چوہدری محمد یعقوب اویسی ایڈووکیٹ۔۔۔۔۔۔چیف ایگزیکٹو
ادارہ تاجدار یمن پاکستان
آسمان علم و معرفت کے مہر درخشاں زبدۃ العارفین مخدوم اہل سنت استاد
العلماء المعروف حضرت شیخ القرآن خواجہ پیر محمد عبدالغفور صاحب ہزاروی
چشتی نظامی قادری رحمتہ اﷲ علیہ کے آباؤ اجداد نے تقریباً ۱۲۰۰ھ میں علاقہ
سوات سے ہجرت کر کے چمبہ پنڈ تحصیل ہری پور ہزارہ میں آکر سکونت اختیار کی۔
حضرت مولانا محمد عالم ؒ کے چار صاحبزادے تھے۔ جن میں حضرت مولانا
عبدالحمید ؒ صاحب اور مولانا عبدالحیؒ صاحب نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔
جب ۹ ذی الحجہ ۱۳۳۰ھ بمطابق یکم اپریل ۱۹۱۰ء جمعتہ المبارک کی صبح صادق کے
وقت حضرت مولانا عبدالحمید ؒ صاحب کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو حضرت
مولانا عبدالحمید ؒ صاحب نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد عالم ؒ کے پیر
طریقت قیوم زماں حضرت پیر خواجہ محمد عبدالغفور ؒ سیدو شریف کی نسبت سے
اپنے بیٹے کا نام محمد عبدالغفور رکھا جو بعد میں حضرت شیخ القرآن کے نام
سے مشہور ہوئے۔
حضرت شیخ القرآن خواجہ محمد عبدالغفور صاحب ہزاروی ؒ بچپن سے ہی بہترین
صلاحیتوں کے مالک تھے۔ دنیاوی کھیل سے شروع ہی سے دور رہے۔ اور علم کی تلاش
میں ساری زندگی وقف کر دی۔ ابتدائی کتب سے لے کر فقہ تک کی کتب اپنے والد
ماجد سے پڑھیں اس کے بعد بھوئی ضلع اٹک تشریف لے گئے اور وہاں جا کر استاد
العلما ء حضرت مولانا احمد دین صاحب اور مولانا محب النبی ؒ صاحب سے تعلیم
حاصل کی۔ حضرت شیخ القرآن ؒ کے اساتذہ کرام میں حضرت کے پیر طریقت آفتاب
شریعت قبلہ عالم غوث زماں حضرت سید نا پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ بھی شامل
تھے۔ آپ نے خیر و برکت کے خیال سے اکثر کتابوں کا آغاز قبلہ عالم حضرت
گولڑوی ؒ سے کیا۔ ایک بار درخواست کی کہ قبلہ میرے لئے خصوصی دعا فرمائیں
کہ میں مولوی بن جاؤں۔ جواب میں آپ ؒ نے فرمایا محنت کرو میں نے عرض کیا
قبلہ حضور کے ارشاد گرامی کی ضرور تعمیل کروں گا ۔ لیکن آپ دعا فرمائیں۔
چنانچہ آفتاب گولڑہ قبلہ عالم اعلحضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب نے دعا
کی اور پیشین گوئی کے طور پر فرمایا کہ فکر نہ کر تو بڑا مولوی ہو گا۔
چنانچہ دربار عالیہ گولڑہ شریف کی اکثر مجالس میں آپ نے اس بات کا ذکر کیا
کہ میں حضور قبلہ عالم کی دعا اور ان کے کرم کا زندہ ثبوت ہوں۔
جب آپ نے درس نظامی کی تکمیل کر لی تو آپ لاہور تشریف لائے۔ یہاں پر آپ کو
تسلی نہ ہوئی ۔ علمی شوق اس قدر غالب تھا کہ دہلی تشریف لے گئے۔دوران تعلیم
اکثر و بیشتر فاقہ کشی کی نوبت آئی مگر کیا مجال کسی پر ظاہر کیا ہو۔ پائے
استقلال میں ذرہ بھر جنبش نہ آئی۔ آپ نے دارلعلوم فتح پوری میں بھی داخلہ
لیا ۔ کئی میل کا پیدل سفر کر کے دار العلوم جاتے اور تھوڑے سے چنے کھا کر
گزارہ کرتے ۔
دہلی میں دوران تعلیم محدث اعظم حضرت مولانا سردار احمد صاحب رحمتہ اﷲ علیہ
سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے منظر الاسلام بریلی شریف میں پڑھنے کا مشورہ دیا ۔
چنانچہ آپ بریلی تشریف لے گئے اور اعلیٰ حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خاں
بریلوی ؒ کے صاحبزادے حجتہ السلام حضرت مولانا شاہ حامد رضا خان بریلوی ؒ
سے دورہ حدیث پڑھا اور سند فراغت حاصل کی۔ علمی قابلیت اور ذہانت کو دیکھتے
ہوئے استاد مکرم حجتہ السلام حضرت مولانا حامد رضا خان بریلوی ؒ نے آپ کو
ابوالحقائق کا خطاب دیا۔ اور اپنے مدرسے میں بطور مدرس آپ کی خدمات کو حاصل
کیا۔
حضرت شیخ القرآن ؒ بریلی شریف میں کچھ عرصہ تک درس و تدریس کا کام سرانجام
دیتے رہے پھر آپ گجرات (پنجاب) تشریف لے گئے اور انجمن خدام الصوفیاء کے
تحت درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اور ساتھ ساتھ شیشانوالہ گیٹ گجرات کی
جامع مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیئے۔ یہاں پر دیگر سینکڑوں طلباء کے
علاوہ حضرت علامہ مولانا محمود شاہ گجراتی ؒ صاحب سابق صدر جمعیت العلماء
پاکستان نے بھی درس نظامی کی کتب پڑھیں۔ آپ ۱۹۳۵ء میں گجرات سے وزیرآباد
تشریف لے گئے۔ اور ریلوے اسٹیشن کے ساتھ متصل جامع مسجد (جو شہر کی سب سے
بڑی اور مرکزی جامع مسجد ہے) میں چند سال تک انجمن کی ماتحتی میں کام کیا
مگر بعد ازاں غیور طبیعت نے اسے گوارہ نہ کیا۔ پھر تادم زیست آزادانہ طور
پر خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ نے مسجد کی تعمیر از سر نو کی اور
اس کے ساتھ دارالعلوم جامعہ نظامیہ غوثیہ بھی تعمیر کروایا۔ اس دور میں
ڈاکٹر بلگرامی صاحب کی طرف سے جامعہ اسلامیہ بہاولپور کیلئے آپ کو پندرہ سو
روپے ماہوار تنخواہ ، کوٹھی اور کار کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے اس سے انکار
کر دیا اور جامع نظامیہ غوثیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ کے
شاگردوں میں حضرت پیر محمد علاؤ الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ نیریاں شریف آزاد
کشمیر ، حضرت مولانا محمد فاصل نقشبندی ، ڈھانگری شریف (میر پور) حضرت پیر
سید عابد حسین شاہ رحمۃ اﷲ علیہ آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف ،
استادالعلماء مولانا غلام جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ مانسہرہ ، حضرت شیخ الحدیث
ابو الحسنات محمد اشرف صاحب سیالوی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت صاحبزادہ محمد
عبدالصبور صاحب ہزاروی ، استاد العلماء علامہ محمد عبدالحق صاحب مہتمم
جامعہ امدادیہ بندیال، حضرت پیر خادم حسین صاحب چورہ شریف ، علامہ مفتی
ہدایت اﷲ صاحب پسروری مہتمم ہدایت القرآن ملتان، حضرت علامہ مولانا مقصود
احمد صاحب سابق خطیب جامع مسجد حضرت داتا گنج بخشؒ ، حضرت مولانا محمود شاہ
گجراتی رحمۃ اﷲ علیہ، پیر طریقت حضرت مولانا محمد سلیم صاحب نقشبندی فیصل
آباد، مولانا مفتی عبدالقیوم صاحب پر نسپل جامع کھڑی شریف آزاد کشمیر ،
حضرت مولانا محمد شمس الزماں صاحب خطیب جامع مسجد بیڈن روڈ ، حضرت صاحبزادہ
مولانا غلام محمد صاحب بھور شریف ضلع میانوالی ، مولانا محمد فاضل صاحب
فیصل آبادی، حضرت مولانا غلام رسول رحمۃ اﷲ علیہ سمندری والے، حضرت مولانا
سعید احمد مجددی رحمۃ اﷲ علیہ گوجرانوالہ وغیرہ جیسے نامور علماء و مشائخ
شامل ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
تحریک پاکستان کے حوالے سے آپ کی خدمات بے مثل و بے نظیر ہیں۔ آپ نے ۱۹۳۶ء
میں باقاعدہ طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے
قبل بھی ملی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے۔ جب تحریک نیلی پوش مسجد شہید گنج
کیلئے چلی تو اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس تحریک کے روح رواں ملک
لال خان اور مولانا ظفر علی خاں کے ساتھ دن رات کام کیا۔ چنانچہ آپ کو مجلس
اتحاد ملت کا نائب صدر منتخب کر لیا گیا ۔ مجلس اتحاد ملت دو سال تک مسجد
کی بازیابی کے لئے سرگرم عمل رہی۔ خاطر خواہ نتیجہ نہ ظاہر ہوا تو قائدین
مجلس سے مجلس کو توڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہونے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ۱۹
اپریل ۱۹۳۸ء کو کلکتہ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جس کی صدارت بانی
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ فرما رہے تھے تو اس عظیم الشان اجلاس
میں حضرت شیخ القرآن مولانا محمد عبدالغفور ہزاروی نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر
ایک دلآ ویز اور پرجوش تقریر کی اور فرمایا کہ آج سے ہم نے مجلس اتحاد ملت
کو توڑ کر مسلم لیگ میں مدغم کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے اب ہم مسلم لیگ کے
پرچم تلے قائد اعظم ؒ کی رہنمائی میں ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ اس جماعت
کے جیش نیلی پوش اب مسلم لیگ کے سپاہی ہوں گے۔ آپ کی دلپزیر تقریر سن کر
قائد اعظم ؒ بہت متاثر ہوئے۔
بانی پاکستان سے حضرت شیخ القرآن کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ قائد اعظم ؒ آپ کی
شخصیت اور تقریر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جب آپ نے قائد اعظم ؒ کو وزیرآباد
آنے کی دعوت دی تو قائد اعظم ؒ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انکار نہ
کر سکے۔ وزیر آباد تشریف لائے اور جامع مسجد غوثیہ سے ملحقہ وسیع میدان میں
لوگوں سے خطاب فرمایا ۔ حضرت شیخ القرآن نے جلسہ کے تمام انتظامات اپنی
نگرانی میں کروائے اور بانی پاکستان کا پرجوش استقبال کیا۔ یہ پہلا موقع
تھا کہ قائد اعظم ؒ وزیرآباد تشریف لائے ۔ وہاں پر احرار پارٹی کا بڑا زور
تھا۔ مگر اس عظیم الشان جلسے کے بعد لوگ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونے
لگے۔ جب ۲۳مارچ ۱۹۴۰ ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس عظیم
الشان اجتماع میں بھی حضرت شیخ القرآن نے جمع اپنے جملہ رفقاء کے ساتھ شرکت
کی۔
آپ کے سیاسی مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اسٹیج
پر مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ قرار داد پاکستان کی
منظوری کے بعد حضرت شیخ القرآن نے دیگر علماء کے ہمراہ پورے ملک کا دورہ
کیا ۔ اس سلسلہ میں آپ سیالکوٹ سے ملحقہ ایک گاؤں میں تشریف لے گئے۔ آپ کے
ساتھ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان بھی تھے۔ اس وقت وہاں احراریوں کا
معرکتہ الآرا جلسہ بھی ہو رہا تھا۔ دوسری طرف علماء اہل سنت نے اپنا اسٹیج
لگا رکھا تھا۔ جب احراریوں کے اجتماع میں کچھ زیادہ ہی عوام کی کشش نظر
آرہی تھی تو حضرت شیخ القرآن ؒ فوراً مائیک پر آئے اور ایک فصیح و بلیغ
خطبہ دیا ۔ لوگ دھڑا دھڑ آپ کے پنڈال کی طرف آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے
مخالف حضرات کا پنڈال خالی ہو گیا۔ یہ دیکھ کر مولانا ظفر علی خان وفور
جذبات سے بے خود ہو گئے اور فی البدیہ ایک نظم پڑھی جس کا ایک شعر ہے
میں آج سے مرید ہوں عبدالٖغفور ؒ کا
چشمہ ابل رہا ہے محمد ﷺ کے نور کا
جب تحریک سول نافرمانی چلی تو پنجاب کے گورنر ڈگلس نے حضرت شیخ القرآن کو
باغی قراردے دیا اور آپ کی گرفتاری کا حکم دیا ۔ وزیرآباد میں مسلم لیگ کا
اجلاس ہو ا اور فیصلہ کیا گیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد جامع مسجد غوثیہ سے
زبردست جلوس نکالا جائے مگر پولیس نے چھاپے مارنے شروع کر دیئے۔ ضلع
گوجرانوالہ میں سب سے پہلی گرفتاری آپ ہی کی ہوئی۔ آپ نے بڑی پامردی کے
ساتھ اسیری کے ایام گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ جیل میں گزارے اور ایک ماہ بعد ہی
رہا کر دیئے گئے۔ جب آ پ رہا ہوئے تو یہ وہ دور تھا جب تحریک پاکستان آخری
مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی ۔ بالآخر ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں
آیا۔
آپ صوفی شاعر ، خطیب ، سیاستدان ، مدرس ، عالم دین اور ولی کامل تھے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی آپ نے سیاست کو خیر باد نہ کہا بلکہ جب مارچ ۱۹۴۸ء
میں مدرسہ انوارالاسلام ملتان میں جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد رکھی گئی
تو آپ اس پہلے اجلاس میں شریک ہوئے آپ کو نائب صدر منتخب کر لیا گیا۔ جب
۲۸ستمبر ۱۹۶۸ء کو جامع نعیمیہ لاہور میں سالانہ الیکشن ہوئے تو آپ کو
بلامقابلہ مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔ آپ نے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی
صدر کی حیثیت سے اہل سنت کی قیادت کی اور تحریک بحالی جمہوریت ، غیر اسلامی
قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ عائلی قوانین کی تنسیخ اور مکمل اسلامی
نظام کے نفاذ کیلئے کوشش کرتے رہے۔
جب ۱۹۵۳ ء میں تحریک ختم نبوت چلی تو آپ نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ملک بھر میں جلسے کئے۔ پولیس آپ کو گرفتار کرنے کیلئے مختلف مقامات پر
چھاپے مارتی رہی۔ بالآخر دوران تحریک آپ نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے
والے عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرنے کے بعد از خود گرفتاری پیش کی اور
راولپنڈی جیل میں سات ماہ تک گرفتاری کے ایام گزارے۔ آپ نے سوشلزم کے خلاف
بھی تحریک چلائی۔ آپ اپنی تقاریر میں سوشلزم کا رد کرتے۔
حضورﷺ سے آپ کو بے پناہ محبت تھی ۔ آپ کی اکثر تقاریر کا موضوع عشق رسولﷺ
ہو ا کرتا تھا۔ اسی نسبت کی وجہ سے آپ ہر سال عرس پاک صاحب لولاک ﷺ مناتے
تھے۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے۔ یہ عرس پاک صاحب لولاک
ہر سال ۷اور ۸ جمادی الثانی کو منعقد ہوتا ہے۔
حضرت شیخ القرآن کو حضرت خواجہ سائیں گوہر الدین اویسی جندھڑوی رحمۃ اﷲ
علیہ سے ایک خاص تعلق رہا۔ آپ مسلسل کئی سال سے شیخ کی صحبت میں رہے اور
اکتساب فیض کیا۔ حضرت خواجہ سائیں گوہرالدین صاحب اویسی جندھڑوی حضرت حجتہ
الاسلام مولانا حامد رضا خان بریلویؒ ، خواجہ پیر طریقت حضرت معصوم بادشاہ
صاحب چورہ شریف، حضرت خواجہ نور احمد صاحب سہروردی چکوال اور حضرت پیر
علاؤالدین قادری بغداد شریف کی طرف سے آپ کو خلافت عطا ہوئی۔آپ کا وصال ۹
اکتوبر ۱۹۷۰ بمطابق8-7شعبان المعظم کو ہوا۔آپ کے وصال کے بعد آپ کی مسند پر
آپ کے فرزند حضرت علامہ مفتی محمد عبد الشکور ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ نے دینی
اسلام اور مسلک اہلسنت کی خدمت فرمائی ۔سالانہ دورۂ تفسیر القرآن جاری رکھا
۔تقریر و تحریر سے اپنے والد گرامی حضرت شیخ القرآن کے مشن کو پایۂ تکمیل
تک پہنچاتے رہے ۔مفتی محمد عبد الشکور ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ کے وصال کے بعد
مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بڑے صاحبزادہ پیر محمد عارف ہزاروی صاحب نے مسند
سنبھالی اور آج بھی اپنے عظیم دادا جان اور والد گرامی کے دینی،
علمی،روحانی اور فکری مشن کو پورے پاکستان میں عام کر رہے ہیں۔آج بھی
سالانہ عرس مبارک حضرت شیخ القرآن رحمۃ اﷲ علیہ 8-7شعبان المعظم کو ہر سال
منعقد ہوتا ہے ۔امسال بھی عرس مبارک حضرت شیخ القرآن عبد الغفور ہزاروی
رحمۃ اﷲ علیہ 8-7شعبان المعظم بمطابق 6-5مئی 2017ء بروز جمعہ ۔ ہفتہ درگاہ
عالیہ حضرت شیخ القرآن مہر آباد وزیر آباد میں سجادہ نشین پیر محمد عارف
ہزاروی صاحب کی صدارت میں منعقد ہو رہا ہے ۔ جس میں عالمی مبلغ اسلام پیر
سید منور حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت علی پور
سیداں شریف ،پیر سید لخت حسنین شاہ ،علامہ پیر غلام رسول اویسی مرکزی امیر
تحریک اویسیہ پاکستان ،علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز
اویسیاں نارووال،پیرزاد شبیر احمد نعمانی ،علامہ مفتی محمد نعیم اﷲ نعیمی
سرائے عالمگیر،علامہ جاوید اکبر ساقی آف لاہور،علامہ حافظ محمد رفیق چشتی
اور دیگر مقررین خطابات فرمائیں گے ۔جبکہ پیر سید خورشید احمد شاہ
گوجرانوالہ ، پیر سید محمد صفی اعظم چن پیر شاہ ،پیر سید سخی محمد شاہ،پیر
غلام رسول نقشبندی،علامہ محمد صدیق سالک ہزاروی، قاری سعید احمد ارشد
،صاحبزادہ محمد کاشف چشتی اویسی اور دیگر مہمانان خصوصی ہونگے اور صاحبزادہ
محمد شارف ہزاروی ،صاحبزادہ محمد عاکف ہزاروی نگرانی کریں گے عرس مبارک کے
موقعہ پر معروف قوال مولوی حیدر حسن ویہراں والے قوال و ہمنواہ فیصل آباد
والے محفل سماع میں حاضری لگوائینگے ۔ |