گزشتہ روز جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے قیامت کی ایک
تازہ نشانی قوم کو بتادی، ’’․․․ عمران خان کا جہانگیر ترین، علیم خان اور
پرویز خٹک کی موجودگی میں جمہوریت کی بات کرنا قیامت کی نشانی ہے، پی ٹی
آئی میں جمہوریت اور اصول نام کی کوئی چیز نہیں، عمران خان دولت والوں کو
پروٹوکول دیتے ہیں ،کرپشن کے خلاف باتیں کرنے والی تمام جماعتیں سیاسی
دکانداری چمکا رہی ہیں ․․․‘‘۔ قیامت کی کچھ نشانیاں تو ہمیں مخبرِ صادقﷺ نے
بتا دی تھیں، جو حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان پر شک کی کوئی
گنجائش نہیں، کہ آقا کے فرمان پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانے میں ہی ہماری
عاقبت ہے۔ مگر قیامت کی اور بھی بہت سی نشانیاں ہیں جو ہمیں آئے روز
سیاستدان بتاتے ہیں۔وجیہہ الدین صاحب پی ٹی آئی کی اندرونی کیفیت سے یقینا
باقی لوگوں سے زیادہ واقف ہیں، کیونکہ وہ اندر سے ہو کر آئے ہیں، پارٹی
قائد نے انہیں پارٹی کے اندرونی الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی بنائے رکھا،
اہمیت بھی دی، مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہ اتحادی منزل پر پہنچے بِنا ہی ایک
دوسرے سے جد ا ہوگئے۔ موصوف نہایت دھیمے لہجے کے تستعلیق انسان ہیں، سیاسی
دھماچوکڑی انہیں سخت ناپسند ہے، نہ جانے پی ٹی آئی کے بیڑے میں کیوں سوار
ہو لئے؟ پرانی یادیں کیا تازہ کریں کہ انہوں نے الگ ہو کر کوئی نامعلوم سی
سیاسی جماعت بھی بنا لی۔
قیامت کی ایک نشانی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بھی بتا کر قوم کے علم میں
اضافہ کیا ہے، وہ یہ کہ ’’․․․قیامت کی نشانی ہے کہ آصف زرداری کی پارٹی بھی
لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہے، اور کرپشن کے خلاف بیانات دے رہی ہے
․․․‘‘۔کیونکہ یہ تصور قوم کے ذہن میں راسخ ہو چکا ہے کہ پی پی بنیادی طور
پر کرپشن پارٹی ہے اور زرداری کرپشن کنگ۔ اسی تخیل کو سامنے رکھ کر کالم
لکھے جاتے، تجزئے کئے جاتے، اور میڈیا کے ذریعے ماحول بنایا جاتا ہے کہ پی
پی ہی کرپشن کی بانی اور اس کی روایات کی امین ہے، ان کا دور جب بھی آیا،
کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ مگر اس مقام پر بہت ہی اہم سوال سراٹھاتا
ہے، اب یہ عوام کی مرضی کہ وہ یہ سوال حکمرانوں سے کریں یا نہ، کہ زرداری
کو ’’ٹین پرسنٹ‘‘ بے نظیر دور میں کہا گیا، بعد ازاں ایک طویل عرصہ تک
زرداری کو اسی کرپشن کے جرم میں دہائیوں جیل میں گزارنا پڑے۔ تب میاں صاحب
کی حکومت بھی آئی، مگر کسی حکومت اور کسی عدلیہ نے زرداری پر کوئی کرپشن
ثابت نہیں کی۔ جب کہ دعوے ضرورت سے زیادہ کئے گئے، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر
گھسیٹنے کی باربار بات ہوئی، مگر حکومت ملنے اور اختیارات ہونے کے باوجود
نہ ریکوری ہوئی، نہ پیٹ پھٹا اور نہ ہی سڑکوں پر گھسیٹنے کی نوبت آئی۔ اگر
کرپشن ثابت نہیں ہو سکی تو کرپشن کے الزامات کی گردان کرنے کا کیا جواز
بچتا ہے۔
دکان تو کوئی بھی ہو، چمکائے بغیر اس کی ترقی کے امکانات زیادہ روشن نہیں
ہوتے، یہی حال سیاسی دکانوں کا ہے، جب بھی کوئی سیاستدان کسی ایشو پر بات
کرتا ہے تو اسے ٹوکا جاتا ہے، کہ لوڈشیڈنگ پر سیاسی دکان نہ چمکائی جائے،
حکومت کی کرپشن پر سیاسی دکان نہ چمکائی جائے، حکومتی بدانتظامی اور حکومتی
رٹ کے ختم ہونے پر سیاسی دکان داری نہ چمکائی جائے۔ اگر کسی موقع پر بھی
سیاسی دکان چمکانے کی اجازت نہیں تو پھر یہ دکان چلے گی کیسے؟ ظاہر ہے
مخالف سیاستدان تو اس انتظار میں رہتا ہے، کہ اس کا مخالف کوئی چھوٹی موٹی
غلطی کرے تو اس پر پکڑ کی جائے (یعنی سیاسی دکان چمکائی جائے) ۔ ویسے جسٹس
(ر) وجیہہ جیسے شریف اور بااصول آدمی کا موجودہ جمہوری نظام میں سیاسی
پارٹی بنانا بھی قیامت کی نشانی ہی ہے۔ یہاں تو الزامات کی سیاست ہے، دوسرا
جو بھی کرے ، اُس پر تنقید کی جائے، اس پر کیچڑ اچھالا جائے، اس کی اچھی
بات کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، صرف خود کو ہی درست اور اصولوں
پر قرار دیا جائے، دوسروں کی ہر کارروائی کو گمراہی تصور کیا جائے۔ اس
معاملہ میں موصوف بھی دوسروں کو سیاسی دکان چمکانے کے طعنے دے کر خود کو
سیاستدان ثابت کر رہے ہیں۔ ویسے امیر ترین سیاستدانوں کا غریب ترین عوام کی
نمائندگی کرنے کا عمل بھی قیامت کی ایک نشانی ہی ہے۔ حکمرانوں کی مراعات
اور عیاشیوں سے غریبوں کے دل ڈوبتے ہیں، اور غربت سے ہونے والی خود کشیاں
تو قیامت کی نشانی نہیں خود قیامت ہیں۔ غریبوں پر قیامت برپا ہے، سیاستدان
ابھی قیامت کی نشانیاں بتاتے پھرتے ہیں۔ |