدہ طبقہ آپ سے
دور ہوتا جائے گا۔دینی اسٹیجوں کو غیر موثر اور بد نام کر نے میں بعض مدارس
کے اساتذہ اور انتظامیہ کا اہم رول رہا ہے، جنہوں نےخالص پیشہ ور خطبا اور
گویے قسم کے شعرا کو اپنے جلسوں میں مدعو کر کے عوام کا ذوق بگاڑ نے اور
جلسوں کی معنویت کو ختم کر نے میں کلیدی کر دار ادا کیا ہے۔ جن کی ناعاقبت
اندیشیوں نے اہل سنت کے دینی جلسوں کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ میرا سر اس
وقت شرم سے جھک گیا جب ایک دینی ادارے کے جلسہ دستار بندی کی صبح چوراہے پر
کھڑے چند نوجوان رات کے جلسے میں بیان کیے ہوئے چٹکلے مزے لے لے کر سنا رہے
تھے اور ایک مقرر کی تقریر پر تبصرے کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ‘‘ کل ایک
مولوی صاحب اسٹیج میں تقریر کے دوران ڈانس کر رہے تھے’’۔میں نے اندازہ
لگایا کہ رات میں نماز وروزے کی باتیں تو ان نوجوانوں کو یاد نہیں رہیں
لیکن منبر رسول میں بیٹھ کربیان کئے گئے چٹکلے ان کے ذہن ودماغ میں اثر
چھوڑ نے میں کام یاب ہو گئے، اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ہمارے مقررین عوام کی
عارضی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قرآن وحدیث اور صوم وصلاۃ کی باتوں سے
زیادہ لطیفے بیان کرتے ہیں۔ایسے اجلاس کے اسٹیجوں میں بیٹھنااہل علم اور
سنجید ہ افراد کے لیے نہایت ناگوار ہو تا ہے۔
حضرت شیر بنگال اور روحانیت:
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمۃ والرضوان تصوف ورحانیت کے بھی اعلیٰ مقام پر
فائز تھے، آپ کے بیشتر اوقات ذکرو اذکار اور اوراد وظائف میں گزرتے، آپ
معمولات کے سخت پابند تھے ، بعد نماز فجر طلوع آفتاب تک مصلیٰ پر بیٹھ کر
وظائف کا ورد فرمایا کرتے ۔
ہر چند کہ کرامت ولایت کا معیار نہیں ، لیکن کرامات کا صدور اولیا ے کرا م
کا وتیرہ رہا ہے ، اس حوالےسے بھی حضرت شیر بنگال کی حیات مبارکہ درخشند ہ
نظر آتی ہے، مختلف مواقع پر آپ سے متعدد کرامتوں کا صدور ہوا، دیکھنے والوں
نے دیکھا، سننے والوں نے سنا اور محسوس کر نے والوں نے محسوس کیا،کبھی
دشمنوں کو ہیبت میں مبتلا کر نے کے لیےایک چٹکی مٹی پردم کر کے ہوا میں
اچھا لا تو آپ کی شکل کے درجنوں افراد وجود میں آگئے ، کبھی آپ کے اشارے پر
ناگہانی آفتوں نے اپنا راستہ بدل دیا ۔
۵۳؍ دن کے بعد قبر کھل گئی :
۱۹۹۱ ء کی بات ہے، میرے بچپن کا زمانہ تھا،آپ کے وصال کو ۵۳؍ دن گزر چکے
تھے، فجر کی نماز کے بعد ہم لوگ ناشتے کی تیاری میں تھے ، اسی در میان میں
نے دیکھا کہ قبرستان میں لوگوں کا جم غفیر ہے اور مختلف اطراف سے لوگ کشاں
کشاں قبرستان کی طرف آرہے ہیں۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ بارش کی وجہ سے
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمہ کی قبر مبارک کھل گئی ہے اور آپ کا جسم بالکل
صحیح و سلامت ہے، سننے والوں کو اس حیرت انگیز واقعہ پر یقین نہیں ہو رہا
تھا ، اس لیے تصدیق کے لیے سبھی قبرستان کی طرف دوڑ رہے تھے ، میں بھی اپنے
والد گرامی اور محلے کے دیگر افراد کے ساتھ قبرستان پہنچااور چشم حیرت سے
ملاحظہ کیا کہ ۵۳؍ دن قبل جس طرح حضرت کو دفن کیا گیا تھا، بالکل اسی حالت
میں قبر میں آرام فر ماہیں ، نہ تو کفن بوسیدہ ہوا ہے اور نہ ہی جسم مبارک
میں کوئی تبدیلی آئی ہے ، قبر سے بھینی بھینی خوش بو پھوٹ رہی ہے ،جسم
مبارک کے ارد گرد مٹی گری ہے ، لیکن کفن او ر نعش بالکل صا ف ستھرے ہیں،
ایک نہیں ہزارو ں لوگو ں نےاس کا مشاہدہ کیا ، آپ کا روضہ مبارک چوں کہ لبِ
سڑک واقع ہے اس لیے راہ گیروں نے بھی اس حیرت انگیزواقعے کا مشاہدہ کیا
،کئی گھنٹے تک قبر کھلی رہی ،لوگوں نے قرب وجوار کے دیوبندیوں کو پکڑ پکڑ
کر دکھا یاکہ دیکھو اہل سنت کی حقانیت کی یہ واضح دلیل ہے کہ ایک طویل عرصہ
گزر نے کےباوجود ابھی تک جسم اطہر صحیح وسالم ہے ۔دیوبندیوں نے دیکھا ،ان
کے چہرے کالے ہوگئے ، زبانیں گنگ ہوگئیں اور اپنا سا منھ لے کر واپس ہو گئے
، کئی گھنٹوں کے بعد قبر مبارک پھر بند کر دی گئی ۔
یقینا یہ واقعہ حضرت شیر بنگال کی بارگاہ الہی میں مقبولیت اور آپ کی ولایت
کی واضح دلیل ہے ،سچ یہ ہے اللہ کے نیک بندوں کو آن ِواحد کے لیے موت آتی
ہے ، پھر وہ اپنی قبروں میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہو ئی حیات کے ساتھ جیتے
ہیں ۔
حضرت شیر بنگال کی شخصیت ہمارے دیار میں اس قدر معتمد اور معتبر مانی جاتی
ہے کہ لوگ بات بات میں ان کی مثال پیش کرتے ہیں، اور ان کے عمل کو سند کی
حیثیت دیتے ہیں، یقینا حضرت شیر بنگال ہمیشہ شریعت کے پابند رہے، انہوں نے
شریعت کے مقابلے میں کبھی کسی مصلحت کی پروا ہ نہیں کی، حق بات بولنے سے وہ
کبھی نہیں چوکے، وہ صرف اپنے معبود حقیقی سے ڈرتےتھے،کسی دنیاوی عظمت وسطوت
والے کا کبھی خوف نہیں کرتے۔حضرت شیر بنگال کی عظمت اوران کی استقامت
اورتصلب فی الدین سب اپنی جگہ مسلم ہیں،ان سے کوئی بھی صاحب نظر انکار نہیں
کر سکتا، لیکن ہمارے قرب وجوار کے بعض عمر رسیدہ افراد نے حضرت شیربنگال کی
جانب بہت سی غلط باتیں اورمسائل منسوب کردیے ہیں،جن کا حضرت شیر بنگال سے
کوئی تعلق نہیں، ان جاہل راویوں سے اس سلسلے میں دھوکا ہوا، وہ یا تو صحیح
بات سن نہیں سکے یا پھر حافظہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، ایسی بہت ساری
روایات ہیں، سر دست اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ نقل کرتا ہوں۔
غالباً۲۰۰۵ء کی ایک شام کو حضرت مولانا احمد رضا قادری قبلہ استا ذ
دارالعلوم افضل المدارس الہ آبادا ور چند علماے کرام کے ساتھ ایک جنازے میں
شرکت کے بعدہم لوگ دارالعلوم فیض عام کی صحن میں بیٹھے مختلف موضوعات پر
تبادلہ خیا ل کر رہے تھے، ہماری اس مجلس میں چند عمر رسیدہ افراد بھی تھے،
اسی در میان مغرب کی اذان کا وقت ہو اتو ہم لوگ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو ئے
اور مسجد کی طرف جانے لگے ، ایک بزرگ نے ہمیں ٹوکتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں نے
وضو نہیں بنا یا، ہم نے کہا ہم باوضو ہیں اس لیے وضو بنانے کی کوئی ضرورت
نہیں، انہوں نے ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہوئے فر مایا، ابھی آپ لوگوں نے
نماز جنازہ ادا کی ہے، اور نماز جنازہ کے وضو سے دوسری نمازیں نہیں ہو
سکتیں، اس لیے وضو بنانا ضروری ہے۔میں نے کہا کہ فقہی کتابوں کے اپنے محدود
مطالعہ کی روشنی میں اتنی بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نماز جناز کو
نواقض وضو میں کہیں شمار نہیں کرا یا گیا ہے۔اس پروہ صاحب بول پڑے کیا آپ
لوگ شیر بنگال سے بڑے عالم ہیں، ہم نے شیر بنگال سے سنا ہے کہ نماز جنازہ
کے وضو سے دوسری نمازیں نہیں ادا کی جاسکتیں، آپ لوگوں نے حدیث ٹھیک سے
نہیں پڑھی ہے۔ایک اور صاحب ان کی حمایت میں کھڑے ہو گئے، انہوں نے بھی وہی
راگ الاپنا شروع کر دیا، خیر ہم لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی بعد نماز
مغرب بھی ان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کسی قیمت پر ماننے کے لیے
آمادہ نہیں ہو ئے۔افسوس اس بات پر ہوا کہ وہ اپنی جہالت کو حضرت شیر بنگال
کی جانب منسوب کر رہا تھا، اور پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا تھا، ایسے کئی
لوگ آج بھی باحیات ہیں جو حضرت شیربنگال کی جانب غلط مسائل منسوب کرنے میں
کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگ خدا کاخوف کھائیں اور علما کی صحبت میں
بیٹھ کر اپنی معلومات کی تصحیح کرا لیں ورنہ غلط مسائل کی تشہیر اور اللہ
کے ایک نیک بندے پر افترا کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔
حضرت شیر بنگال علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کا ہر ہر گوشہ درخشندہ وتابندہ
ہے ،جس کی تفصیل پھر کسی صحبت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
کہ حضرت کے فیوض وبرکات سے ہم سبھوں کو مالا مال فر مائے اور ایمان پر
خاتمہ فر مائے۔ آمین۔
٭٭٭٭
|