گذشتہ روز ایرانی آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ
پاکستان سے دہشت گرد ہمارے محافظوں کو قتل کر رہے ہیں اس لئے ضرورت پڑنے پر
ہم ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اس بیان کے
آنے کے بعد پراکسی وار کے مورچوں پر متعین مجاہدین نے ہر سطح پر طوفان
بدتمیزی برپا کر دیا ایرانی مسلمانوں کو نہ جانے کیا کیا صلواتیں سنائیں
گئیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتل بھی ایران کے خلاف
بیان داغتے پائے گئے۔
دوسری طرف سے پاکستانی شیعہ لوگوں کی طرف سے بھی ملا جلا رد عمل سامنے آیا
کچھ نے ایران کے اس بیان کو دھمکی گردانتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا اظہار
کیا تو کسی نے ایران کے اصولی موقف کی تایید میں دلائل دیئے۔ان دلائل کا
نچوڑ یہ ہے کہ ایران نے اگر یہ کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی
کرے گا تو اس میں کونسی سی غلط بات ہے اگر پاکستان امریکہ جیسے وحشی ملک کے
ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف اپنے ہی ملک میں کاروائیاں کر سکتا ہے تو
ایک مسلم اور ہمسایہ ملک کے ساتھ مل کر کیوں نہیں ؟
اس لئے ایران کے بیان کو خاص تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے سب جاتنے ہیں کہ
ایک وقت دہشت گرد تنظیم جند اللہ نے ایرانی سیستان و بلوچستان میں قتل و
غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا تب بھی پاکستان نے ایران کی مدد کی اور ریگی
جیسے بدترین دہشت گرد کو گرفتار کروایا اور اس طرح کے تعاون کا وعدہ دونوں
حکومتوں کی طرف کی ایرانی وزیر خارجہ کے دورے میں بھی کیا گیا اسی لئے
ایران نے پاکستان میں اپنے سفیر کی طلبی کے بعد کہا کہ ہمارے بیان کو غلط
انداز میں لیا گیا ہم نے ہمیشہ کی طرح پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف اقدام
کی درخواست کی اور ساتھ یہ امید بھی کی کہ پاکستان اس حوالے سے اقدامات
اٹھائے گا لیکن اس بیان کو دھمکی سمجھا گیا۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایران نے پاکستان کو دھمکی دی تو ان واقعات پر
نظر دوڑانی چاہئے جن کی بنا پر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایران ایک دوست اور
برادر ملک کی طرح بات کرنے کی بجائے دھمکی پر اتر آئے۔خدا نخواستہ جن دہشت
گردی کے واقعات کی بنا پر ایران نے یہ لہجہ اختیار کیا اگر یہ واقعات
پاکستان میں رونما ہوتے تو یقینا پاکستان کا موقف اور لہجہ بھی یقینا ایران
کے موقف اور لہجے سے زیادہ مختلف نہ ہوتا۔
جو لوگ ایران جا جکے ہیں یا ایران کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں انہیں یہ
بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران میں غیر معولی حد تک امن و امان قائم ہے
لیکن ان حالات میں بلوچستان کے علاقے میں ہر سال ایران کو اپنے فوجیوں کی
قربانیاں دینی پڑتی ہیں جب آپ کے ملک سے اٹھ کر جیش العدل کے دہشت گرد
ایرانی فورسز کو نشانہ بنائیں گے تو جواب میں کوئی رد عمل تو آئے گا اور یہ
بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایرانی فورسز کو کئی سالوں سے نشانہ بنایا
جا رہا ہے۔
ان حالات میں پاکستانی عوام کو مختلف دھڑوں میں بٹنے کی بجائے اصولی موقف
کا ساتھ دینا چاہئے چاہے ان کے ممدوح ملک کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور کسی
بھی طرح کی پروکسی وار کا حصہ نہیں بننا چاہئے کہ اس سے نہ تو ممدوح ملک کو
کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ اسلام کو البتہ اس کا یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ
شدت پسند سوچ رکھنے والے پراکسی وار کے مجاہدین ضرور بے نقاب ہو جائیں گے۔ |